مذہبی مدارس اور جنسی استحصال میں تعلق کب تک؟


ہمارے معاشرے میں اکثر خرابیوں کی وجہ تعلیم بلکہ شعور کی کمی سمجھی جاتی ہے مگر یہ جواز بھی کافی نہیں۔ پسماندہ ماحول ہو یا درس وتعلیم کے مرکز، کوئی بھی غلطیوں سے مبرا نہیں۔ مساجد اور اور دینی مدارس جنہیں ہدایت کا مرکز سمجھا جاتا ہے وہاں بھی بچوں سے بد فعلی جیسے خطا کار اساتذہ کی کمی نہیں۔ رواں برس جون میں لاہور سے ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں ایک امام مسجد اپنے مدرسے میں طالب علم کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنا رہا ہے۔ عزیز الرحمان نامی یہ امام مسجد گرفتار تو ہو گیا لیکن یہ واقعہ ایک بار پھر پاکستانی قوم کو نفسانی ہیجان کی موجودگی کا بدبودار احساس دلا گیا۔ عزیز الرحمان کی گرفتاری کے بعد تحقیقات سے پتہ چلا کہ موصوف کئی برسوں سے طلبا کو اپنی مکروہ حرکات کا نشانہ بنا رہے تھے۔ ایک اور اہم بات یہ کہ جس مدرسے میں ملزم عزیز الرحمان کے ہاتھوں یہ قبیح واقعہ پیش آیا، وہ کسی پسماندہ گائوں یا بستی میں نہیں بلکہ لاہور کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں واقع ہے جسے ملازم پیشہ ڈسپلن کے پابند سول و فوج سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی جدید آبادیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

یہ واقعہ نا صرف پاکستان میں دین کی خدمت پر مامور حضرات کی طرف ہماری توجہ دلاتا ہے بلکہ اس کا دوسرا پہلو ہمارے لیے اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے کہ ہمارے مذہبی عقائد اور معاشرے کے با اثر اس طبقے کو عام لوگوں کے لئے مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ملکی سطح پر منتخب سویلین حکومتوں کو دبائو میں لانا ہو یا خارجہ پالیسی کے خاص اہداف حاصل کرنے ہوں، ہمیشہ سے پاکستان کے علما اور جرنیلوں کے اعلیٰ طبقے ہی کو مثالی بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ان سے وابستہ چھوٹے طبقے کو بھی غیر مشروط طور پر جذباتی لگائو رہتا ہے، چاہے ان کے قول فعل میں کتنا ہی تضاد کیوں نہ ہو۔ جب اساتذہ اور نام نہاد عالم دین ہی کم سن بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے سے نہیں ڈرتے تو معاشرے کے باقی حصوں کو کیسے ان خرابیوں سے بچایا جا سکتا ہے؟

علما اور جرنیلوں کا آپس میں یارانہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اسی یارانے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے علما کم سن بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہوئے نہیں ڈرتے کیونکہ انہیں علم ہے کہ ان کے سر پر ایک طاقتور ادارے کے لوگوں کا ہاتھ ہے جو انہیں کسی قیمت پر ناراض نہیں کر سکتے۔

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق 2020 کے پہلے چھ ماہ کے دوران پاکستان میں 1489 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 2021 کے دوران اس شرح میں 4 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ان میں سے بیشتر واقعات مدرسوں میں پیش آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاحات کی بات ہو یا کسی زانی امام مسجد کے خلاف تحقیقات، پاکستان کے چھوٹے بڑے تمام علماءان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا اپنا خدائی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اس پر ظلم یہ کہ اپنی گمراہ کن سوچ کو اسلام کے لبادہ میں لپیٹ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جو گناہ گار ہونے کے ڈر سے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے۔

صورت حال یہ ہے کہ مدرسوں میں ہونے والے جنسی استحصال کے واقعہ کو لیکر کوئی سوال کرے یا اس میں ملوث کسی عالم، دینی رہنما کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا جائے یا مولویوں کے کردار پر انگلی اٹھائی جائے تو ایسا کرنے والے کو مذہب کے خلاف سازشی، سیکولراور ملحد بنا دیا جاتا ہے۔ کتنے ہی واقعات سامنے آ چکے ہیں لیکن گرفتاریوں کی حد تک کارروائی ہوئی اس سے آگے کچھ بھی نہیں ہوا اور نہ ہی شاید کسی کی اتنی ہمت ہے۔ مولویوں کا آپس میں اس قدر اتفاق ہے کہ یہ لوگ غلط بھی ہوں تو ایک دوسرے کا ساتھ اتنی یکجہتی سے دیتے ہیں کہ کسی کو جرات نہیں ہوتی کہ ان کے خلاف ایک لفظ بھی بول جائیں، کارروائی کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔

پاکستان میں زیادہ تر مدارس میں طالب علموں کے تحفظ کی ضمانت نہیں دی جاتی، طلبا کے نام پر چندہ لیا جاتا ہے اس چندے کے آڈٹ کا کوئی نظام ہے نہ ہی کوئی پوچھ گچھ۔ مساجد میں خطابات کے دوران فرقہ واریت کو ہوا دینے اور نفرت انگیز تقاریر لوگوں کے جذبات کو ابھارنے کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں ایسی تقاریر اور خطبات سننے کے بعد لوگ آپس میں بحث مباحثے کے دوران ایک دوسرے کی جان تک لینے سے گریز نہیں کرتے، ایسی اشتعال انگیز تقاریر یقینا معاشرے میں فساد برپا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

مدرسوں میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال تو ہوتا ہی ہے لیکن ایک اور ایشو کی طرف بھی توجہ دلائے جانے کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ دینی مدارس کو بیرون ملک سے ملنے والی مالی امداد کی نگرانی نہیں ہو رہی۔ اس کا طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہمیشہ سے ہی رہی ہے۔ دینی مدارس کی ازسر نو رجسٹریشن کا معاملہ بھی برسوں سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔

کب تک مذہبی اور مدارس کی تنظیمیں بچوں کے جنسی استحصال کے تماشے کو دیکھتی رہیں گی؟ مذہبی سیاسی جماعتیں کب تک سوئی رہیں گی؟ کب ان کو نکیل ڈالی جائے گی جو معصوم زندگیوں سے ان کا بچپن چھین لیتے ہیں اور انہیں ایک ایسا انسان بنا دیتے ہیں جو نہ صر ف احساس کمتری میں مبتلا رہتا ہے ساری عمر بلکہ اس کے دل میں دوسروں سے بدلہ لینے کے جذبات ساری عمر کھولتے رہتے ہیں اور وہ بھی دوسروں کے ساتھ وہی کرتا ہے جو اس کے ساتھ اس کے بچپن میں ہو چکا ہوتا ہے۔

مختلف مسلک سے منسلک مولویوں کے اپنے اپنے عقائد نے ملک کے انتظامی و سماجی ڈھانچے کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے کسی ذہن کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ ان کے خلاف آواز اٹھا سکے۔ علما نے ”اسلام خطرے میں ہے‘‘ کا بہانہ بنا کر پاکستانی قوم کو شاہ دولے کے چوہے بنا کر رکھ دیا ہے جو مولویوں کی گھڑی ہوئی روایتوں سے آگے سوچ بھی نہیں سکتے۔

اب بھی وقت ہے، پاکستانی عوام اور سویلین حکومتیں اس عفریت کو لگام ڈالنے کی کوشش کریں تاکہ ہماری قوم کے بچے آنے والے وقت کے درندوں سے محفوظ رہ کر ایک خوش و خرم مستقبل حاصل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments