وہ نیا مذہب جس نے عرب ممالک میں شدید بحث چھیڑ دی ہے


 

اسلام، یہودیت، عیسائیت

مصر میں مذہبی اتحاد کے لیے شروع کی گئی مہم ’مصر فیملی ہاؤس‘ کی دسویں سالگرہ کے موقع پر ملک کے سب سے اہم اسلامی ادارے جامعہ الاظہر کے اعلیٰ امام احمد الطیب نے ’ابراہیمی‘ مذہب کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ان کی تنقید ایک بار پھر ابراہیمی مذہب کو زیربحث لے آئی ہے۔ گزشتہ ایک سال سے اس مذہب کے حوالے سے عرب ممالک میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔

ابراہیمی مذہب کیا ہے؟

اب تک ابراہیمی مذہب کے وجود کا کوئی سرکاری اعلان نہیں ہوا۔ اس مذہب کے قیام کی بنیاد نہ تو کسی نے رکھی اور نہ ہی اس کے کوئی پیروکار موجود ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے لیے کوئی مذہبی متن بھی دستیاب نہیں۔

فی الحال اسے مذہب سے متعلق ایک منصوبہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ماضی قریب میں اسلام، عیسائیت اور یہودیت مذاہب میں شامل مشترکہ پیغامات پر مبنی حضرت ابراہیم کے نام پر ایک مذہب بنانے کی کوششیں شروع کی گئی ہیں۔

اس کا مقصد ان تینوں مذاہب میں شامل ایمان اور عقیدے سے متعلق تقریباً ایک جیسی باتوں پر انحصار کرنا ہے۔ اس کے علاوہ باہمی اختلافات کو بڑھانے والی چیزوں کو کوئی وزن نہ دیا جانا بھی اس میں شامل ہے۔

باہمی اختلافات سے بالاتر ہوکر عوام اور ریاستوں کے درمیان امن قائم کرنے کے مقصد سے بھی اس خیال کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

اسلام، یہودیت، عیسائیت

اس پر بحث ابھی کیوں؟

دراصل اس مذہب کو لے کر بحث کا دور اور اس سے منسلک تنازعات تقریباً ایک سال پہلے شروع ہوئے۔

اگرچہ لوگ اب بھی یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امام نے اس مسئلہ پر کیوں بحث کی کیونکہ بہت سے لوگوں نے اس مذہب کے بارے میں پہلی بار الطیب سے سنا۔

الاظہر کے شیخ کی طرف سے دی گئی تقریر میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان بقائے باہمی کی بات شامل ہے۔

مصر کے اسکندریہ میں سنہ 2011 کے انقلاب کے بعد پوپ شیناؤدا تھرڈ اور الاظہر کے ایک وفد کے درمیان بات چیت کے بعد مصر فیملی ہاؤس کے قیام پر غور کیا گیا تھا۔

دو مذاہب کے درمیان بقائے باہمی اور رواداری کے بارے میں بات کرنا قابل فہم اور توقع خیر بھی ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شیخ الاظہر نے فیملی ہاؤس سے ابراہیمی مذہب کے حامیوں پر تبصرہ کرنا مناسب سمجھا۔

الطیب نے یہ کہتے ہوئے آغاز کیا کہ ’وہ یقینی طور پر دو مذاہب، اسلام اور عیسائیت، کے درمیان بھائی چارے کی الجھنوں اور دونوں مذاہب کے انضمام کے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’عیسائیت، یہودیت اور اسلام کو ایک مذہب میں ضم کرنے کی خواہش کا مطالبہ کرنے والے آئیں گے اور کہیں گے (کہ وہ) تمام برائیوں سے نجات دلائیں گے۔‘

قرآن

ایک مسلمان قرآن میں حضرت عیسیٰ کے نام کا حوالہ دے رہا ہے

طیب نے مذہب ابراہیمی پر حملہ کیوں کیا؟

الطیب نے نئے ابراہیمی مذہب کی دعوت کو مسترد کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس کے ذریعے جس نئے مذہب کی بات کی جا رہی ہے اس کا نہ تو کوئی رنگ ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ذائقہ اور بو ہو گی۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ابراہیمی مذہب کے حق میں مبلغین یہ کہیں گے کہ وہ لوگوں کے باہمی جھگڑوں اور تنازعات کو ختم کر دیں گے لیکن درحقیقت یہ اپنی آزاد مرضی کے عقیدے اور ایمان کے انتخاب کی آزادی کو ضبط کرنے کی دعوت ہے۔

الطیب نے یہ بھی کہا کہ مختلف مذاہب کو ایک ساتھ لانے کی دعوت حقیقت اور فطرت کی صحیح سمجھ پیدا کرنے کے بجائے ایک پریشان کن خواب ہے۔ ان کے مطابق تمام مذاہب کے لوگوں کو اکٹھا کرنا ناممکن ہے۔

انھوں نے کہا ’دوسروں کے عقیدے کا احترام کرنا ایک بات ہے اور اس عقیدے کو ماننا دوسری بات ہے۔‘

مذہب کی آڑ میں سیاست کے الزامات

ابراہیمی مذہب کے بارے میں الطیب کی گفتگو کو سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے سراہا۔

ان میں عبد اللہ رشدی بھی شامل ہیں جنھوں نے کہا کہ الطیب نے ابراہیمی مذہب کے خیال کو ابتدائی مرحلے میں ہی ختم کر دیا جبکہ دوسروں نے کہا کہ ’تنازعہ اور بحث کے خاتمے کی اس اپیل پر کوئی اعتراض نہیں۔‘

الاظہر کے شیخ نے اپنے خطاب میں مذہب ابراہیمی کی دعوت کی کسی سیاسی جہت کا ذکر نہیں کیا لیکن سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے اسے ’مذہبی پردے میں لپٹی سیاسی کال‘ کے طور پر مسترد کر دیا۔

ایک صارف نے کہا کہ ’ابراہیمی مذہب دھوکے اور استحصال کی آڑ میں ایک سیاسی دعوت ہے۔‘

نئے مذہب کو مسترد کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسے نظریاتی طور پر درست سمجھتے ہیں لیکن اسے خالصتاً ایک سیاسی کیمپ کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کا مقصد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو خاص طور پر عرب ملکوں میں معمول پر لانا اور بڑھانا ہے۔

مذہب

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان کیا تعلقات ہیں؟

لفظ ’ابراہیمیہ‘ کا استعمال اور اس سے متعلق تنازعہ گزشتہ سال ستمبر میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ رشتوں کو معمول پر لانے کے معاہدے پر دستخط کے ساتھ شروع ہوا تھا۔

امریکہ اور اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے مشیر جیرڈ کشنر کے زیر اہتمام اس معاہدے کو ’ابراہیمی معاہدہ‘ کہا جاتا ہے۔

معاہدے پر امریکی محکمہ خارجہ کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’ہم تین ابراہیمی مذاہب اور تمام انسانیت کے درمیان امن کو آگے بڑھانے کے لیے بین الثقافتی اور بین مذہبی مکالمے کی حمایت کرنے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔‘

یہ پیراگراف ’نارملائزیشن آف کنڈیشنز ایگریمنٹ‘ کے ابتدائی حصے میں شامل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا خالصتاً سیاسی یا اقتصادی معاہدہ نہیں بلکہ اس کا ثقافتی مقصد بھی تھا۔

اس کے بعد ہی مختلف ممالک کے مختلف فرقوں کے لوگوں کے درمیان مذہبی رواداری اور باہمی مکالمے کے بارے میں بات چیت شروع ہوئی جو بعد میں ’متحد ابراہیمی مذہب‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔

اسرائیل کے ساتھ حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کے دوران تعلقات کو بہتر بنانے کی مخالفت کرنے والوں کو مذہب ابراہیمی کے منصوبہ نے ایک موقع دے دیا۔ وہ نئے مذہب کی مخالفت کے ذریعے حالات کو معمول پر لانے کی مخالفت کرنے لگے۔

متحدہ عرب امارات پر سوشل میڈیا سائٹس پر ابراہیمی مذہب کی تشہیر کا الزام عائد کیا گیا۔

بہت سے لوگوں نے ابراہیمی مذہب سے متعلق کال کو ابراہیمی فیملی ہاؤس سے بھی جوڑا ہے جو سنہ 2019 کے اوائل میں دبئی کے حکمران محمد بن زاید نے ابوظہبی میں ’پوپ فرانسس اور شیخ الاظہر احمد الطیب کے مشترکہ تاریخی دورے کی یادگار‘ بنانے کے لیے قائم کرنے کا حکم دیا۔

یہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے سے ڈیڑھ سال قبل ہوا تھا۔ ابراہیمی فیملی ہاؤس میں ایک مسجد، ایک چرچ اور یہودیوں کی عبادت گاہ بنائی گئی ہے، جسے سنہ 2022 میں عام لوگوں کے لیے کھولا جائے گا۔

اس کی تشہیر کرنے والوں میں متحدہ عرب امارات کی شیخ سلطان بن زید مسجد کے مولوی وسیم یوسف بھی شامل ہیں حالانکہ اس کو کویت کے مشہور مذہبی رہنما عثمان الخمیس نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

پرانا تنازعہ

’ابراہیمی‘ تنازعہ صرف الاظہر کے شیخ کی رائے کی وجہ سے نہیں۔

’ابراہیمی معاہدے‘ پر دستخط اور ’نئے مذہب‘ کی بحث کے بعد مذہب اسلام کے علما اور رہنماؤں نے اسے مسترد کرنا شروع کر دیا۔

طارق السویدان جیسے کچھ مذہبی رہنما نے اس کا موازنہ توہین رسالت سے کیا۔

اس سال فروری میں انٹرنیشنل یونین آف مسلم سکالرز، مسلم سکالرز لیگ اور عرب مغرب لیگ نے ایک کانفرنس منعقد کی جس کا عنوان تھا ’ابراہیمی مذہب پر اسلامی علما کا موقف‘ تاہم متعدد لوگوں نے اس خیال کا دفاع کیا اور اسے امن کا راستہ بتایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32559 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments