مفلس کی قبا


بغاوت پچھلے چند مہینوں میں بہت پھیل گئی اور فسادات شدید تر ہو گئے تھے۔ فورسز نے پورے علاقے پر کرفیو لگا کر آپریشن شروع کر دیا جس سے ظاہر ہے بہت خون خرابا ہوا اور فریقین کے ساتھ ساتھ عام آدمی بھی متاثر ہوئے۔ ہاں اگر کسی کو ان فسادات کی کوئی پرواہ نہ تھی تو وہ سمی اور خیر محمد تھے۔ سمی اور خیر محمد گاؤں کے سردار کے باغات اور کھیتوں کا سارا انتظام دیکھتے تھے۔ سردار کی کوئی آٹھ سو ایکڑ اراضی تھی جس میں تقریباً پچیس سے تیس مزارعے کام کرتے تھے۔ فصل ٹھیک ٹھاک ہوتی مگر یہ سب مزارعے مکمل طور پر سردار کے رحم و کرم پر تھے کڑی مشقت کے بعد کسانوں کو صرف اتنا ملتا تھا کہ غریبوں کی دو وقت کی روٹی نکل جاتی تھی، اور بدن پورے ننگے ہونے سے بچ جاتے تھے۔

مگر جب فسادات ہوئے تو باغیوں نے پہاڑیوں پر اپنا ٹھکانہ بنا لیا تھا جہاں سے کبھی وہ ایسا بارود داغتے جو غلطی سے باغوں پر کام کرتے مزارعوں پر گرتا۔ یہی صورت فورسز کی بھی تھی۔ کوئی مرتا تو یہ گونگے بہرے مزارع زیادہ سے زیادہ یہ کرتے کہ سردار کے پاس جاکر شکایت کر آتے۔ سردار کو ان کی جانوں کی تو کوئی پرواہ نہ تھی البتہ یہاں یہ مشکل تھی کہ اس کے باغوں کو بھی کافی نقصان پہنچتا تھا سو وہ مہینے میں ایک آدھ بار حکومتی عہدیداروں کے پاس مزارعوں کے جانی نقصان کا رونا لے کر چلا جاتا۔ ان سب وجوہات کے سبب کھیتوں اور باغات کا کام متاثر ہوا تھا اور فصل میں بھی بہت کمی واقع ہو گئی تھی۔ سردار اپنے اخراجات میں تو کچھ زیادہ قناعت نہ کر سکتا تھا، نتیجہ یہ نکالا کہ مزارعے جو پہلے آٹے کی ایک بوری پر بمشکل مہینہ گزارتے تھے اب آدھی بوری ملنے پر بھی شکر بجا لانے لگے۔

مگر سمی کو نہ ان فسادات سے کوئی غرض تھی نہ اس کو سردار کے ظلم و استبداد کی کچھ پرواہ تھی۔ وہ تو اپنا فارغ وقت بس ایک پوٹلی کے بیچ میں حفاظت سے رکھی ہوئی ایک سفید چادر سے باتیں کرتے، چومتے اور سینے سے لگاتے گزارتی۔ شاید گاؤں دیہات کی عورتیں کچھ زیادہ جذباتی ہوتی ہی ہیں مگر یہاں تو بات بھی اولاد کی تھی۔ وہ بھی اکلوتی اولاد کی۔ کیونکہ یہ چادر ایک تو یوں بھی قیمتی تھی کہ گھر کی واحد شے تھی جس میں پیوند نہیں لگے تھے لیکن سب سے اہم یہ کہ یہ چادر اس کے بیٹے جان محمد کی پسندیدہ تھی۔ اسے یاد تھا کہ اس چادر کو اوڑھے بنا جان کو نیند نہیں آتی، بچپن میں جب سمی جان محمد کی کسی ضد کے آگے زچ ہوتی تو جھلا کر کہتی:

” روتا رہ۔ آج رات چادر نہیں ملے گی تجھے۔“

یہ دھمکی سنتے ہی ننھا جان سمی سے لپٹ جاتا اور آنسو بھری آنکھوں سے مسکراتا ہوا بتاتا کہ وہ تو یونہی مذاق کر رہا تھا۔

”ہٹ دور ہو۔ میں ناراض ہوں تجھ سے۔“

سمی مصنوعی غصے سے کہتی مگر مصیبت تھی کہ اسے غصے میں ہنسی آجاتی اور ماں لاکھ ڈانٹے مگر ایک بار ہنس جائے تو پھر کس کو فکر ہوتی ہے۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے وقت پر لگا کر اڑا اور آن کی آن میں جان محمد جوان ہو گیا اور اعلی تعلیم کے لیے شہر جانے کی خواہش کی۔ پہلے پہل تو سمی اور خیر محمد نے مخالفت کی مگر پھر بیٹے کی ضد کے آگے ہار مان گئے اور یوں جان چلا گیا۔ جاتے وقت سمی نے جان کو روک کر کہا تھا۔

”شہر سے میرے لیے اسی طرح کی ایک سفید کڑھائی والی چادر لے آنا۔“

شاید اسے لگتا تھا کہ کچھ دنوں کی بات ہے جان بہت جلد ہی افسر بن کر لوٹ آئے گا لیکن تب سے اب تک وہ ایک بار بھی نہ وہ گاؤں آیا تھا نہ کوئی پیغام بھجوایا۔

سردار کو تو نہ جانے کیوں ہمیشہ سمی سے بیر رہا تھا مگر اب جبکہ سمی نے سردار کی سخت مخالفت کے باوجود جان کو اعلیٰ تعلیم کے لیے شہر بھجوا دیا تو سردار کو بڑی ہتک محسوس ہوئی۔ اس کے لیے بڑی شرمندگی کی بات تھی کہ اس کے اپنے بیٹے تو نالائقی کی سند لے کر گھومیں اور اس کے معمولی مزارع کا بیٹا اعلی تعلیم حاصل کرے۔ اب انتقاماً وہ آتے جاتے سمی پر فقرے کستا اور ذرا سی بھول چوک پر گالیاں بکتا اور کبھی تو مارپیٹ سے بھی دریغ نہیں کرتا تھا۔

اس استحصال پر سمی کی آرزو مزید شدید تر ہوجاتی تھی کہ بس جلدی جلدی یہ چار سال گزر جائیں اور جان محمد افسر بن کر لوٹے۔ کیونکہ اسے یقین تھا کہ اس کا بیٹا جس دن افسر بن کر لوٹے گا اسی دن وہ سردار کو گریبان سے پکڑ کر گرفتار کر لے گا اور سمی کی ایک ایک آہ، ہر ہر سسکی کا پورا پورا حساب بے باق کر لے گا۔

مگر قسمت کہ اسی امید پر سمی نے چار سال تو گزار لیے۔ مگر نہ جان آیا نہ کوئی خبر پہنچی۔ وقت رکا نہیں اور چار کے بعد پانچ سال بھی گزر گئے۔

اب مزید جتنا وقت گزرتا جا رہا تھا امید کی لو بھی مدہم ہوتی جا رہی تھی۔ اگر زندگی سے ”امید“ ختم کردی جائے تو انسان جیتے جی مر جاتا ہے، اور شاید یہی کچھ جان کے باپ خیر محمد کے ساتھ ہوا تھا۔ دنیا والوں کے لیے وہ زندہ تو تھا مگر دیکھنے والے بڑے وثوق سے بتا سکتے تھے کہ وہ مر چکا ہے۔

بس ایک زندہ لاش کی طرح صبح سویرے اٹھ کر وہ باغوں اور کھیتوں پرجاتا اور شام ڈھلے گھر واپس آتا، اور چپ چاپ میلی سی چادر بچھائے سو جاتا۔ کھانے کا مطالبہ تک نہیں کرتا بس صم بکم بیٹھا رہتا، سمی آگے کھانا رکھ لے تو خاموشی سے کھا لیتا۔ کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتا تو بھی یوں کہ لب تو ہلتے مگر الفاظ ہونٹوں سے ٹکرا کر وہیں رہ جاتے۔

عجیب سرد آنکھیں، جذبوں سے خالی، امید سے عاری آنکھیں تھیں۔
بالکل جیسی مردے کی کھلی آنکھیں ہوتی ہیں۔

راتوں کو کبھی جب سمی سسک سسک کر روتی وہ ایک نظر دیکھتا اور کروٹ بدل کر سو جاتا تھا۔ کبھی کہیں جان محمد کا تذکرہ نکل پڑتا تو وہ چپ چاپ اٹھ کر چلا جاتا تھا۔

مگر سمی تو ماں تھی جہاں جان کا نام سنائی پڑتا دوڑی چلی جاتی مگر بجز مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آتا تھا۔ اکثر عورت عورت کو ستا کر جو لطف حاصل کرتی ہے وہ اسے کہیں اور سے میسر نہیں ہوتا۔ کبھی سمی گھر کے سامنے باغیچے کے کوویں کے پاس باتیں کرتی عورتوں کی محفل میں جاتی تو ہمیشہ گاؤں کی عورتوں کی گفتگو ”جان محمد نہیں آیا“ سے شروع ہو کر ”نہیں آئے گا“ پر ختم ہوتی۔ سب سے پہلے گاؤں کی سب سے سن رسیدہ عورت سو بار دہرایا ہوا فقرہ پھر دہراتی:

”سمی۔ میں تم سے چالیس سال بڑی ہوں۔ میرا تجربہ یہی ہے کہ پانچ سال شہر میں رہنے کے بعد کوئی اس قبرستان میں واپس نہیں آتا۔“ سمی کا دل ڈوب سا جاتا۔

”نہ ماسی۔ میرا جان پہلا توڑی ہے جو شہر گیا ہے۔ بہت سے لوگ بیس بیس سال رہ کر بھی واپس آتے ہیں۔“ سمی فوراً جواب دیتی۔

”بہت سے لوگ شہر جاتے تو ہیں مگر گھر والوں کے ساتھ۔ چھڑے لڑکے وہاں اگر جائیں، تو مزے نہ کر کے کیوں اس سخت زندگی کے لیے واپس آئیں گے۔“ بڑھیا کی جوان پوتی پانی کے گھڑے کو بغل میں دبائے سمی کے اعتراض کا جواب دیتی۔

”میں نے تو تب ہی تجھے منع کیا تھا۔ لڑکا لوگ تو ضد کرتا رہتا ہے۔ ان کی ساری باتیں مانتے تھوڑی ہیں۔ خود نہ آئے کوئی پیغام تو بھجوا دے“ سمی کی بہن مہرو فکرمندی سے کہتی۔

لمحوں میں سمی کا دل مختلف تاویلیں بنا بنا کر خود ہی رد کر دیتا۔
”کیا پتہ کوئی لڑکی وڑکی دل کو لگی ہوگی اور ہو سکتا شادی ویاہ بھی کرلی ہو۔“
رخسو منہ بسورتی کہتی جیسے جان نے شادی کر کے اس کا کوئی ذاتی نقصان کر دیا ہو۔

”ایں۔ پھر تو ہو سکتا ہے اب تک بچے بھی ہو گئے ہوں۔“ ٹھگنی جگنو مصنوعی حیرت سے انگلی تھوڑی پر جما کر کہتی۔

گھر پہنچ کر وہ کچھ دیر تو ہونقوں کی طرح در و دیوار تکتی رہتی پھر پوٹلی کھول کر وہی چادر نکال کر اس سے کہتی۔

” تجھے پتہ ہے۔ یہ سب کہتی ہیں کہ جان نہیں آئے گا۔ میرا وہ ایک ہی بیٹا ہے، میں نے اسے پڑھایا لکھایا، اب وہ مجھے اس بیابان میں اکیلا چھوڑ جائے گا؟ بتا؟ کیا وہ کبھی نہیں آئے گا؟“

اور پھر چادر میں منہ چھپا کر سسک سسک کر روتی۔
چادر ہولے سے سمی کے کان میں سرگوشی کرتی:

”وہ ضرور آئے گا۔ وہ تیری فکر کرتا ہے اور یہ سب تیرے لیے ہی تو کر رہا ہے کہ تجھے اس ذلالت سے دور لے جائے۔“

اور ایک خفیف سی مسکراہٹ سمی کے ہونٹوں پر آجاتی۔

آج بھی وہ چادر سے ہمکلام ہو کر کچھ بوجھ اتار بیٹھی تھی کہ خیر محمد کی آواز آئی جو خلاف معمول چلا چلا کر اسے بلا رہا تھا۔

سمی۔ او سمی۔ کہاں اے؟ آج خیر محمد باغیچے سے جلدی ہی لوٹ آیا تھا اور غیر معمولی طور پر اس کی آواز میں گرمجوشی بھی تھی۔

سمی آئی تو خیر محمد نے اس کے ہاتھوں میں ایک تھیلا پکڑا دیا۔
”جان محمد نے بھیجا ہے۔“ فقرہ سنتے ہی تھیلا سمی کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرا۔
”کیا کہا؟ جان نے بھیجا ہے؟ کہاں ہے جان؟“
سمی نے خیر محمد کو کندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑا جیسے دیر کرے گی تو ابھی خواب سے جاگ اٹھے گی۔
” وہ ڈرائیور جو ہے۔ بلال۔ آج ہی شہر سے لوٹا ہے۔ جان نے اس کے ہاتھوں یہ تحفہ بھیجا ہے۔ اور۔
اور یہ بھی کہلوایا ہے کہ وہ اسی ہفتے واپس آ رہا ہے اور ہمیں بھی اپنے ساتھ شہر لے کر جا رہا ہے۔ ”
”اسی ہفتے واپس آ رہا ہے؟“ اس کا دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا۔

خیر محمد کے چہرے پر آج بھی بظاہر سنجیدگی تھی مگر آج دیکھنے والے یہ بھی بتا سکتے تھے کہ وہ بھی مسکرا رہا ہے۔

”ہاں۔ کہا تو یہی ہے۔“

سمی کی آنکھوں سے بیک وقت کئی آنسو گرے۔ وہ آگے بڑھ کر خیر محمد کے سینے سے لپٹ گئی۔ کچھ دیر بے حس کھڑے رہنے کے بعد خیر محمد نے بھی دونوں ہاتھوں سے سمی کو بھینچ لیا۔ دونوں مسکرا رہے تھے چہک رہے تھے، مگر آنسو بھی گرتے جا رہے تھے۔ شاید خوشی کے آنسو۔

اسی روز سے سمی نے جان محمد کے استقبال کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اگلے دن گھر کے تمام کپڑے دھو ڈالے۔ دھوبی گھاٹ سے واپسی پر سمی کی مڈبھیڑ اسی بڑھیا سے ہو گئی۔ بڑھیا نے دور سے ہی وہی آزمودہ فقرہ دہرایا:

”معلوم ہے تجھے۔ درناز کا مرد شہر سے واپس آیا ہے۔ تیرا لڑکا نہیں آیا ناں؟ میں کہتی تھی کہ میرا تجربہ۔“

”خالہ میرا لڑکا آ رہا ہے۔“ سمی نے فوراً بات کاٹی۔
” اور ہمیں بھی اپنے ساتھ شہر لے کر جائے گا۔“ پھر تسلی دینے والے لہجے میں کہا۔
”تجربہ کبھی کبھی غلط بھی ہوجاتا ہے۔“
بڑھیا کا پوپلا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
” اور یہ جوڑا بھی بھیجا ہے اس نے سمی کے لیے۔“

مہرو نے بڑھیا کے علم میں اضافہ کیا اور دونوں تمسخر آمیز ہنسی سے بڑھیا اور اس کے تجربے کو وہیں دفن کر کے آگے بڑھ گئیں۔

گاؤں کی بوڑھیوں کے ہاتھ جب کوئی ”راز“ لگ جائے تو وہ ”راز“ کہاں رہتا ہے۔ شام تک یہ ڈھنڈورا پورے گاؤں میں پٹ چکا تھا۔ خبر سردار تک پہنچی تو اس نے اسی شام سمی اور خیر محمد کو اپنے کوٹھی پر بلا بھیجا۔

خیرے بات یہ ہے! تجھے تو مجھ سے زیادہ پتہ ہے۔

کہ اس بار گولہ بارود کی وجہ سے فصل بہت برباد ہو چکی ہے۔ اور تم ہی میرے سب سے تجربی کار کاریگر ہو۔ تم نے ہمارا ساتھ چھوڑا تو باغوں کا تو برا حال ہو جائے گا۔ مزدوروں کے چولہوں میں ٹھنڈ پڑ جائے گی۔ ”سردار اپنے حواریوں کے غول میں بیٹھا تھا۔

خیر محمد ہاتھ جوڑ کر بولا: ”سردار میں خود بھی یہی چاہتا ہوں کہ یہی رہ کر کام کروں مگر سردار اب مرضی بیٹے کی ہے وہ جیسا کہے گا ہمیں وہی کرنا پڑے گا۔“

”ہمیشہ سردار بولتا آیا ہے تو مجھے۔ آج پہلی بار سردار کچھ مانگ رہا ہے تو تو انکار کر رہا ہے مجھے؟“ سردار کے لہجے میں چھپی درشتگی کو سب نے محسوس کیا۔

”سردار ہمیشہ آپ کی ہی تو مانتا آیا ہوں۔ مگر اب بیٹا جیسا کہے ویسا ہی کروں گا۔“
سردار خیر محمد کے جواب سے یک دم تنک کر بولا
”حرام خور! تم نے اتنے سال ہمارے دیے میں سے کھایا، آج ذرا پر کیا نکلے کہ چپڑ چپڑ کر رہا ہے۔“
جواباً سمی چند قدم آگے بڑھی اور انگلی اٹھا کر اتنے زور سے بولی کہ کوٹھی کی در و بام کانپ اٹھے۔
” حرام خور تو۔ اور تیرا خاندان۔“
سردار نے گھبرا کر آس پاس بیٹھے گیدڑ نما حواریوں کو دیکھا۔

” ہم نے تیرے دیے میں سے نہیں کھایا بلکہ تو ہماری محنت میں سے کھاتا رہا ہے۔ تو بھی اور تیرے یہ سارے سنگتی بھی۔ سب کتے ہیں۔ لیکن اب ہمارے راستے میں آ کر نہ بھونکنا ورنہ میرا بیٹا تم کو یوں جیل میں دلوائے گا کہ ضمانت بھی نہیں ملے گی۔ ہمارا بیٹا آ رہا ہے اور ہم جا رہے ہیں۔ “ سمی نے ایک ہی سانس میں سردار کی سالوں کی عزت کو خاک کر دیا۔

کانپتے ہاتھوں سے سردار نے لپک کر لاٹھی اٹھائی۔

”سردار! اگر اب میری بیوی پر ہاتھ اٹھایا تو ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔ خبردار ہاں! خبردار۔ اب میں بے زبان نہیں رہا“ خیر محمد کی آنکھوں میں بھی خون اتر آیا تھا۔ اس کا یہ رنگ سردار نے آج تک نہ دیکھا تھا۔

سردار اپنی جگہ پر جم کر رہ گیا۔ خیر محمد سمی کا ہاتھ تھام کر کوٹھی سے باہر آ گیا۔ سمی مسکرا رہی تھی۔ آج انہوں نے سردار کے خوف کا بت ریزہ ریزہ کر دیا تھا۔ چشم تصور سے سمی نے سردار کو اپنی عزت کے بکھرے ٹکڑے چنتے دیکھا اور اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔ گھر پہنچنے تک سمی بخار میں تپنے لگی۔ رات کے کسی پہر اس کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ خیر محمد اس کے سر کو اپنی گود میں رکھے بیٹھا ہے اور اپنے کرخت ہاتھوں سے بڑی پیار سے سمی کی پیشانی پر ہاتھ پھیر رہا ہے۔

” تو پریشان ہے ناں؟“ خیر محمد نے آہستگی سے پوچھا۔ سمی نے کوئی جواب نہ دیا البتہ خفیف سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آ گئی۔

”تو اب فکر نہ کر! ہم نے اپنے حصے کی سختیاں سہ لیں ہیں۔ اب تھوڑی جتنی بھی زندگی بچی ہے وہ بہت خوبصورت ہے۔ اب جلدی ہی ہمارا بیٹا آئے گا اور پھر ہمیں اس جہنم سے دور لے جائے گا۔ جہاں ستانے والا کوئی نہ ہو گا۔ صرف تم میں اور ہمارا بیٹا۔“ سمی کی دونوں آنکھوں سے آنسو گرے اور بہتے ہوئے کہیں پیچھے جاکر جذب ہو گئے۔ خیر محمد بولتا رہا اور سمی یونہی اس کی گود میں سر رکھے رکھے سو گئی۔

اسی رات باغیوں اور فورسز کے درمیان بڑی خونی جھڑپ ہوئی۔ کچھ باغی گاؤں میں گھس آئے تھے اور گاؤں سے کچھ امدادی سامان پہاڑوں پر باغیوں تک پہچانا چاہتے تھے۔ فورسز کو ان کی مخبری ہو گئی اور یوں رات کو وہ خونی تماشا ہوا کہ صبح ہونے تک 4 باغی اور 2 فورسز کی لاشیں زمین پر پڑی تھیں۔ گاؤں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور لوگ دن میں بھی باہر نکلنے سے ڈرنے لگے کہ کہیں فورسز باغیوں کا ساتھی ہی نہ سمجھ بیٹھیں یا مبادا کہیں باغی فورسز کا مخبر نہ سمجھ لے، دونوں صورتوں میں موت یقینی تھی۔

مگر یہاں موت یقینی سمی اور خیر محمد کی بھی تھی کہ سردار سے اب انہوں نے دشمنی مول لی تھی اور دوسری جانب ہفتہ گزرنے والا تھا مگر جان محمد اب تک نہ آیا تھا۔

”مہرو۔ سچ سچ بتا؟ تجھے لگتا ہے کہ جان واپس آئے گا اور ہمیں شہر لے کر جائے گا؟“
سمی نے دور کہیں خلاؤں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” نہ آنا ہوتا تو وہ پیغام کیوں بھیجتا؟ آئے گا جبھی تو پیغام بھیجا۔“
مہرو نے تسلی دی۔
”ہفتے میں آنے کا کہا ہفتہ تو گزر گیا۔“

”آئیں؟ حالات نہیں دیکھتی؟ نہ اندر والا باہر جاسکتا ہے نہ باہر والا اندر آ سکتا ہے اتنا آسان تھوڑی ہے۔“

مہرو نے سمجھایا۔
” وہ تو ٹھیک ہے۔ مگر ایک ہفتہ پھر بھی۔“
مہرو نے سمی کی بات کاٹی۔
”تو تو پھر بھی آخر چلی ہی جائے گی۔ ہم تو اسی جہنم میں مر جائیں گے“
مہرو کی اس بات پر کچھ دیر پراسرار سی خموشی چھائی رہی۔ پھر مہرو ہی بولی۔
” خیرو بھائی کہاں ہے؟“
”پتہ نہیں“

دفعتا دھڑام سے دروازے کھلا۔ خیر محمد شاید پہلی بار زندگی میں بھاگتا بھاگتا آیا تھا۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی جو چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔

فرط مسرت سے باچھیں کھلیں ہوئیں تھیں۔
” چل تو، میرا، بیٹا آ گیا ہے۔ بس اب چل۔ وہ آ گیا ہے۔ چل کے خود دیکھ لے۔“
سمی یک جست اٹھی۔
”میرا جان آ گیا ہے؟ کہاں ہے“ پھر مہرو کی جانب مڑی۔ ”دیکھ میرا بیٹا آ گیا ہے۔“

” وہ ادھر باغیچے کے پاس آیا ہے۔ ادھر ہی آ رہا ہے۔ تو چل جلدی۔“ خیر محمد پلٹا اور پورے زور سے باغیچے کی جانب دوڑا۔ سمی بھی پوری رفتار سے اس کے پیچھے بھاگی۔ نہ جانے بوڑھے جسموں میں کہاں سے اتنی طاقت آ گئی تھی کہ دیوانہ وار بھاگتے ہوئے پاؤں جگہ جگہ سنگ و خشت سے زخمی ہو رہے تھے مگر دونوں کو پرواہ نہ تھی۔

ادھر سردار حویلی میں اپنے حواریوں کے غول میں بیٹھا قہقہے لگا رہا تھا، انواع و اقسام کے کھانے بنائے جا رہے تھے، ایک طرف طرح طرح کے مشروبات بھی تیار تھے۔ نیم جشن کا ماحول تھا۔ جیسے کہ سردار کا کوئی دیرینہ کام آج پورا ہونے جا رہا تھا۔

کوٹھی کے بائیں جانب کچھ دور باغیچے کے قریب ایک افسر وائرلیس سیٹ پر کان لگائے تھا جیسے کسی کے احکامات کا منتظر ہو۔

کچھ لمحے بعد اس کا وائرلیس بجا۔
”شوٹ ہیم۔“

یکے بعد دیگرے تین فائر ہوئے۔ اسی لمحے پہاڑوں پر کسی غار میں باغیوں نے ہدف کا کامیاب نشانہ بنانے پر زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا اور ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے۔

باغیچے سے کچھ دور کسی مسافر کا پھٹا ہوا بیگ پڑا تھا جس میں باقی سارا سامان تو موجود تھا مگر ایک سفید چادر ہوا کے اثر سے آدھی باہر نکل گئی تھی اور ہوا کے جھونکوں کے ساتھ رقص کر رہی تھی۔

مکرم کریمی
Latest posts by مکرم کریمی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments