اب ہم کہیں کے نہیں رہے


نوبل پرائز کا نام پہلی بار سکول میں سنا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ ایوارڈ صرف اس کو ملتا ہے جو بہت لائق ہو اور بڑے بڑے کام کرتا ہو۔ ساتھ ہی دنیا میں اس ایوارڈ کو حاصل کرنے والے نمایاں افراد اور ان کے ممالک کے نام لیے گئے۔ بہت سے ملکوں کا ذکر ہوا سوائے اپنے وطن پاکستان کے۔ سوچنے کی بیماری بچپن سے ہے سو اسی وقت سوچا کہ کسی پاکستانی کا نام کیوں نہیں لیا گیا۔ کلاس میں سوالات کرنے کا رواج ہی نہیں تھا لہذا چھٹی کے بعد میں یہ سوال ذہن میں لیے گھر آ گیا۔

آ کر بڑے اشتیاق سے پوچھا، کیا پاکستان سے کبھی کسی نے نوبل پرائز جیتا ہے؟ جواب ملا ہاں۔ میں خوشی سے اچھل پڑا اور پوچھا کس نے؟ جواب ملا ڈاکٹر عبدالسلام نے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ اور پوچھتا ”لیکن“ کہہ کر فوراً ایک جملے کا اضافہ کیا گیا۔ ”وہ قادیانی تھا“ ۔

پوچھا قادیانی کیا ہوتا ہے؟ جواب ملا۔ بس ہوتا ہے۔ ”چلو اب بھاگو یہاں سے۔ سوال بہت پوچھتے ہو تم“ ۔ اس ادھوری گفتگو سے مجھ پر دو باتیں کھلیں۔ ایک تو یہ کہ ایک پاکستانی بھی نوبل انعام جیت چکا ہے اور دوسری یہ کہ وہ ضرور کوئی ایسا کام بھی کرتا تھا جس کی وجہ سے لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے۔

اس کے بعد زندگی میں کئی مرتبہ گھر سکول کالج یونیورسٹی اور پھر پیشہ وارانہ زندگی میں ڈاکٹر عبدالسلام کے نوبل پرائز کا ذکر ہوا اور جب بھی ہوا ساتھ ہی کہا گیا ”لیکن وہ قادیانی تھا“ ۔ شعور کی منزلیں طے کرتے کرتے مجھے اپنے بچپن کے سوال ”قادیانی کیا ہوتا ہے“ کا جواب بھی مل گیا۔ اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ فزکس کے شعبے میں نوبل انعام یافتہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر عبدالسلام کو ان کی قوم نے وہ مقام جس کے وہ مستحق تھے صرف اس لیے نہیں دیا کہ وہ ایک قادیانی تھے۔

یہ جاننے کے بعد ذہن میں اس حوالے سے ہمیشہ ایک آخری خیال ضرور آیا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل انعام فزکس میں تحقیق کرنے پر ملا تھا یا قادیانی ہونے پر؟ اس سوال کا جواب آج تک نہیں مل سکا۔

اگر تو ڈاکٹر عبدالسلام نے قادیانیت کے پرچار پر قادیانیت کا نوبل انعام پایا ہوتا تو مجھ سمیت قادیانیت کو تسلیم نہ کرنے والے ہر فرد کو ان سے لاتعلقی کے اظہار کا پورا حق تھا۔ لیکن انعام ملے ان کو طبعیات میں ایک عظیم کارنامے پر اور لوگ حتی کہ فزکس کے طلبہ بھی ان کی تھیوریز پر غور کرنے کی بجائے توجہ فرمائیں ان کے قادیانی ہونے پر۔ کیا کمال لوگ ہیں ہم۔

اب آتے ہیں پاکستان کے دوسرے نوبل انعام ونر کی جانب۔ اس کا نام ملالہ ہے۔ اب اس کے بارے میں ہونے والی عمومی گفتگو پڑھیے۔

”یار ملالہ نے کمال کر دیا۔ صرف سترہ برس کی عمر میں امن کا نوبل انعام جیت لیا ہے۔ پاکستان کے لیے کتنے اعزاز کی بات ہے“ جواب۔ ”وہ تو مغرب کی ایجنٹ ہے بھائی۔ دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرتی پھر رہی ہے اور تم اعزاز کی بات کر رہے ہو“ ۔

سوچیں یہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ سوال بنتا ہے کہ دھماکے تو طالبان کرتے تھے اور ملک کو بدنام کیا ملالہ نے؟ یہ کیسی غیر ملکی ایجنٹ ہے جو صرف اپنی ہم عمر بچیوں کی تعلیم کی بات کرتی تھی۔ اور یہ کیسے غیر ملکی پشت پناہ تھے جو شرح خواندگی کے لحاظ سے ابھی تک پسماندہ ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے ایک لڑکی کا ساتھ دے رہے تھے؟

جواب ملتا ہے کہ ”ملالہ نے ملک کو بدنام اس طرح کیا کہ وہ جو تقریریں کرتی یا لکھتی تھی اس سے ساری دنیا کو پتہ لگ گیا کہ ہمارے ملک میں کیسے کیسے مسائل اور برائیاں ہیں“ ۔

یعنی طالبان کے دھماکوں کی گونج، ان میں جان سے جانے والوں کی آخری چیخیں، بچ جانے والوں کی سسکیاں اور بچیوں کے سکولوں سے اٹھنے والے شعلے اتنے مدھم تھے کہ اگر ملالہ آواز نہ اٹھاتی تو دنیا کو معلوم ہی نہ ہو پاتا کہ ہمارا ملک کس طرح دہشت گردوں کے شکنجے میں جکڑا جا چکا تھا۔

سوال یہ بھی ہے کہ بعد میں جب ہمارے سیکیورٹی اداروں نے جانوں کے ان گنت نذرانے پیش کر کے ان دہشت گردوں کا خاتمہ کیا تو پھر انہی دہشت گردوں کے خلاف پہلے آواز اٹھانے والی ملالہ غیر ملکی ایجنٹ کیسے ہو گئی۔ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا۔

دنیا کا ہر ملک اپنی قابل شخصیات، اپنے ہیروز کی قدر کرتا ہے۔ سوائے ہمارے۔

یہ صورتحال صرف ڈاکٹر عبدالسلام یا ملالہ تک محدود نہیں ہے۔ ہمارے احمقانہ رویوں نے جانے کتنے ہی روشن دماغوں کو دربدر ہونے پر مجبور کیا اور کتنے ہی بیدار ذہنوں کی روشنی کو پھیلنے سے پہلے ہی بجھا دیا۔ دراصل ہمارے ملک میں ایک ان دیکھا ان مٹ دائرہ کھنچا ہے۔ جو فرد تمام منظور شدہ آداب پر عمل پیرا رہتے ہوئے اس دائرے کے اندر رہتے رہتے کوئی کارنامہ سرانجام دے جائے صرف وہی ہمارا ہیرو ہے۔ جو اس دائرے کے بھدے پن کو اجاگر کر کے اسے ختم کرنے کی کوشش کرے، یا آزاد اور جدید دنیا کے خیالات کو اس دائرے کے اندر متعارف کرانے کی سعی کرنے لگے یا پھر اپنی زندگی کو صرف اپنے انداز میں جینے کا عادی ہو وہ اپنے شعبے میں جتنا بھی عظیم ہو جائے ہمارے لیے وہ راندہ درگاہ ہی رہتا ہے۔

قوم کے سر پر جو فولادی خود ابتدا میں ہی پہنا دیا گیا تھا اس نے لوگوں کے ذہن کی نشوونما کو روک کر اس سطح تک محدود کر دیا ہے جہاں انہیں ہر نیا خیال ہر اختلافی رائے اور ہر بیدار مغز انسان جھوٹا اور سازش کی پیداوار نظر آتا ہے۔

اس ملک میں حقیقی انٹلکچول اب چند ایک ہی رہ گئے ہیں اور وہ بھی کسی فیصلہ یا ذہن ساز پوزیشن پر نہیں ہیں۔ ہر نئے آنے والے دن کسی نا کسی بڑی جگہ پر چھوٹے سے چھوٹا شخص فائز ہوتا ہے اور نوجوانوں کے لیے رول ماڈل کی سطح مزید نیچے چلی جاتی ہے۔ اس سارے پراسس کا حتمی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم فکری طور پر بانجھ اور عملی طور پر ناکارہ ہونے کے بعد اب کہیں کے نہیں رہے۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments