عضو تناسل سے سوچنے والے لوگ


اس اصطلاح کو استعمال کرنے کی وجہ سے بہت سوں کو اعتراض ہو سکتا ہے کہ سوچا تو دماغ سے جاتا ہے عضو تناسل سے نہیں۔ میں یہاں اس اصطلاح کی وضاحت کرتا چلوں کہ دماغ سے سوچنے والے لوگ ریشنل اور لوجیکل ہوتے ہیں، ایسے لوگ مسائل کا سامنا کر کے ان کا حل لوجیکل بنیادوں پر ڈھونڈ نے کی کوشش کرتے ہیں مگر عضو تناسل سے سوچنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود تو بے شرمی کی حد تک پردے کے پیچھے سب کچھ کرتے ہیں مگر لوگوں میں پرہیز گار ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور میسنے بن کر زندگی انجوائے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ان کو ہر جگہ گندگی نظر آتی ہے اور یہ خود بھی گندگی میں لتھڑے ہوتے ہیں مگر ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ حقیقت میں یہ لوگوں کو منافق بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اب لوٹتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ مرد کے ساتھ یہ جو چند انچ کا لحم معلق لگا ہوا ہے اس کے سیاپے ہی وکھری ٹائپ کے ہیں، یہ لگا ہوا سب مردوں کے ساتھ ہے مگر اس پر یا اس سے جڑے ہوئے مسائل پر ڈسکس کرنا حرام اور بے غیرتی ہے۔ اسی حرام اور بے غیرتی کے لحاف میں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو مرد کو اس ٹھرک کی خاطر بھٹکنے پر مجبور کر دیتی ہے مگر وہ عزت ذلت سے بے نیاز اسی شاہراہ پر چلتا رہتا ہے۔ وہ سب کچھ اپنا داؤ پر لگا دیتا ہے اپنی جنسی پیاس بجھانے کے لئے ان کی ذہنیت اس طرح کی بن جاتی ہے کہ جہاں سوراخ دیکھتے ہیں وہیں اپنی چند انچ کی بوٹی گھسا دیتے ہیں حتی کہ بلی بکری اور بھینس تک کو نہیں چھوڑتے۔ ہمارے شہر میاں چنوں میں حال ہی میں دو دلخراش واقعات پیش آئے جس میں ایک درندے نے 5 سالہ معصوم بچی کو جنسی تشدد کر کے مار ڈالا اور دوسرے واقعہ میں ایک بندے نے 6 سالہ بچے کے ساتھ اپنی جنسی ہوس مٹائی اور مار ڈالا۔ اس طرح کے درندہ صفت لوگوں کو نفسیات کی زبان میں (سائیکوپتتھ یا سوشیو پیتھ) کہا جاتا ہے۔ ان دونوں اصطلاحات کو اگر ایک جملے میں کہا جائے تو اس مکروہ رویہ کو (اینٹی سوشل پرسنیلٹی ڈس آرڈر ) کہا جاتا ہے۔

اس طرح کے بندوں کا اندرونی وارننگ بیرومیٹر یا کھلے ڈلے لفظوں میں کہیں تو ضمیر ہی مردہ ہونے لگتا ہے، اس طرح کے لوگ جرم کی سنگینی سے بے نیاز ہو کر غیر محتاط اور جلد بازی پر مبنی فیصلے لینے لگتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ دیکھنے میں بالکل صحت مند و توانا لگتے ہیں مگر ان کی ذہنی صحت بہت زیادہ ڈسٹرب ہوتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کی مکروہ ذہنیت یا رویے پیدائشی ہوتے ہیں یا معاشرے میں ہی فروغ پاتے ہیں؟

اب اس اہم سوال کا جواب روایتی فکر تو کچھ اس طرح سے دیتی ہے کہ یہ مکروہ رویے مذہب سے دوری کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں یا وہ کہیں گے کہ ریپ ہونے کی بنیادی وجہ خواتین کا شارٹ ڈریس یا اس کا تنہا گھر سے باہر نکلنا ہوتا ہے۔ لیکن اس کا جواب اتنا سادہ اور بلیک اینڈ وائٹ نہیں ہے۔ اب جتنا مذہب اور مقدس کتب مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں اور اس کے علاوہ ذکر و اذکار کی مجالس بھی ہوتی ہیں مگر جتنی ( بچہ بازی) وہاں ہوتی ہے کہیں اور نہیں ہوتی۔

آپ شیخ الحدیث مفتی عزیز کا کریکٹر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ یہ باتیں میں نہیں کہہ رہا بلکہ آپ قاری حنیف ڈار کی وہ ویڈیو دیکھ سکتے ہیں جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ مدارس (گے ازم) کو فروغ دے رہے ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ اگر نیچرل گے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ دنیا میں گے کمیونٹی کا بھی وجود ہے اور دنیا کا حصہ ہوتے ہوئے ہمارا ان کے لیے احترام بہت ضروری ہے لیکن اگر یہ علت شیخ ہے تو بہت ہی قبیح عمل ہے۔

اس کے علاوہ آپ انجینئر محمد علی مرزا کا وہ ویڈیو کلپ دیکھ سکتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مدارس میں بچہ بازی کی وجہ ان کی مسائل و فتاوی کی کتب ہیں جن میں جانوروں کے ساتھ سیکس کرنے جیسے مسائل درج ہیں، ان مسائل کی نشاندہی گھر کے بھیدی ہی کر رہے ہیں جو اس کلچر سے اندورنی طور واقف ہیں۔ اگر ہم لوجیکل گراؤنڈ پر اس جنسی فرسٹریشن کو جانچنے کی کوشش کریں گے تو ہمیں بہت سی وجوہات نظر آئیں گی۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ شروع دن سے میل اور فیمیل کے رشتے کو مشکوک بنا کر پیش کیا گیا ہے اور دونوں کو الگ الگ شناخت دے کر ایک کو مکمل آزادی دے دی گئی اور دوسروں کو ستر پوشی اور نردے کے نام پر گھروں میں قید اور سکول، کالج اور یونیورسٹی میں الگ الگ تعلیم دینے کے نام پر بالکل ہی الگ تھلگ کر دیا گیا۔

اس روایتی قدغن کی وجہ سے تعلیم کی اصل روح اور مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے، ایک صحت مندانہ انٹریکشن نہ ہونے کی وجہ سے (creativity، creative  thinking، communication and collaboration) ممکن ہی نہیں ہو پاتی اور یہ صلاحیتیں ایک صحت مند دانہ انٹریکشن اور ایکسپوژر کے بغیر صحیح معنوں میں پروان نہیں چڑھ سکتی۔ ایک بہترین رشتے کی ابتدا ایک صحت مندانہ انٹریکشن سے ہی تشکیل پاتی ہے ورنہ تو وہ ایک مریضانہ تعلق کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یہی مریضانہ پن لوگوں کو سائیکوپیتھ بناتا ہے۔

جس کی وجہ سے جنسی گھٹن فروغ پاتی ہے، دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹھرک پن کا لیول کم کرنے کے لئے واحد راستہ ریپ ہی ہے یا اس کے علاوہ کچھ اور دوسرے راستے بھی ہیں؟ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری معاشرتی بنت ایسی ہے کہ شادی سے پہلے سیکس ممکن نہیں ہوتا یا کھلے عام دستیاب نہیں ہوتا، اب اس کا روایتی جواب تو یہی ہے کہ عبادات و مناجات سے اس جنسی آگ کو شادی نہ ہونے تک ٹالتے رہیں مگر حقیقت میں ایسا ممکن نہیں ہوتا۔

اس منہ زور جبلت کا حل نفسیاتی ڈاکٹر (ماسٹربیشن) بتاتے ہیں جسے عرف عام میں ( مشت زنی) بھی کہا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے آپ کا جنسی غبار کم ہونے لگتا ہے اور آپ اپنا گند معاشرے میں ریپ کر کے نہیں پھیلاتے بلکہ خود تسکینی سے خود کو کنڈیشن کر لیتے ہیں۔ یہ نیچرل عمل ہے اگر آپ کی سیکس ضرورت پوری ہو رہی ہو تو آپ کے اندر کا جنسی حیوان بہلتا رہتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ جنسی درندے چھوٹے بچے یا بچیوں کو ہی اپنی جنسی بربریت کا شکار کیوں بناتے ہیں؟

یا جانوروں پر اپنی جنسی بھوک کیوں مٹاتے ہیں؟ بنیادی وجہ یہ ہے کہ بچے، جانور یا کفن میں لپٹی مردہ عورت ایسے درندوں کے آسان ہدف ہوتے ہیں۔ بچہ یا جانور چیختے اور تڑپنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے جبکہ مردہ عورت نے تو خیر کیا بولنا ہے اسے تو زمین پر ہی زندہ لاش بننے کی پریکٹس بڑے اچھے سے کروا دی جاتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ان مسائل پر بات کرنا ہی نہیں چاہتے سیکس یا اس سے جڑے مسائل پر گفتگو کرنے سے بہت سوں کا ( پرہیزگاری اور متقی پن) کا پرسونا یعنی ماسک اتر جاتا ہے۔

اب ان میں فحش نگار منٹو جتنی جرات تو نہیں ہے جو ڈنکے کی چوٹ پر کہتا تھا کہ میں سیکس ورکر کے پاس رومال میں منہ لپیٹ کر نہیں جاتا اور شراب پینے کے بعد منہ میں الائچی نہیں رکھتا جو میں ہوں سو ہوں۔ طاہر اشرفی کا وہ کلپ یاد کیجئے جس میں موصوف شراب کے نشے میں دھت اینکر کے سوال کا اول فول جواب دے رہے تھے وہ کلپ آج بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔ منافقت کا یہ عالم ہے کہ ان مسائل پر بات بالکل نہیں کرنی اور پردے کے پیچھے سب کچھ چلتا رہتا ہے۔

اپنے منافقانہ رویوں کی وجہ سے جس چیز کو آپ جان بوجھ کر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں یا دبے لفظوں میں ( آئیں بائیں شائیں ) کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہی سب کچھ انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ سرچ ہوتا ہے فرق صرف اتنا ہے جو چیزیں بیٹھ کر ڈسکس کرنے سے نارملائیز ہو سکتی ہیں وہی ہماری منافقت کی وجہ سے فرسٹریشن یا جنسی گھٹن کا روپ اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ بھی ایک طرح سے ہماری منافقانہ سطح کا ایک لیول ہے کہ سیکس سب کو چاہیے مگر اس پر بات کرنا گناہ کبیرہ اور اخلاقی معیار سے گری ہوئی بات ہے ہر مسئلے کا حل ٹو پلس ٹو فور نہیں ہوتا بلکہ بہت سے گرے ایریاز ہوتے ہیں۔

جنہیں جانے، سمجھے اور پرکھے بغیر محض (استغفار) کی تسبیح کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ ان مسائل کا حل انسانی فہم سے ہی ممکن ہو سکتا ہے اور دماغ سے سوچنے والوں نے ہی ان نتائج تک پہنچنے کی کوشش کی ہے کہ جنسی گھٹن کس وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور اسے نارمل کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس گھٹن کے نتیجہ میں ایک بندے میں کیا پرسنیلٹی ڈس آرڈرز پیدا ہو سکتے ہیں؟ اور ان کے مطلوبہ حل بھی بتائے ہیں جو کہ پریکٹیکل ہیں۔ انہی آبزروایبل حقائق کی روشنی میں ہی مسائل کا حل نکل سکتا ہے روایتی فکر تو گہرے مسائل کو سمجھنے سے ہی قاصر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments