اک کم ہی سہی


ہم جیسے تو صرف گنتی میں آتے ہیں۔ یہ جہاں تو مخصوص مخلوق کی ہے، جو کہ منفرد زندگی سے وابستہ ہر شے پر قابض ہے۔ ہم جیسے تو نہ جذبات رکھتے ہیں اور نہ احساسات۔ بلا اس جدید و رنگین دور میں جذبات کا کیا مول؟ ہم تو ماضی کے ہاتھوں مستقبل پر بک چکے ہیں۔ بکے ہوئے مخلوق سے کیا امید؟ ہم تو ہمدردی کے لائق ہے اور جہاں سے صرف ہمدردیاں سمٹ لیتے ہیں۔ ہمیں تو اپنے سوچ پر بھی اعتماد نہیں، کیونکہ وہ بیچارہ بھی عادتوں کا محتاج ہے۔

ہم تو صبر کے علمبردار ہے اور صبر کو اپنا بتایا ہوا وسیلہ سمجھ لیتے ہیں، کیونکہ صبر کرنے کے بعد خدائی کا تحت ہمارے شان استقبال کے لئے بے تاب ہے۔ امید بذات خود ایک سلجھا ہوا دھوکا اور فریب ہے۔ جو کہ ہم سے ساری زندگی مانگ کر آخر میں سارا قصور وار قسمت کو ٹھہراتا ہے۔ ہم جان کر بھی امید کا دامن ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس جہاں میں تہذیب و تمدن، ثقافت، مذہب اور دوسروں سے بھلائی کرنا تو ہمارے لئے ہے۔

انسانیت کے چمپئن تو ویسے بھی ہم خود کو ٹھہراتے ہیں۔ بلا یہ تمام مذکورہ افعال ہم سے سرزد نہ ہو پائے، دنیا تو ادھوری رہ جاتی ہے۔ کیونکہ ہمیں دیے گئے سوچ و بچار میں یہ چیزیں اچھائی کی طرف داری میں بیان کی گئی ہے۔ دراصل ہم جاننے والے انجان مخلوق ہے۔ ہم ضروریات، خواہشات اور پابندیوں کے وادی میں گیرا ہوا وہ بے ضرر اور آسانی سے دستیاب مخلوق ہے تو صرف اس دنیا میں مرنے کے لئے پیدا ہوتے ہے اور ہمارے زندگی کا حصہ کوئی اور جی لیتے ہیں۔

ایک مقام پر ہماری مزاج، خیالات، احساسات، جذبات، عزت نفس اور خودی مٹی کے ساتھ یکساں ہو جاتا ہے۔ ہمارے شخصیت کے تمام وہ پہلو جو ہمارے لئے باعث تکلیف ہوتے ہیں۔ یکجا اور باآواز ہو کر ہمارے روح کو تکلیف دینا شروع کر دیتے ہے۔ وہاں سے سفر بے بسی کا آغاز ہوجاتا ہے اور انسان خاموشی کی طرف چہل قدمی کا ابتدا کرتا ہے۔ میرے مطابق اس جہاں میں اگر ہر انسان اپنے وجود اور روح کو یکجا کر مشاہدہ کرے تو عین ممکن ہے کہ انسان ساری زندگی کے لئے ایک تاریکی گھڑی سے خاموشی کو اپنا ہمسفر بنا کے کبھی نہ نکلے۔

اور دنیا اور باقی انسانوں کو کبھی منہ نہ دکھائیں۔ ہم نظریات، خیالات، خواہشات اور سماج کے عدم مساوات سے باغی وہ جذباتی مخلوق ہے، جو اپنے خیالات کے بیان کرنے کے لیے بھی الفاظ کا چناؤ بڑے سلیقے سے کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم ان چیزوں کو مدنظر رکھتے ہیں کہ کہی میرے الفاظ دوسروں کے لیے باعث تکلیف تو نہیں یا ہم خود اپنے الفاظ کے گرفت میں نہ آیا کریں۔ کیا ضرورت ان عداوتیوں کا؟ میں کیوں امید پر جیو؟ میں دیکھ کر، سن کر، سمجھ کر بھی نہ سمجھا تو، تو کیا سمجھے گا اس سودے کا نفع و نقصان؟

میں کس واسطے اس دریا میں اتر جاؤں، جس کے اس پار بھی یہی وحشت ہے۔ مجھے اپنے حقیقت کو سمجھنے اور قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اس دنیا کے حقیقت کا بھی پول کھولنا ہے۔ دنیا امید پر قائم ہے اور نا امیدی گناہ ہے۔ تو آج میں نے یہ گناہ کر کے اپنی دنیا کو اجاڑ دینا ہے اور انسانوں کے درمیان کھینچی ہوئی لکیر کو اس طرح مٹانا ہے کہ جہاں میں جذبات اور احساسات کی قدر آسماں کو چو لیں اور انسان کے ہاں انسان کا عزت نفس اور قدر و قیمت بحال ہو۔ اگر صرف تعداد کی تکمیل کے لیے میرا ہونا معنی رکھتا ہے تو آج سے اس جہاں میں اک کم ہی سہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments