کوٹ کا بھوت


سینٹ ہیلینا جزیرے کے لانگ ووڈ ہاؤس میں بھوت کا بسیرہ تھا۔ یہ بات وہاں کے باشندوں میں مشہور تھی۔ بچہ بچہ کہتا تھا کہ یہ بھوت فرانسیسی سمراٹ نپولین بوناپارٹ کا ہے۔ نپولین بوناپارٹ واٹرلو معرکے میں برطانوی فوج سے شکست کھانے کے بعد گرفتار ہو کر یہاں قید رہے اور 1821 میں ایڑیاں رگڑتے ہوئے یہاں مر گئے۔

بھوت کے خوف سے لانگ ووڈ ہاؤس میں کوئی بھی رہائش کے لئے تیار نہیں تھا۔ وقت کی ویرانی اور عدم توجہی سے عمارت زبون حالی شکار ہو کر کھنڈر بن گئی۔

سینٹ ہیلینا کی انتظامیہ بھوت کا خوف ختم کرنا چاہتی تھی اس لئے انہوں نے لانگ ووڈ ہاؤس کو گرا کر دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 1950 سے 1955 کے دوران عمارت کو گرا کر نئے سرے تعمیر کیا گیا۔ اور عمارت سے ملنے والی اشیا کو نیلام کر دیا گیا۔ کیوریٹر نے کچھ اشیا کو اپنے پاس رکھ لیا، ان میں نپولین بوناپارٹ کا ایک خوبصورت کوٹ بھی تھا۔ کیوریٹر نے یہ کوٹ فرانسیسی ایمبسیڈر ایم میسیگلی کو تحفے میں دے دیا۔

نئی عمارت کو تعمیر اور تزئین و آرائش کے بعد عوام کے لئے کھول دیا گیا۔ عمارت کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں میں سے بھوت کا خوف بھی ختم ہو گیا۔

ایم میسیگلی ایک شب کسی سرکاری تقریب میں جانے کے لئے تیار ہو رہے تھے۔ انہوں کبٹ میں رکھے کوٹ کو نکال کر پہن لیا۔ کوٹ پہنتے ہی ان میں اکڑ آ گئی۔ غرور سے انہیں دوسرے کمتر نظر آنے لگے۔ اور خود کو سب سے افضل پایا۔

آئینہ دیکھا تو وہاں اپنے جگہ کسی اور پایا۔ عکس دیکھ کر میسیگلی ڈر گئے اور دونوں ہاتھوں سے چہرے کو چھپا لیا۔ کچھ لمحات کے بعد ڈرتے ڈرتے دوبارہ آئینے میں دیکھا۔ اور چہرے کو پہنچانے کی کوشش کی۔

آئینے والا چہرہ ان کے لئے اجنبی نہیں تھا۔ مگر ڈر کی وجہ سے وہ بے حال ہو گئے۔ آئینے میں نپولین بونا پارٹ کو دیکھ کر انہیں بھوت یاد آ گیا۔

آئینے والے چہرے یعنی نپولین بوناپارٹ نے میسیگلی سے کہا ”میں نپولین بوناپارٹ ہوں۔ تم مجھ سے ڈر رہے ہو اپنے سمراٹ ڈر رہے ہو۔ تم نے میرا کوٹ پہنا ہے۔ اس لئے تم مجھے دیکھ سکتے ہو۔ میرا کوٹ پہنا ہے تو اب میری شکتیاں بھی تم آ گئیں ہیں۔ اب تم سمراٹ نپولین بونا پارٹ ہو۔ تم نے وہ کام کرنے ہیں جو میں ادھورے چھوڑ گیا ہوں۔ تم نے واٹرلو معرکے کا فرنگیوں سے بدلا لینا ہے۔ “

جو میسیگلی کچھ دیر پہلے ڈر رہا تھا اب خود کو سپہ سالار نپولین بوناپارٹ سمجھنے لگا۔
” میں نپولین بونا پارٹ ہوں!“

” ہاں تم۔ سپہ سالار نپولین بونا پارٹ ہو۔ تم سب سے الگ اور خاص ہو، سب سے طاقتور، سب سے بہادر اور سب سے بڑے جنگجو ہو۔ تم نے فرانس کو طاقتور بنانا ہے۔“

” آپ درست کہہ رہے ہیں مگر میں کوئی فوجی نہیں ہوں۔ میں ایک عام سا سفیر ہوں“

”تم کیا تھے اسے بھول جاؤ۔ جو تم اب ہو اس پر دھیان دو ۔ میری سنو۔ تم ایک سپہ سالار ہو۔ تمہاری سامنے سب کیڑے مکوڑے ہیں۔ کوئی بھی تم سے افضل نہیں ہے۔ فرانسیسی لوگ بھی کچھ نہیں۔ ان کی تم نے قیادت کرنی ہے۔ تم کھڑے ہو جاؤ۔ یہ سب تمہارے پیچھے چلیں گے۔ جیسے میں تھا۔ تم ان کی قیادت کرو۔ میرے بعد اب یہ ذمہ داری تم کو پوری کرنی ہے۔“

نپولین کی باتیں سن کر میسیگلی دو قوتوں میں گھر گیا تھا۔ ایک طاقت اسے نپولین کی طرف کھینچ رہی تھی تو دوسری اس کے خلاف تھی۔ چونکہ اس میں ایک ڈکٹیٹر اوصاف نہیں تھے لہذا وہ کوٹ اتار کر پلنگ پر پھینکنے میں کامیاب ہو گیا۔

کوٹ اتارتے ہی وہ ایمبیسڈر ایم میسیگلی کی طرح ہی سوچنے لگا۔ جو کچھ دیر پہلے اس کے خیالات میں تھا وہ ہوا ہو گیا۔ اسے ایک خواب سے محسوس ہوا۔ میسیگلی نے کوٹ کو دوبارہ ہنگر میں ڈال کر کبٹ میں لٹکا دیا۔

کچھ دن بعد اس نے پھر کوٹ پہنا۔ اور پھر وہی سب ہوا۔ ایک پل کے لئے وہ خود کو نپولین بوناپارٹ سمجھ بیٹھا۔ مگر پھر اس نے کوٹ اتار پھینکا۔ اور دوبارہ کوٹ نہ پہننے کی قسم کھا لی۔

یہ وہ دور تھا جب جنرل جوب کمانڈر ان چیف کے عہدے پر فائز ہوچکے تھا۔ اور سرکاری دورے پر فرانس گئے ہوئے تھے۔ وہاں ان کی ملاقات ایم میسیگلی سے بھی ہوئی۔ وہ ان کی جنرل کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے۔ ملاقات کے دوران میسیگلی نے کوٹ انہیں تحفہ میں دے دیا۔ کوٹ کو دیکھ جنرل بہت خوش ہوئے۔

” یہ کوٹ فرانس کے سمراٹ نپولین بوناپارٹ کا ہے۔ یہ بہت قیمتی، نادر اور تاریخی کوٹ ہے۔ اسے پہن کر آپ کی شخصیت مکمل ہو جائے گی۔“ میسیگلی نے جنرل سے کہا۔

وطن لوٹ کر جنرل نے وہ کوٹ پہنا اور خود میں نپولین بوناپارٹ کی روح کو محسوس کیا۔
جنرل جب جب کوٹ پہنے آئینے کے سامنے گیا خود کو سب سے اعلیٰ اور طاقتور پایا۔

آئینے کے سامنے جاکر نپولین سے مکالمہ کرنا ان کا مشغلہ بن گیا۔ نپولین نے جنرل کو ذہین اور چالاک جنگجو اور سپہ سالار بننے کے ساتھ ایک ڈکٹیٹر کے گر بھی بتا دیے۔ سب حرفتیں سمجھنے کے بعد جنرل مناسب وقت کا انتظار کرنے لگے۔

پھر وہ دن آیا جب جنرل نے نپولین کے کوٹ کو وردی کی طرح پہن لیا۔ اور کہا کہ یہ ان کی کھال ہے۔

جنرل نے کوٹ پہن کر فیلڈ مارشل ہونے کا اعلان کر دیا اور 1958 سے 1969 تک لگاتار گیارہ سال حکومت کی اور سب کو زیر کیے رکھا۔ کسی بھی مخالف کو نہ چھوڑا۔

کوٹ کے بھوت کے بارے میں یہ بات دنیا بھر میں مشہور ہو گئی۔ کئی ملکوں کی شخصیات نے جنرل سے رابطہ کیا اور منہ مانگی قیمت پر کوٹ خریدنا چاہا۔ مگر ان کی مراد پوری نہ ہو سکی۔ جنرل نے کوٹ کو ہمیشہ اپنی ملک کی میراث سمجھا۔ گیارہ سال تک مسلسل پہنے رکھنے سے کوٹ کی سلائی ادھڑ گئی۔ جس کی وجہ سے انہیں کوٹ کو رفوگر کے پاس بھیجنا پڑا۔

کوٹ کے کندھوں سے اترتے ہی جنرل کو حکومت سے بھی اتار پھینکا گیا۔

کوٹ رفو ہونے کے بعد واپس اسٹیبلشمنٹ کی الماری میں رکھ دیا گیا۔ دو اور جنرلز نے بھی کوٹ پہن کر مملکت خداداد میں وہ وہ کارنامے دکھائے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔

کوٹ اب بھی اسٹیبلشمنٹ کی شیشے والی الماری میں موجود ہے۔ آتے جاتے کوٹ ہر جنرل کو للچاتا ہے۔ انہیں اشارے کر کے اپنی طرف متوجہ بھی کرتا ہے۔

مگر فی الحال سب کوٹ کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments