میں بھی کبھی سکول کے اندر داخل ہوا ہوں؟


ایک صاحب ساری زندگی ایک بڑے شہر میں اعلیٰ درجہ کی ملازمت کرتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آبائی گاؤں لوٹ آئے۔ اپنی آبائی زمین پر ایک سکول بنایا۔ متعلقہ سٹاف کو ذاتی گرہ سے ملازم رکھا۔ ارد گرد کے لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ صبح کے وقت بچوں کو پڑھاتے تھے۔ شام کو تعلیم بالغاں کا اہتمام کرتے تھے۔ سکول سے ملحقہ گھر میں ایک صاحب رہتے تھے۔ کاشتکار تھے۔ ایک بھٹہ کے مالک بھی تھے۔

آڑھت بھی کرتے تھے۔ بہت اکھڑ طبیعت کے مالک تھے۔ تعلیم کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے۔ انہوں نے ذاتی ضروریات کے لیے دو گدھے بھی پال رکھے تھے۔ ماسٹر جی کے ساتھ ان کا رویہ اچھا نہیں تھا۔ گدھے رات کے وقت اکثر سکول کے احاطے میں داخل ہو جاتے تھے۔ ہر طرف گند پھیلا دیتے تھے۔ ایک دن ماسٹر صاحب نے نہایت دھیمے لہجے میں ان صاحب سے گزارش کی ”آپ کے گدھے ساری رات سکول میں گند پھیلاتے رہتے ہیں۔ کچھ خیال کریں“ ۔ ترنت جواب ملا ”غصہ نہ کریں، بے زبان جانور ہیں۔ غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ کبھی مجھے آپ نے دیکھا ہے کہ میں آپ کے سکول کے اندر داخل بھی ہوا ہوں“ ۔ میں نے تو اس طرف سے اپنے گھر آنا چھوڑ دیا ہے۔ میں اپنی آمدو رفت کے لیے دوسرا راستہ اختیار کرتا ہوں ”۔

ایک صاحب کھانا کھانے کے بہت شوقین تھے۔ دوستوں سے اصرار کر کے ان کے گھر پہ کھانا کھاتے تھے۔ دوستوں کے اصرار پر ان کو اپنے گھر بھی مدعو کر لیتے تھے۔ مگر جب مہمان گھر آتے تھے تو صاحب ان کے آنے کا مقصد بھول جاتے تھے۔ دیر تک گپ شپ لگاتے رہتے تھے۔ کافی دیر بعد اگر کوئی مہمان کہہ اٹھتا تھا ”میرا خیال ہے اب ہمیں کھانا کھانا چاہیے“ ۔ وہ مہمان کی ہاں ہاں میں ملاتے تھے اور باہر جا کر اس کے ساتھ کھانا کھا بھی لیتے تھے۔ کیا ہوا بل اگر ان کے دوست کو ادا کرنا پڑتا تھا۔

ایک صاحب اپنے دفتر میں خواتین کے ساتھ عمدہ برتاؤ کے لئے مشہور تھے۔ کسی بھی خاتون کو کسی بھی محکمہ میں کسی بھی طرح کا کام ہوتا تھا تو ان صاحب کو یاد کیا جاتا تھا۔ وہ بھی زمین آسمان ایک کر دیتے تھے اور کام کروا کر دم لیتے تھے۔ گھر میں، پتہ نہیں کیوں، اپنی بیوی اور بیٹی کو کسی بھی معاملے میں بات تک نہ کرنے دیتے تھے۔ بعض اوقات تو بلاوجہ ان پر ہاتھ بھی اٹھا دیتے تھے۔ ایک دن ایک محفل میں تمام خواتین نے ان کی بہت تعریف کی۔ ان کی بیوی بھی وہاں موجود تھیں وہ خاموش رہیں۔ تمام خواتین نے اصرار کیا کہ آپ بھی کچھ بولیں۔ جواب ملا ”آپ سب بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میں بھی آپ کی رائے کی تائید کرتی ہوں۔ مگر میں خود اپنی اس تائید سے متفق نہیں ہوں۔ آپ بھی نہ ہوں“ ۔

ایک نوجوان میڈیکل کالج کے طالب علم تھے۔ کھیل کود کے شوقین تھے۔ پورا سال وقت ضائع کرتے رہتے تھے۔ وقت کی بچت صرف بالوں کی کٹائی کے وقت یاد آتی تھی۔ کئی کئی ماہ بال نہ کٹواتے تھے۔ ایک بار زلف تراش کے پاس تشریف لے گئے۔ امتحان کا موسم تھا۔ باربر نے پوچھا ”کیسی کٹنگ کروں“ ۔ نہایت مدبرانہ لہجے میں جواب دیا ”بھائی آپ کو پتہ ہے امتحان قریب ہیں ایسی کٹنگ کرو کہ دو ماہ گزر جائیں“ ۔ باربر نے نہایت خوش دلی سے جواب دیا ”سر دو ماہ تو آپ عموماً کٹنگ کے بغیر ہی نکال لیتے ہیں۔ میں تو مہینے والی کٹنگ کرتا ہوں اور آپ چھ ماہ بعد تشریف لاتے ہیں۔ اگر میں نے ہی دو مہینے والی کردی تو اگلی ملاقات انشاء اللہ آپ کے“ ایم بی بی ایس ”مکمل کرنے کے کافی عرصہ بعد ہوگی۔ میری طرف سے آپ کو ڈاکٹر بننے کی پیشگی مبارکباد“ ۔

ایک صاحب ایک ضلع میں اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز ہو گئے۔ انہوں نے بھرپور ورزش کی۔ خوراک میں بھی احتیاط برتی۔ اپنا وزن کافی کلو کم کر لیا۔ ایک سینئر کے گھر ان کی اپنے ایک بے تکلف دوست سے ملاقات ہوئی۔ سینیئر نے وزن کم کرنے پر ان کی تعریف کی۔ ان کے دوست کہنے لگے ”سر! اپنا وزن تو ہر کوئی کم کر لیتا ہے۔ اس پر آپ انہیں مبارک باد نہ دیں۔ ان کا اصل کمال تو یہ ہے کہ جب سے ہمارے دوست اس سیٹ پر آئے ہیں ان کی نظر میں ہر کسی کا وزن کم ہو گیا ہے“ ۔

ایک صاحب ایک محکمہ میں انتہائی اہم پوزیشن پر فائز ہو گئے۔ انہوں نے چند سال جونیئر، ایک دوست کو اپنی ماتحتی میں کام کرنے کی دعوت دی۔ جونیئر کا مزاج سینئر سے بالکل مختلف تھا۔ اس نے جواب دیا ”عہدہ آپ کو ملا ہے اور خالق کائنات نے سکون مجھے عطا کر دیا ہے۔ میرے دل سے عہدوں کی ہوس ختم ہو گئی ہے۔ آپ کی ماتحتی تو کیا چیز ہے اب میں شاید زندگی بھر اس عہدے کی بھی خواہش نہ کروں جس پر آپ فائز ہوئے ہیں“ ۔

ایک تعلیمی ادارے میں ایک استاد رٹے کے قائل تھے۔ دن رات اپنے شاگردوں کو نصابی کتب حفظ کرانے میں لگے رہتے تھے۔ چھٹی والے دن بھی نصاب سے متعلقہ کوئی ایسا کام بتا دیتے تھے کہ پورا دن تفریح کا موقع نہ ملتا تھا۔ وہ اپنے شاگردوں سے مطمئن اور خوش پھر بھی نہیں ہوتے تھے۔ ایک دن نہایت غصے سے کہنے لگے ”تمہاری عمر میں سکندر اعظم نے آدھی دنیا فتح کر لی تھی مگر تم لوگ نالائق کے نالائق ہی رہے“ ۔ ایک شاگرد نے نہایت ادب سے گزارش کی ”سکندر اعظم کو اگر آپ جیسا استاد نصیب ہوتا تو وہ خلاؤں میں نکل جاتا اور شاید کبھی واپس نہ آتا۔ خلا کی تسخیر ہوتی نہ ہوتی، آپ کی تشہیر بہر حال ہو جانی تھی۔ ابھی بھی ہم ذرا اس ادارہ سے فارغ ہو لیں، آپ کی تشہیر میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے“ ۔

ایک صاحب اپنے علاقے میں بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بزرگ تھے۔ فلاحی کام بہت کرتے تھے۔ تمام لوگ گفتگو کرتے ہوئے ان کے رتبے کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ ایک انکوائری میں مدعی کی درخواست پران کو گواہ کی حیثیت سے طلب کیا گیا۔ انکوائری افسر نے انتہائی درشت لہجے میں ان سے پوچھا ”اس کیس کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟“ ۔ ہمارے بزرگ نے جواب دیا ”جس لہجے میں آپ بات کر رہے ہیں وہ سننے کے بعد میں آپ کو کیا جانتا ہوں؟“ ۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی راہ لی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments