مردوں کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کی طرف سے محبت کا پیغام


تحریم ڈئیر امید کرتی ہوں۔ تم مزے میں ہو نگی۔ بس ہم گمان اچھا کرتے ہیں۔ تاکہ ماحول بہار سا رہے۔ ہمارے گمان بھی تو فضا میں آسودگی اور آلودگی کا باعث ہوتے ہیں۔

یار بات کچھ یوں ہے کہ اپنا لکھتے کا موڈ نہیں بن رہا تھا۔ زندگی ہے ناں، اپنا حصہ مانگتی ہے اور ہم ہیں آزاد پنچھی، زندگی کو اس کا حصہ دے دیتے ہیں۔ اسی دوران دو موضوعات کہہ رہے تھے۔ ہم ہیں ناں۔ لیکن آج مردوں کے عالمی دن پہ ہم نے سوچا جنہیں ہم نے اتنی ساری اقساط میں مخاطب کیا ہے۔ آج صرف ان کا دن منایا جائے گا۔ اور خصوصی زبر کے ساتھ لفظ کو لکھا ہے۔ ورنہ لکھنے والے پیش کے ساتھ لکھ کر بھی دل کی بات کر رہے ہیں۔ مگر ہم دل کی بات بھی دل کے لفظوں سے صاف صاف کر نے کے عادی ہیں۔ جیسے ذہین کی بات صاف لفظوں میں کرتے ہیں۔ تو دھڑکنے والوں کے دل دھڑک اٹھتے ہیں۔

انتہائی افسوس کی بات ہے۔ کہ ان گندے بچوں نے اپنا دن آپ بھی نہیں منایا۔ یار دوست اکٹھے ہوتے۔ کوئی گپ شپ کرتے۔ کوئی ڈنر، کوئی پارٹی کرتے۔ اچھے اچھے کپڑے پہنتے۔ موسیقی ہوتی، رقص کرتے، روایتی رقص ہو تا یا غیر روایتی۔ کوئی دوست مل کر مووی دیکھنے جاتے۔ کوئی سوشل میڈیا پہ تصاویر لگتیں لیکن بات کچھ یوں سمجھ آئی کہ ان پیاروں کو نہ اپنی خبر ہے، نہ اپنے دن کی۔ بس یہ ہماری خبر پہ آ نکھ، کان، ناک لگائے بیٹھے اپنا آپ فراموش کیے بیٹھے ہیں۔

دوم مرد سن کر، لکھا دیکھ کر، کچھ کے دل میں خیال آ تا ہے ابھی تو وہ لڑکا ہے۔ کچھ کے دل میں خیال آ یا ہے اب وہ مرد نہیں۔ ارے یار، خوف سے نکلو اور کھل کے اپنا دن مناؤ۔

اگر تم خود ہنس نہیں سکو گے، تو دوسروں کو کیسے ہنسا سکتے ہو۔ اپنی زندگی کے حسین لمحات صرف عورت کے حوالے سے نہیں، اپنے آپ کے حوالے سے بھی سجائے جا سکتے ہیں۔ جیسے ہم عورتیں ہر دن منا کر، اس دن کو حسین اور رنگین کر دیتی ہیں۔ ہم بھی تم کو ایسے ہی حسین، رنگین اور خوش دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں تم اپنے دن مناؤ۔ تاکہ تمہارا، تمہاری اپنی ذات پہ اعتماد بحال اور مستحکم ہو۔ تم جینا سیکھو۔

زندگی پل پل جینے کا نام ہے۔ ہر پل کوئی بھی نہیں جیتا۔ نہ ہی جی سکتا ہے۔ سو آپ سب بھی کسی اچھے وقت کا انتظار مت کریں۔ بلکہ موجو دہ وقت کو جئیں۔ یوں نہ صرف آپ کی توانائی میں اضافہ ہو گا، بلکہ یہ دن کیتھارسس کا بھی ذریعہ ہوتے ہیں۔ بہت سے بوجھ بس یونہی اکٹھے مل بیٹھنے اور گپ شپ سے اتر جاتے ہیں۔

مرد ہنسی خوشی کو ضبط کر کے بت بن جانے کا نام نہیں ہے۔ اگر بت ہو گا تو پجاری مانگے گا۔ فطری سی بات ہے۔ لہذا انسان بننے کا اہم ذریعہ یہی ہے کہ اپنے تمام فطری حقوق کے ساتھ جیا جائے۔ دنیا کیا کہے گی۔ یہ آپ کو بھی نہیں سوچنا۔ جی جی، آپ کو اگر یہ محسوس ہو کہ آپ اپنا دن نہیں منا سکتے۔ دنیا کیا کہے گی تو ڈئیر آپ بھی خود پہ ظلم کر رہے ہیں۔

اور جو خود نہیں جیا ہو تا، فطری سی بات ہے دوسروں کو جیتا دیکھ نہیں سکتا۔ لہذا وہ دوسروں پہ بے جا پابندیاں لگاتا ہے۔ دراصل یہ نہ جی سکنے والے کے اندر کا بغض ہو تا ہے۔ جو ایک بیماری ہے۔ ہر انسان کا اتنا ظرف نہیں ہو تا کہ جو اپنے پاس نہیں ہے دوسرے کے پاس برداشت کر سکے۔ یوں سماج میں بگاڑ بڑھنے لگتا ہے۔

افسوس تو یہ بھی ہوا کہ سوشل میڈیا پہ بھی عورتوں نے مردوں کے دن کی نیک تمنائیں پیش کیں۔ مردوں کی اپنے لئے کوئی نیک تمنا نہیں تھی۔ کتنا روکھا پھیکا دن گزارا گیا۔

یوں تو زندگی کا مزا نہیں آ تا ناں۔ جب آپ پیدا ہوئے ہیں۔ ہر فطری تقاضا پورا کرتے ہیں۔ آپ نے بھی ہماری طرح مرنا بھی ہے تو آپ اپنا دن کیوں نہیں مناتے؟

یہاں ہمیں آپ سب سے گلہ ہے۔ جیسے آپ کو ہم آپ کو تہواروں پہ، یا عورت دن پہ سج سنور کر اچھے لگتے ہیں۔ عین ہماری فطرت ہے آپ بھی ہمیں یو نہی اچھے لگتے ہیں۔ اگر ہم اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو اسی طرح ہم آپ کو ملے انسانی حقوق کی بھی بات کرتے ہیں۔ فطری حقوق کی بھی بات کرتے ہیں۔ کیونکہ زندگی کا توازن اسی میں ہے۔

ہم مرد کے خلاف نہیں ہیں۔ مرد کے رویے کے خلاف بات کرتے ہیں جو سماج کے مسلسل دباؤ میں بگڑ چکا ہے۔ اور یہ بھی مانتے ہیں۔ سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ جیسے سب خواتین ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ اور جہاں بگاڑ ہے اس کو درست کرنا ہے۔ مگر سماج کے صدیوں پرانے روئیے ابھی اپنی ذات سے نکالنا بھی ہمیں مردانگی کے خلاف لگتا ہے۔ حالانکہ اسے پہلے مرد کا اپنا ہی بوجھ ہلکا ہو نا ہے۔ ان رویوں نے اصل میں تو مرد کے کاندھوں پہ غیر انسانی بوجھ زیادہ ڈالا ہے۔ جیسے وہ رو نہیں سکتا، پٹ نہیں سکتا، بیمار ہے تو آہ نہیں کر سکتا، محبت کرتا ہے تو ڈھنگ سے اظہار نہیں کر سکتا، اسے اخراجات پورے نہیں ہو رہے تو بتا نہیں سکتا، کسی کا کاندھا چاہیے ہو تو بے اختیار جھک نہیں سکتا، اور کتنے ہی جذباتی بوجھ ہیں جو نہ وہ بتا سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے، نہ اتار سکتا ہے۔

حاصل یہ کہ اسے کہیں تو یہ سب نکالنا ہے۔ جو بد صورت رویوں، بد زبانی، بہتان طرازی، دشنام کاری یا بد کرداری جیسے کئی اور رویوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اور انسانی زندگی کا توازن بگڑنے سے زندگی کا حسن خراب ہو تا ہے۔ ورنہ زندگی توازن میں بہت حسین ہے۔

تحریم مجھے بچپن سے روتا ہوا مرد اچھا لگتا تھا۔ جس مرد کی آ نکھ میں آنسو آج آئے مجھے اچھا لگتا تھا۔ اب سمجھ آ یا کہ شاید وہ زیادہ متوازن ہو تا ہے۔ اس کے توازن کا حسن مجھے بھاتا تھا۔ کیونکہ اگر وہ درد پہ رو سکتا ہے تو خوشی میں ہنس بھی سکتا ہے۔ درمیان والا نہیں ہو گا۔

انسان روتے ہوئے دنیا میں آ تا ہے۔ رونا تو زندگی کی علامت ہے۔ یہ لمحے گزرنے کے بعد جینے کا لمحہ آتا ہے۔ رونا سانس کی علامت ہے۔ جو چلتا رہے تو زندگی ہے۔ رک جائے تو موت۔ اور مرد رو نہیں سکتا۔ کتنی احمقانہ بات ہے۔ جب کہ وہ بھی رو کر ہی اپنے زندہ ہونے کی گواہی دیتا ہے۔

ہم گولڈن گرلز ورلڈ کی طرف سے محبت اور سکون بھرا، مہکتا دن آپ سب احباب کو مبارک ہو۔

آؤ مل کر متوازن زندگی کی طرف سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ آؤ نئے ڈھنگ سے ایک دوجے کو مکمل انسان کی طرح سمجھنے کی شروعات کرتے ہیں۔ آؤ زندگی کے حسن کو توازن کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ اور جینے کے نئے ڈھب سے آشنا ہوتے ہیں۔ مل کر نبھانے کی نیت ہو تو زندگی چار موسموں کی طرح گزر جاتی ہے۔

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم
اس سیریز کے دیگر حصےخواتین کے لیے ہدایت نامہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم

گولڈن گرلز کے عنوان کے تحت رابعہ الربا اور تحریم عظیم بتا رہی ہیں کہ ایک عورت اصل میں کیا چاہتی ہے، مرد اسے کیا سمجھتا ہے، معاشرہ اس کی راہ میں کیسے رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے اور وہ عورت کیسے ان مصائب کا سامنا کر کے سونا بنتی ہے۔ ایسا سونا جس کی پہچان صرف سنار کو ہوتی ہے۔

golden-girls has 28 posts and counting.See all posts by golden-girls

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments