نواز شریف بمقابلہ ثاقب نثار


2014 کی بات ہے، اس وقت تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے دھرنے کے دوران پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیا اور ایک دھماکے دار پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ تحریک انصاف کے دھرنے کا مقصد اور کچھ نہیں صرف نواز شریف کو حکومت سے بے دخل کرنے کی سازش ہے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ میاں صاحب کو عدالت کے ذریعے نااہل کروا دیا جائے گا۔ اس وقت بیشتر مبصرین نے انہیں سنجیدہ نہیں لیا اور بعض نے انہیں عمران خان کو بدنام کرنے کی سازش بھی قرار دیا۔ تاہم حالات نے ان کی پیش گوئیاں درست ثابت کیں۔ میاں صاحب کو پانامہ کے پس منظر میں بوگس بنیادوں پر نااہل کروا دیا گیا اور نہ صرف یہ بلکہ تاعمر کسی بھی سرکاری عہدے کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا گیا، اگرچہ فیصلے کا یہ حصہ قطعی طور پر انتقام پر مبنی نظر آتا ہے۔

فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن اور ملک میں سویلین بالادستی کے حامی طبقے کی یہی رائے رہی کہ میاں صاحب کے خلاف فیصلہ بدنیتی کے تحت کیا گیا جس میں مقتدرہ کے اعلیٰ عہدیدار ملوث تھے۔ اس کا تاثر مقدمے کی کارروائی کے دوران سامنے آنے والے واقعات سے بھی مضبوط ہوا جب احتساب عدالت میں ایک حاضر سروس کرنل کو دیکھا گیا اور یہ پتہ چلا کہ پانامہ کیس کے لیے تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کو واٹس ایپ کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ فیصلہ ہونے کے بعد ثبوت کسی کے پاس بھی نہیں تھے۔ اور پھر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو سامنے آئی جس میں انہیں گفتگو کرتے دیکھا گیا کہ کس طرح انہیں ایک ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کر کے میاں صاحب کے خلاف فیصلہ دینے پرمجبور کیا گیا۔ چند ہفتوں کے بعد بات آئی گئی ہو گئی اور پھر ارشد ملک صاحب کورونا کے باعث انتقال کر گئے۔

اس دوران میاں صاحب اپنی جارحانہ تقریروں سے فوجی عہدیداروں کو نشانہ بنا تے رہے جس سے انہوں نے اپنے خلاف ہونے والے فیصلے کو لوگوں کے ذہنوں سے فراموش نہیں ہونے دیا۔ وقتاَ فوقتاَ غیر رسمی خبروں کے ذریعے مزید ثبوتوں کی آمد کے اشارے بھی ملتے رہے لیکن کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکا کہ نئے ثبوت کیا ہوں گے۔ بات اس وقت کھلی جب چند روز پہلے گلگت کے سابق چیف جسٹس رانا محمد شمیم نے اپنے تصدیق شدہ بیانِ حلفی میں کہا کہ انہوں نے خود دیکھا اور سنا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کسی دوسرے جج کو ہدایات دے رہے تھے کہ نوازشریف اور مریم نواز کو ان کے کیسز میں سزا دی جائے اور انہیں الیکشن سے پہلے باہر نہ آنے دیا جائے۔

اس سلسلے کا تازہ دھماکہ بذاتِ خود ثاقب نثار کی آڈیو ہے جو پاکستان کے تحقیقاتی صحافی احمد نورانی کی طرف سے جاری کی گئی ہے۔ آڈیو میں ثاقب نثار کسی سے فون پر گفتگو کررہے ہیں کہ ادارے ’خان صاحب‘ (عمران خان) کو لانا چاہتے ہیں اس لیے ان (اداروں) کی مرضی ہے کہ نوازشریف کو سزا سنا دی جائے۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی اتفاق کرتے ہیں کہ اگرچہ مریم نواز پر کوئی سزا نہیں بنتی لیکن چونکہ اداروں کی مرضی ہے اس لیے انہیں ایسا کرنے پڑے گا۔ آڈیو میں ثاقب نثار یہ اعتراف کرتے بھی سنے جا سکتے ہیں کہ ایسا کرنے سے عدلیہ کی آزادی ختم ہو جائے گی لیکن پھر بھی وہ کہتے ہیں ’’چلو ٹھیک ہے‘‘۔

آڈیو میں ثاقب نثارصاحب کی گفتگو ہماری عدلیہ کی افسوسناک تاریخ کا ثبوت ہے جس میں ایک جج اپنے اختیار ایسے لوگوں کے سامنے سرنڈر کر دیتا ہے جن کی حیثیت سیکرٹری دفاع کے ماتحت ایک عام سرکاری ملازم کی ہے مگر وہ کبھی منتخب وزیراعظم کوعدالت کے ذریعے قتل کروا کر اور کبھی کسی کو جلاوطن کروا کر، کبھی بلیک میلنگ سے اور کبھی لالچ دے کر اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں۔ ثاقب نثار چاہتے تو منتخب وزیراعظم کو ناحق سزا دلوانے کی فرمائش کرنے والے اپنے ’’دوستوں‘‘ کو بحیثیت چیف جسٹس طلب کر کے انہیں حکومت کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں گرفتار بھی کروا سکتے تھے لیکن انہوں نے ان کی تابعداری کرنا مناسب سمجھا کیونکہ ہماری عدلیہ کی یہی تاریخ ہے۔ مارشل لا ہو چاہے سویلین حکومتیں، اعلیٰ عدلیہ نے ہمیشہ سویلین اور آئینی حکومتوں کا تحفظ کرنے کی بجائے غیر آئینی اور آمرانہ طاقتوں کے سامنے سر جھکایا ہے۔

ابھی کل کی ہی بات ہے، موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد ایک تقریب میں ڈائس پر مکے مار کر قوم کو یقین دلا رہے تھے کہ عدلیہ آزاد ہے اور کسی میں جرات نہیں کہ انہیں خاص فیصلوں پر مجبور کر سکے۔ لیکن ان کے امتحان کا وقت زیادہ ہی جلدی آ گیا ہے۔ ان کے اپنے سابق چیف کی تصدیق شدہ آڈیو مارکیٹ میں آ چکی ہے جو ان کے بلند بانگ بیانات کی پوری پوری نفی کر رہی ہے۔ منتخب وزیراعظم اور ان کی بیٹی کے خلاف کیے گئے فیصلے داغ دار ہو چکے ہیں۔ عمران خان کو صادق و امین قرار دینے والے خود جھوٹے قرار پا چکے ہیں۔ یہی موقع ہے چیف جسٹس صاحب کے لیے کہ وہ سوموٹو لے کر فریقین کو طلب کریں، آڈیو کی مزید جانچ کا حکم دیں اور ثاقب نثار صاحب سے جواب طلبی کریں کہ انہوں نے کس بنیاد پر ایک منتخب وزیراعظم کا ساتھ دینے کی بجائے ایک ریاستی اہلکار کی بات ماننے کا فیصلہ کیا اور ایک آئینی حکومت کے خلاف سازش کا حصہ بنے۔

اگر عدلیہ واقعی آزاد ہے تو جسٹس شوکت صدیقی، جسٹس رانا شمیم کے بیانات پر سوموٹو لیا جائے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل درآمد کروایا جائے۔ ایسا نہیں ہوتا، جس کے امکانات کم ہیں، تو چیف جسٹس گلزار صاحب کے بیان کھوکھلے ڈائیلاگ سے زیادہ کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments