چلبلی لکھتی ہے


جان سے پیارے جانو!
خیریت موجود، و شامت مطلوب۔
میں جانتی ہوں کہ خط لکھنے میں کچھ تاخیر ہو گئی۔
وجہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ میری زندگی میں آپ جانو نمبر 115 بٹا 107 ہیں۔
اتنا عرصہ میں نے فراغت میں نہیں کاٹا بلکہ جب جب جس جس جانو سے ملی، آپ کو بہت یاد کیا۔

کیا کروں، تحائف لیتے ہوئے سبھی کو آپ سے بہتر پایا جس کو دیکھو ایک سے ایک مہنگا اور اعلی تحفہ نظر کرنے کو بیتاب تھا۔

مجھ مروت کی ماری میں انکار کی ہمت کہاں، مجبوراً لے ہی لیے۔

آپ سے تو سالگرہ کے موقع پر جوتا اور جوڑا ہی تو مانگا تھا، کون سا سہیلیوں کے کہے میں آ کر سونے کی انگوٹھی مانگ لی تھی؟

جانتی ہوں، آپ کی اتنی جیب کہاں؟
(منہ ویخ کے چپیڑ ماری دی اے )
اس پر بھی آپ ایک کے ساتھ ایک جوتا مفت ملنے والی سیل سے ایک جوڑا جوتا اٹھا کر آ گئے۔
پہروں دل پر چوٹ سی رہی کہ وہ دوسرا جوتا مجھے ہی پہنا جاتے، خدا معلوم کس کلموہی کو دیا؟
قسم سے میرا کوئی ارادہ نہ تھا کہ میں آپ کا ہیپی نیو ائر کراؤں

جوڑا جو آپ نے چند دن بعد کے وعدے پر اٹھا رکھا تھا، ڈیڑھ مہینے بعد تک نہ پہنچا، یقین کریں 31 دسمبر کی شام دل خون کے آنسو رو رہا تھا کہ اب آپ کا کیا بنے گا؟

بس ایسے ہی عالم بد دماغی میں آپ کی نئی والی اس کو میں نے ساری واٹس ایپ کی چیٹ ہسٹری اور ہم دونوں کی فرط محبت میں ڈوبی ہوئی تصاویر فارورڈ کر دی۔

دل کو ہلکی طمانیت ہوئی کہ اس بار تو آپ کا سچے والا ہیپی نیو ائر ہو جائے گا۔

مگر دل مسوس کر رہ گئی کہ میرا جانو نئے سال کی شروعات ہی سینڈلیں اور چپلیں کھا کر کر رہا ہے گو کہ اس سے بہتر چیزیں بھی دنیا میں دستیاب ہیں جیسا کہ الٹا لٹکا کر ہنٹر بھی مارے جا سکتے تھے تاکہ بندہ جان سے ہی جائے، اس درگت کے بعد جینا بھی کوئی جینا ہے، یہ تو صرف آنسو پینا ہے۔

شعر عرض کیا ہے
پتھر پہ مار کر شیشہ توڑا
جانو کو لے بیٹھا ایک جوڑا
آپ کے دکھوں میں برابر کی شریک۔
چلبلی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments