عالمی مہنگائی کیا حقیقت کیا فسانہ


دنیا بھر میں اٹھی مہنگائی کی لہر کب تھمے گی یہ لہر پاکستان کے لیے سنہرا موقع کیونکر بن سکتا ہے؟

پاکستان میں اس وقت مہنگائی عروج پہ ہے۔ سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ترین ہو چکا ہے حکومت اس بڑھتی مہنگائی کو عالمی مہنگائی سے جوڑ رہی ہے۔ تو کیا واقعی دنیا بھر میں مہنگائی بڑھی ہے اگر ایسا ہے کیوں ہے۔ کورونا سے قبل معاشی ماہرین کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے بعد خریداروں کا رش بڑھے گا اور معیشت کو بوسٹ ملے گا مگر ایسا کیوں ہے کہ معاشی حالت دگرگوں ہے آئیے ان سوالات کے جوابات تلاشنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کچھ ہفتے قبل لاکھوں ٹن سامان لادے ریکارڈ تعداد میں بحری جہاز امریکی بندرگاہوں پہ سامان اتارنے کے انتظار میں لنگر انداز تھے۔ اک طرف ہفتوں سے یہ جہاز سامان اتارے جانے کے منتظر تھے تو دوسری طرف امریکی مارکیٹس میں سامان کی قلت ہو رہی تھی۔ امریکہ جیسے حالات دوسرے ممالک میں بھی تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حالات سدھرنے میں سالوں کا وقت لگ سکتا ہے۔

ایسے حالات کیونکر پیدا ہوئے ہیں یہ سمجھنے کے لیے ہمیں گزشتہ اور رواں برس کے حالات پہ نظر ڈالنا ہو گی۔

سپلائی چین میں رکاوٹیں

سٹیسی ریزگن اک امریکی ریسرچر ہیں وہ سیمی کنڈکٹر مارکیٹ کے بازار پہ نظر رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم الیکٹرانکس کی مارکیٹ کو دیکھیں تو نیا سامان مارکیٹ میں آ ہی نہیں رہا اور قیمتیں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کا بڑا اثر کار مارکیٹ پہ پڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”اگر اک ننھا سا سیمی کنڈکٹر بھی کم پڑ گیا تو کار کی پیدوار رک جائے گی۔ فرض کریں اک مائیکرو کنٹرول چپ پچاس پیسے کی ہے مگر اس کے نہ ہونے کی وجہ سے آپ پچاس لاکھ کی کار نہیں بنا سکتے۔ اس سال سیمی کنڈکٹرز کی کمی کی وجہ سے دس لاکھ کاریں بنائی ہی نہیں جا سکیں جس کی وجہ سے آٹو انڈسٹری کو دو سو ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا۔“

سیمی کنڈکٹرز کی پیداوار زیادہ تر تائیوان چائنہ کوریا ملائشیا اور امریکہ میں ہوتی ہے۔ کووڈ وائرس کی وجہ سے لگی پابندیوں کی وجہ سے فیکٹریوں نے آرڈرز کینسل کرنا شروع کر دیے بعد میں جب کام شروع بھی ہوا تو سوشل ڈسٹنسنگ کی وجہ سے پیدواری صلاحیت کم ہو گئی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پیداواری صلاحیتوں کی کمی کے پیچھے کورونا کی بجائے فیکٹری مالکان کے لیے گئے فیصلے ہیں۔ وائرس کی وجہ سے جب لاک ڈاؤن لگنا شروع ہوئے تو مانگ میں کمی ہو گئی جس کی وجہ سے آٹو انڈسٹری نے چپس کے آرڈرز کینسل کرنا شروع کر دیے بعد میں جب بازار کھلے اور کمپنیوں نے تیزی سے آرڈرز دینے شروع کر دیے لیکن تب تک پیداواری صلاحیت کافی کم ہو چکی تھی۔

ادھر ورک فرام ہوم سٹڈی فرام ہوم پلے فرام ہوم بڑھ گیا اور بازار میں پرسنل کمپیوٹر کی مانگ میں اضافہ ہوا یہ پورے سسٹم کے لیے اک بڑا دھچکا تھا۔ کورونا سے قبل پرسنل کمپیوٹر کا بازار سمٹ رہا تھا پچھلے کئی سالوں سے پی سی کی خریداری میں کافی حد تک کمی آ چکی تھی مگر اس میں آئے اچانک اچھال نے پورے سسٹم ہلا کر رکھ دیا۔ سیمی کنڈکٹرز بنانے والوں کو اندازہ نہیں تھا کہ اک ڈوب رہے سیکٹر سے مانگ میں اس قدر اضافہ ہو جائے گا۔

اک اندازے کے مطابق 2020 میں تیس لاکھ پی سی فروخت ہوئے اس سال ان کی تعداد 34 لاکھ سے متجاوز ہونے کا امکان ہے اور یہ چلن 2025 تک ایسے ہی رہنے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ پی سی لیپ ٹاپ موبائل ٹیلی ویژن سمیت الیکٹرانکس کی ہر پروڈکٹ میں ان سیمی کنڈکٹرز کا استعمال ہوتا ہے اب حالات یہ ہیں کہ آٹو کمپنیوں کو اب دیے گئے آرڈرز کے حصول میں اک اک سال کا انتظار کرنا پڑے گا اور یہ سچوایشن اگلے اک دو سالوں تک ایسے ہی رہنے کا امکان ہے۔ آٹو انڈسٹری سٹوریج وغیرہ کی اضافی لاگت کو بچانے کے لیے ساتھ ساتھ را میٹیریل کی خریداری کیا کرتی تھی مگر کورونا نے پورے سپلائی چین سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اب کمپنیاں پہلے سے ہی چپس سٹور کرنے کے انتظامات کرنے کی کوششوں میں ہیں۔

لیبر مارکیٹ کا مسئلہ

امریکی تھنک ٹینکس کا کہنا ہے کہ لوگ مہینوں سے اشیا کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ کورونا کے وقت راشن کے سٹورز میں سامان کی قلت تھی دکاندار محدود تعداد میں سامان خرید رہے تھے جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوا اور لوگوں نے باہر نکلنا شروع کیا اور سامان کی مانگ میں یکایک اضافہ ہوا لیکن اب لیبر مارکیٹ میں مزدوروں کی کمی کا سامنا ہے۔ کورونا کے وقت معاشی ماہرین کا کہنا تھا کہ کورونا کے عالمی معیشت پہ کچھ خاص اثرات نہیں ہوں گے بلکہ لوگوں کے باہر نکلنے پہ خریداری میں اضافہ ہو گا اور معیشت میں بوم آئے گا پیسہ گردش کرے گا اور مجموعی طور پہ خوشحالی بڑھے گی مگر کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کے دیگر عوامل کیسے اثرانداز ہوں گے اس بات کا اندازہ ماہرین نہیں لگا سکے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ کورونا کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے لوگوں کی نوکریاں ختم کرنا پڑ رہی ہیں لیکن کورونا کے بعد مزدوروں کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا اس بات کا اندازہ کوئی نہیں لگا پایا۔ صرف امریکہ میں اس وقت اک کروڑ سے زائد سکلڈ لیبر کی آسامیاں خالی ہیں یہ اک ریکارڈ تعداد ہے آخر ایسا کیونکر ہوا اس میں ڈیلٹا ویرینٹ کا ڈر، کافی عرصہ گھر پہ رہنے کے بعد کام پہ لوٹنے میں نفسیاتی رکاوٹ وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ کے فیصلے اور کیرئیر کی تبدیلی جیسی وجوہات شامل ہیں۔

اگر کورونا نہ ہوتا تو وہ 77 لاکھ لوگ کام پہ ہوتے جن کو کورونا پینڈمک کی وجہ سے ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے پھر کورونا نے خواتین پہ بیماروں گھر والوں کی دیکھ بھال نومولود بچوں کی پیدائش کا اضافی بوجھ ڈالا ہے جس کی وجہ سے وہ کام پہ نہیں لوٹ سکیں۔ کئی لوگوں نے گھر پہ رہ کر کام کرنے جیسی نوکریاں چن لیں کچھ نے کھانا بنانے اور ہوم ڈیلیوری جیسے کام کرنا شروع کر دیے باقی بچے افراد نے اپنا کیرئیر ان بزنس میں بنانا شروع کر دیا جو لاک ڈاؤن میں جاری تھے۔ اگر ہم ٹرک ڈرائیورز کی ہی مثال لیں تو زیادہ تر نے لاک ڈاؤن میں روزگار کے حصول کے لیے جو نئے کام شروع کیے وہ اب اس کام کو چھوڑ کر واپس نہیں آنا چاہتے جبکہ نئے ڈرائیورز کی ٹریننگ لائسنس کے حصول وغیرہ میں وقت لگے گا۔

موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر

گزشتہ برس اور اس سال دنیا نے صرف کورونا ہی نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی بھگتا ہے۔ دنیا کے کئی حصوں میں فصلیں برباد ہوئی ہیں۔ بارش اور طوفان بھارت میں سبزیوں کو نقصان پہنچایا تو وہیں آندھی طوفان نے امریکہ میں کپاس کی فصل کو برباد کر دیا۔ برازیل میں برفباری نے کافی کی فصل برباد کی تو آسٹریلیا میں جنگلات میں آگ لگی جس سے جانور شہروں میں آ گئے اور نظام درہم برہم ہو گیا۔ اس وجہ سے چیزیں مہنگی ہوئی ہیں پھر یہ کہ ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بھی آسمان پہ جا پہنچے ہیں۔

کورونا سے پہلے امریکہ و یورپ میں شپنگ کا خرچ جہاں آٹھ سو ڈالر پڑتا تھا وہ اب دس گنا سے بھی بڑھ کر آٹھ دس ہزار ڈالر تک ہو گیا ہے

شپنگ سسٹم پہ بڑھتا دباؤ

لاجسٹک سسٹم دنیا بھر کی چیزوں کی قیمتوں کا تعین کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔ دنیا بھر میں نوے فیصد سے زائد تجارت بحری جہازوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہ بحری جہاز اک ہی بار میں لاکھوں ٹن سامان اک ملک سے دوسرے ملک پہنچاتے ہیں۔ بحری تجارت پہ نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں آج کل اسی کے قریب میگا شپس ہیں لیکن ان پہ لدا سامان اتارنے کی سہولیات کم ہیں۔ ہر بندرگاہ ان بڑے جہازوں کو لنگر انداز کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ یہ میگا شپس جن بندرگاہوں پہ لنگر انداز ہو سکتے ہیں انہیں ہب بندرگاہ کہا جاتا ہے۔ چائنہ سے یہ بڑے جہاز یورپ اور امریکہ کی ہب بندرگاہوں تک پہنچتا ہے پھر وہاں سے یہ سامان چھوٹے شپس پہ چھوٹی بندرگاہوں تک پہنچتا ہے۔ تجارت کی روانی کے لیے ضروری ہے کہ ایسی ہب بندرگاہوں پہ کام سہولت سے چلنا چاہیے۔

کورونا سے پہلے حالات بہتر تھے امریکہ کی ہب بندرگاہوں پہ اک بھی جہاز کھڑا نہیں رہتا تھا۔ اب حالات یہ ہیں کہ گزشتہ ماہ امریکہ کی صرف دو بندرگاہوں پہ ستر سے زائد بحری جہاز سامان اتارنے کی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے جن میں میگا شپس بھی شامل ہیں۔

کورونا کی وجہ امریکہ اور چین سمیت کئی ممالک نے پابندیاں لگا رکھی ہیں اس لیے اگر جہاز وقت پہ پہنچ بھی جائے تو سامان اتارنے میں وقت لگتا ہے وہیں اگر زمین پہ سپلائی چین کو دیکھیں تو یہاں بھی لیبر کی کمی رہی ہے کہیں ٹرک ڈرائیور نہیں ہیں تو کہیں گودام لیبر کی قلت ہے۔ اس وجہ سے عالمی کاروبار پہ اثر پڑتا ہے۔

اب ماہرین اس بات پہ بحث ہو رہی ہے کہ کیا یہ سب کورونا کی وجہ سے ہو رہا ہے یا کورونا نے پہلے سے موجود سسٹم کی خامیوں کو ٹرگر کیا ہے کیونکہ میگا شپس کے لیے ہب بندرگاہوں کی کمی اور دیگر بندرگاہوں پہ زیادہ شپس لنگر انداز کر سکتے کی اہلیت کی ضرورت پہ پہلے بھی زور دیا جاتا رہا ہے۔ کورونا کی بندشوں کے دوران کئی فیکٹریاں بند ہو گئی تھیں۔ کئی کنٹینرز وہاں خالی پڑے ہوئے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران سامان سے بھرے کنٹینرز جہاں پڑے تھے وہیں پڑے رہے اور ان کو خالی کر کے ان ممالک تک پہنچایا ہی نہیں جا سکا جہاں سے سامان بھرا جانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں کورونا سے پہلے چین سے امریکہ تک کنٹینرز آنے جانے کے دو ماہ لگتے تھے اب خالی کنٹینرز واپس آنے تک تین ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہوتا ہے۔ یعنی اگر نیا سامان بن بھی رہا ہے تو وہ امریکہ و یورپ سمیت دنیا بھر کے ممالک تک اس جلدی سے نہیں پہنچ پا رہا جیسا کورونا سے پہلے ہوا کرتا تھا

نئے کنٹینرز بنا کر مسئلہ حل تو ہو سکتا ہے لیکن اس میں وقت لگتا ہے ماہرین کا کہنا ہے اگلے سال کے وسط تک حالات میں سدھار ہو پائے گا۔

تو اوپر بیان کی گئی وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے سامان بن نہیں رہا بن رہا ہے تو پہنچ نہیں پا رہا اگر پہنچ رہا ہے تو اس کا خرچ بہت بڑھ چکا ہے اس سب کے اوپر سکلڈ لیبر کی کمی ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں مہنگائی کی اک لہر اٹھی ہے جس کا اثر پاکستان میں بھی دیکھا جا رہا ہے ‍۔

اس لیے سچی بات یہ ہے کہ اپوزیشن چاہے مہنگائی کے مسئلے پہ حکومت وقت کو جتنا بھی مورد الزام ٹھہرائے مگر ان کی جگہ وہ بھی ہوتے تو مہنگائی کی لہر نے پھر بھی متاثر کرنا ہی تھا

ہاں البتہ حکومت کو چاہیے کہ اس مشکل دور میں غریب عوام کے لیے روزگار کے نئے در کھولے دنیا بھر میں جاری قلت کی وجہ سے مصنوعات بنا کر برامدات میں اضافہ کرے درآمدات پہ انحصار کم سے کم کرنے کی کوشش کرے۔ عالمی سطح پہ سفارت کاری کر کے پاکستانی سکلڈ لیبر کو امریکہ و یورپ جیسے ممالک میں بھیجنے کی کوششیں کرے جہاں آج کل اشد ضرورت ہے اور سارا کچھ حالات پہ چھوڑنے کی بجائے اپنی ذمہ داری کو نبھائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments