ریاست پاکستان کے لاوارث بچے


دوپہر کا وقت تھا اور ٹریفک وارڈن رکنے کا سگنل دے چکا تھا اور مجھے رکنا تھا قانون کی پابندی اماں ابا نے اچھے سے گھول کے پلائی ہے کہ کوئی نہ بھی دیکھ رہا ہو تو آپ اپنے لیے قانون کی پابندی کرتے ہیں، وارڈن خود بھی پسینہ میں شرابور تھا پاس آ کر بولا آپ نے سیٹ بیلٹ نہیں لگائی چالان ہو گا، اسلام آباد واقعی پاکستان سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، میں نے واقعی بیلٹ جلدی میں نہیں لگائی تھی اور مجھے بالکل امید نہیں تھی کہ اتنے ڈیوٹی شناس وارڈن سے میرا پالا پڑے گا میرے پاس سوائے اس کہ کہ غلطی ہو گئی کہنے کہ کچھ نہیں تھا اور مسکین سا منہ بنا کہ بولا آئندہ نہیں کروں گی سر، اس نے میری طرف چونک کر دیکھا اور بولا آپ نے اتنی تمیز سے بات کی اور غلطی مانی آپ کو چھوڑ رہا ہوں لیکن آئندہ سیٹ بیلٹ لگانی ہے آپ کی حفاظت کے لیے اسے بنایا گیا ہے اور قانون میں شامل کیا گیا ہے مجھے سوائے شکر یہ کہ سمجھ نہیں آیا کیا کہوں لیکن اگلے جملے میں مہربانی کی وضاحت ہو گئی بولا اسلام آباد میں گاڑی اور بڑی گاڑی میں بیٹھنے والا اپنے آپ کو فرعون سمجھتا ہے اور گاڑی روکنا توہین ہوتی ہے آپ نے گاڑی روکی، غلطی مانی اور تمیز سے بات کی اس لیے چھوڑ رہا ہوں اور رونا بند کریں اس کو یہ سمجھانا مشکل تھا کہ جب یہ بات ابا کو پتہ چلے گی تو کئی دن تک گاڑی ضبط رہے گی اپنے بے انتہا پیار کے باوجود وہ قانون کی پابندی کے سخت مداح ہیں اور اماں کا کلاسک جملہ کہ پڑھ لکھ کے بندہ سیٹ بیلٹ نہ لگائے تو پڑھائی کا کیا فائدہ اٹھتے بیٹھتے سننا پڑے گا اور اپنا کارنامہ تو میں لازما اپنی روزانہ کی ڈائری نشر کرتے ہوئے براڈکاسٹ کروں گی لیکن جان چھوٹی سو لاکھوں پائے اس وقت وہ پولیس والا انتہائی اعلی پائے کا شریف انسان تھا اگر یہی کینیڈا ہوتا تو نہ صرف ٹکٹ ملتا بلکہ خجل خواری الگ ہونی تھی۔

شام کو جب اس کی بات پر اوسان ٹھکانے آنے پر غور کیا تو عجیب خوف کا احساس ہوا میری گاڑی کوئی ٹسلا کا ماڈل نہیں کہ اس سے کوئی بڑی گاڑی نہیں بلکہ وہ گاڑیوں کی مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے اس سے بڑی ہزار ہا گاڑیاں اسلام آباد کی سڑکوں پر گھوم رہی ہیں اگر کبھی ایکسڈینٹ اپنے سے بڑی گاڑی سے ہوا تو میں اپنے ہی ملک میں انصاف کے لیے بھٹکوں گی یہ بہت لاوارثوں والا احساس تھا میرے ذہن میں شاہ ذیب کی تصویر آئی جس کے والد خود پولیس میں ہوتے ہوئے اس کے لیے کچھ نہیں کر سکے، لاہور کی عدالت میں بیوہ ماں کے الفاظ گونجے کہ میں اپنے بیٹے کے قتل کی مزید پیروی نہیں کر سکتی میری دو بیٹیاں ہیں اور ان کی جان کو خطرہ ہے میں نے اپنے بیٹے کا انصاف خدا پر چھوڑا، کچھ عرصے کے بعد جب جی ٹین کی سڑک پر کشمالہ طارق کی گاڑی چار لڑکوں کی آلٹو سے ٹکرائی اور ان میں سے تین جان بحق ہو گئے اور کشمالہ اپنی ہی مظلومیت کا رونا رو رہی تھیں اور بعد میں خون بہا دے کر انہوں نے اپنے بیٹے کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکلوا لیا تو میرا خدشہ درست ثابت ہوا اور ایک انتہائی کارآمد مشورہ بھی اس بحث میں ملا کہ غلط صحیح کچھ نہیں اپنے آپ کو بچانا ہے زیادہ سوچنے سے دماغ خراب، سر میں درد اور منہ پہ جھریاں پڑتی ہیں اور آپ کے پاس تو بوٹوکس کے پیسے بھی نہیں اس لیے اپنے کام سے کام رکھیں اور یہ میرے بس کا روگ نہیں کہ میں اپنے کام سے کام رکھوں اور معاشرتی نا انصافی کی طرف آنکھیں بند کر لوں یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ کو اپنے آپ پر سخت غصہ آتا ہے کہ آپ کیوں نہیں باقی لوگوں کی طرح بے حس اگر ایسا ہوتا تو زندگی کتنے سکون میں ہوتی چاہے جانوروں والی ہوتی کھایا پیا اور سو گئے۔

یہ احساس اس وقت زیادہ ہوا جب پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا بدقسمتی سے میں نے وہ سب اپنے فیملی ڈاکٹر کے ویٹنگ روم سے لائیو دیکھا شروعات میں جب میں والدین کو اسکول کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا تو میرے ذہن میں دور دور تک حملے کا کوئی خدشہ نہیں تھا انسان کیسی خوش فہمیوں کے ساتھ جیتا ہے مجھے پورا یقین تھا کہ تھوڑی دیر میں اس کے اوپر قابو پا لیا جائے گا اور اسکول کا ہی کوئی بندہ ہوگا جو جذبہ جہاد سے مغلوب ہوا ہوگا لیکن بچوں کو نقصان نہیں پہنچے گا کہ جنگ میں بھی اسپتال اور اسکول پر حملہ نہیں کیا جاتا اس وقت میں نے ایک بوڑھے آدمی کو اپنی بیٹی کے ساتھ اسکول کی طرف بھاگتے دیکھا اور تھوڑی دیر بعد وہ رو کر ٹی وی رپورٹر کو بتا رہے تھے کہ ان کا نواسہ اندر ہے اور ان کی بیوہ بیٹی بہت پریشان ہے۔

میں مکمل طور پر جسمانی اور ذہنی طور پر سن تھی بچپن میں اخبار پڑھنے کے شوق میں جب افغانستان کے بارے میں پڑھتی تو ہمیشہ یہ ڈر لگتا تھا کہ اگر پاکستان میں بھی یہ سب کچھ شروع ہو گیا تو کیا ہو گا وہ میری آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا جہاد کے جو بیج ہم نے افغانستان اور کشمیر میں بوئے تھے اس کے آدم بو پودے کی شاخیں ہم تک آ پہنچی تھیں سچ تو یہ ہے کہ اس کی جڑیں بھی ہمارے اندر ہی تھیں۔ شام تک اسکول دہشتگردوں کے قبضے میں رہا اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 149 جس میں 132 بچے شامل تھے مار دیے گئے اور جس بے رحمی سے مارے گئے اس نے چنگیز خان کی یاد تازہ کی۔

تحریک طالبان نے نہ صرف اس کی ذمہ داری قبول کی بلکہ اس پر اپنی مسرت کا اظہار کیا اس کے جواب میں آرمی آپریشن لانچ کیا گیا لیکن 2014 سے 2021 تک آتے آتے ہمارا حافظہ جواب دے گیا ہے افغانستان میں ہم طالبان کے قبضے پر بغلیں بجا بجا کر جس خوشی کا اظہار کیا ہے اس کا جواب ہمیں افغانوں کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت سے ہمیں مل رہا ہے ہم نے ان کا کلچر، ان کا رہن سہن زندگی کا بنیادی دھاگہ ادھیڑ دیا ہے۔ اس پر ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے مشکور ہوں کیوں بھائی۔

اس میں ہو سکتا ہے آپ کا فائدہ ہو لیکن ان کا تو آپ نے چمن اجاڑ دیا اسی طرح ہم پاکستان میں تحریک طالبان سے مذاکرات کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں اور جب حکومتی سطح پر طالبان کی حمایت کرتے ہیں تو ان والدین کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جن کے بچے ان ظالموں نے اس بے دردی سے مارے کہ مائیں ان کی موت کی تکلیف کے احساس سے تڑپ اٹھیں، اس کے مناظر ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے دیکھے وہاں ان بچوں کے ماں باپ حکومت کی بے حسی، ریاست کی ہٹ دھرمی اور عوام کے short term memory loss پر احتجاج کر رہے تھے۔

افسوس کا مقام ہے کہ والدین کو یہ بتایا گیا کہ ان کی اولاد کا معاوضہ دے دیا گیا ہے اور اس سے زیادہ حکومت اور ریاست کچھ نہیں کر سکتی ان کو یا تو صبر کرنا ہے یا اور بچے پیدا کرنے ہیں۔ اس لیے تو وہ احتجاج کر رہے ہیں ان کو نہ آپ کا معاوضہ چاہیے اور نہ صبر کی نصیحت وہ اس وقت کے وزیر داخلہ، انٹلیجنس چیف، وزیر اعلی، آرمی چیف کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ کیسے ان کی غفلت سے ان کے بچے ذبیح ہوئے جن ہاتھوں نے ان کو ذبیح کیا اس سے زیادہ ظالم وہ ہاتھ تھے جنہوں نے حقائق چھپائے ان کے ساتھ اتنا ظلم ہوا لیکن ریاست کو فکر یہ تھی کہ اصل حقائق کسی کو نہ پتہ چلیں وہ یہ نہیں چاہتے کہ گارڈ کو سزا ملیں بلکہ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پولیس کو کیوں اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا جب کہ وہ فوراً پہنچ گئے تھے، دہشت گرد اتنے ناکوں کے باوجود اتنا اسلحہ شہر میں کیسے لائے انٹلیجنس ایجنسی کو کیسے پتہ نہیں چلا، وہ کون لوگ ہیں پولیس، انٹلیجنس اور حفاظتی اداروں میں جو طالبان کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں اور انہوں نے ان کی مدد کی اور کیوں نہیں یہ ادارے ان لوگوں کو پکڑ کے سزا دے رہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ آپریشن بھی کر رہے ہیں اور لوگوں کو نکال بھی رہے ہیں اور دہشتگرد بھی اندر ہیں ایسا کیا ہے جس کی پردہ داری ہے والدین اے پی ایس کو معاوضہ اور صبر نہیں وہ بڑے لوگ چاہیں جن کی غفلت ان کے بچوں کی موت کا سبب بنی اور بعد میں ان کی موت کے مقتل پہ انہوں نے اپنی سستی شہرت کا بازار سجایا۔

یہ صرف ہمارا ہی حوصلہ ہے کہ جن کو ہم کالعدم قرار دیتے ہیں ان کے ساتھ ہی مذاکرات کی میز سجاتے ہیں اور یہ صرف طالبان تک محدود نہیں ریاست اور حکومت نے بہت اہتمام سے سعد رضوی کو رہا کیا اور وہ جلوس میں لاہور گئے اور خادم حسین رضوی کے عرس میں شرکت کی اور تقریر میں واضح کیا کہ وہ اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے بلکہ انہوں نے اپنے کارکنوں کو الیکشن میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کا کہا اور اس کے ساتھ ہی ہمیں علم ہوا کہ صرف ہم ہی طاقتور کے مقابلے میں لاوارث نہیں بلکہ وہ سارے پولیس والے جو ان تحریک لبیک والوں کو عوام کو نقصان پہنچانے سے روکتے رہے وہ سب لاوارث ہیں، جو زخمی ہوئے شہید ہوئے سب۔

حکومت کا موقف ہے کہ ان کو جو شہید ہوئے ان کے گھر والوں کو معاوضہ دے دیا گیا ہے عوام الناس کو خبر ہو کہ وہ اپنی جان کو تلوا لیں کیونکہ حکومت اور ریاست نہ ان کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے اور نہ ہی اپنی غلطی پر شرمساری کا اظہار کر سکتی ہے ہاں پیسے بہت ہیں وہ اگر آپ مر گئے تو آپ کے گھر والوں کے منہ پر مارے جائیں گے اور منہ بند رکھنے کے لیے دے دیے جائیں گے اس کو سن کر آپ کو پتہ چلتا ہے کہ ایک خالص سرمایہ درانہ اور جاگیردارانہ معاشرہ کیسا ہوتا ہے جہاں انسان پیسوں میں تولے جاتے ہیں اور ان کی کوئی حیثیت نہیں جو جس کلاس سے تعلق رکھتا ہے اتنی اس کی قیمت ہوتی ہے ساتھ میں قاتل کی کلاس بھی اہم ہے امیر قاتل زیادہ ظلم اگر آپ مر کے خوش قسمت ثابت ہوئے اور آپ کے گھر والوں نے عقل سے کام لیا اور سوشل میڈیا کا سہارا لے کر انصاف حاصل کرنے کی کوشش کی تو انصاف تو نہیں ملے گا لیکن پیسے مل جائیں گے کیونکہ پاکستان کی حکومت، ریاست اور امیروں کو لگتا ہے کہ مڈل کلاس اور غریب بچے صرف اس لیے پیدا کرتے ہیں کہ کوئی ان کو مارے اور وہ اس کے پیسے لیں۔

یہ صرف ہم ہی کر سکتے ہیں کہ وہ پولیس والے جن کو اس بے دردی سے مارا گیا کہ ان کے اندرونی اعضا پھٹ گئے اور لاشیں وصول کیں گھر والوں نے وہ کچھ دن بعد اسی تحریک کے قائد کے عرس کی تقریبات کی حفاظت پر معمور تھے۔ ریاست اور حکومت نے یہی کرنا تھا تو ان پولیس والوں کو کیوں مروایا یہ وہ انسان نہیں تھے نہ ان کے گھر والے ہیں جو ساری عمر ان کو یاد کریں گے اور کبھی صبر نہیں آئے گا۔ حکومت اور ریاست کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آقا بجا کہ مڈل کلاس اور غریب کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کے لیے وہ اپنے بچے مرتے نہیں دیکھ سکتے اور حادثے ہر ملک میں ہوتے لیکن حکومتیں پیسے منہ پر مار کر اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوتیں۔

اخلاقی ذمہ داری کا تعین عدالت نہیں کرتی بلکہ حکومتیں اور ادارے اپنا احتساب کر کے ذمہ داران سے استعفی لیتے ہیں اور غیرت مند تو خود ہی دے دیتے ہیں نہ کہ ان کو دھوم دھڑکے سے رخصت کیا جائے نوکری پوری کرنے کے بعد یا اس اعزاز میں کہ وہ اتنے اعلی وزیر اعلی تھے کہ وہ خود دھرنے میں بیٹھے تھے اور ان کے صوبے میں بچوں کا قتل عام ہو رہا تھا ان کو وزیر دفاع بنا دیا جائے اور انسانی حقوق کی وزیر صرف اپنی گالیوں اور بدزبانی کی کوالیفکیشن پر کرسی پر براجمان رہیں اور غلطی سے بھی کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ریاست پاکستان کے لاوارث بچوں کو تحفظ کا احساس ہو۔

وزیر اطلاعات ایسی کانفرنس کا تو بائیکاٹ کر سکتے ہیں جہاں پاکستان کے مسائل بیان ہو رہے ہیں اور لوگ مسئلوں پر بات کر کے حل نکالنا چاہ رہے ہیں لیکن اس وقت خاموش رہتے ہیں جب ان کے اعلان کے مطابق ان کے وزیراعظم کی ہدایت پر کالعدم کی گئی تحریک نہ صرف بحال کی جاتی ہے بلکہ ان کی جماعت کے پنجاب کے سربراہ جا کر اسی تنظیم کے رہنما کو پھولوں کا گلدستہ پیش کر کے سیاسی الائنس کی پیشکش کرتے ہیں اور نہ ہی وزیر قانون اور عدلیہ جو کہ ہمیں بتا رہی ہیں چیخ چیخ کہ کہ وہ آزاد ہیں ان کو جسارت ہوئی کہ وہ ہمیں بتائیں کہ فورتھ شیڈول میں گرفتار راتوں رات کیسے رہا ہوئے اور ایسے رہا ہوئے کہ جلوس میں سینہ تان کے گئے اور قانون منہ دیکھتا رہا اور جن کے پیار قبر میں پہنچ گئے وہ انگاروں پر لوٹتے رہے۔

پاکستان کے ہر اس شہری کو جو مڈل کلاس اور غریب طبقے سے تعلق رکھتا ہے خبر ہو کہ آپ لاوارث ہیں کیونکہ ریاست جو ماں جیسی ہوتی ہے وہ مر گئی ہے اور آپ جنگل کے قانون کے ماتحت ہیں یعنی جو جتنا طاقتور ہے اتنا صحیح ہے اس لیے اپنی جان و مال کی حفاظت کے آپ خود ذمہ دار ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments