میری محبت کا مربع


محبت کی تکون تو آپ نے سنی ہوگی لیکن میری کہانی میں محبت کا مربع ہے۔ محبت کی تکون میں تین کردار ہوتے ہیں لیکن میری کہانی کے اسٹیج پر ایک کردار دو بار نمودار ہوا اس لئے میں اسے محبت کا مربع کہتی ہوں۔ یہ کیونکر ہوا اس کے لئے مجھے اپ کو پوری کہانی سنانی پڑے گی۔ شروع تو یہ کہانی محبت کی تکون سے ہی ہوئی تھی وہی دو مرد اور ایک عورت کی تکون۔ ہم تینوں یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتے تھے۔ ساتھ مل کر پروجیکٹ کرتے۔ اگر دن رات کا نہیں تو صبح شام کا ساتھ تو ضرور تھا۔

شکیل اور شہریار دونوں مجھ سے محبت کے دعوے دار تھے۔ شکیل کی محبت بھڑکتی آگ تھی۔ اظہار کا جوالا مکھی ایسا کہ جلا کے خاکستر کردے۔ شہریار کی الفت سردیوں کی رات میں ہلکی ہلکی حرارت دینے والی کوئلے کی انگیٹھی۔ یونیورسٹی کے آخری امتحان کے آخری پرچے تک میں فیصلہ نہیں کر پائی تھی کہ ور مالا کس کے گلے میں ڈالوں۔ شکیل نے آخری پیپر کے اگلے ہی روز اپنی اماں کو رشتے کے لئے بھیج دیا۔ اماں ابا نے رشتہ قبول کر کے دوراہا پار کرا دیا۔

شکیل اور میری شادی کے روز شہریار اپنی کزن کے ساتھ آیا اور اسٹیج پر اکر اسے منگیتر کہہ کر متعارف کرایا شاید وہ جتانا چاہتا تھا کہ اسے میری شادی سے کوئی فرق نہیں پڑتا خیر مجھے بھی کیا فرق پڑتا میں تو شکیل کے پیار کے رتھ پر سوار ہو کر گگن کی یاترا کو چلی تھی۔ ہر دن عید اور ہر رات شب برات تھی۔ خوب میٹھی میٹھی باتیں، خوب پٹاخے دار شرارتیں۔ وقت پر لگا کر اڑتا تھا اور لمحوں سے رنگ اور خوشبو کشید کرتا تھا۔

لیکن پھر پورن ماشی کا چاند ڈھلنے لگا۔ شکیل کی محبت کی چاندنی ماند پڑنے لگی۔ زندگی کی رفتار سست ہو گئی۔ لگا بندھا دن، گھسی پٹی راتیں اور میکانکی رشتہ۔ میری اماں نے سمجھایا عاشق اور شوہر میں فرق ہوتا ہے۔ ساری عمر رومان کا جوار بھاٹا نہیں چڑھتا۔ خیر سے ماں باپ بننے والے ہو، نئے رشتوں کا نیا سبھاؤ ہوتا ہے۔ سوچا اماں ٹھیک ہی کہتی ہوں گی ۔ اس لئے بے کار کی خواہشوں اور طلائی زیورات کو تجوری میں بند کر کے رکھ دیا۔

عارض اور پھر اقرا کی ماں بننے کے بعد میرا اپنا وجود کہیں تہ نشیں ہو گیا۔ اب بس میں ایک میکانکی بیوی تھی اور ایک ذمہ دار ماں۔ شکیل اور میرے درمیان یا تو بچوں کے بارے میں بات ہوتی یا معاشی مسائل کا پنڈورا کھولا جاتا رومان کی تو گویا ایپ ہی ڈیلیٹ ہو گئی تھی۔ لگتا تھا شکیل کو تو اس کی ہجے بھی یاد نہیں لیکن ایک روز میں نے شکیل کو فون پر کسی سے بات کرتے سنا تو مجھے ادراک ہوا کہ وہ محبت کی تختی بھولا نہیں ہے بس مجھ تک اکر نسیان کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے ۔

یعنی سلیکٹو ڈیمینشیا۔ بھئی کیا کرے بے چارہ مرد، اللہ نے فطرت ہی بھنورا صفت بنائی ہے گلشن گلشن گل بہ گل مارا مارا پھرنا اگر اس کی سرشت میں ہے تو وہ کیا کرے ایک ہی بیوی پر کب تک گزارا کرے، دل ہی مائل نہیں ہوتا تو رومانس کیسے کرے۔ بوریت ہوجاتی ہے نا ایک ہی چہرے مہرے اور جسمانی خد و خال سے۔ تبدیلی چاہیے ہوتی ہے پھر بھلے سے یہ تبدیلی رو بہ تنزل ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن عورت تو ہوتی ہی کم فہم ہے مجال ہے جو مرد کی مجبوری کو سمجھے لہذا میں نے بھی بلاوجہ شکیل سے جھگڑنا شروع کر دیا۔

فون چیک کرنے لگی، مصروفیات کا حساب کتاب رکھنے لگی اور اس روز تو میں نے حد ہی کردی۔ شادی کی سالگرہ تھی، تو خود ہی فرض کر لیا تجدید وفا کریں گے، نو لکھی رات کا ری پلے ہو گا۔ اب ضروری تو نہیں تھا کہ میں نے سوچا تو شکیل کو بھی بالکل ایسا ہی سوچنا چاہیے تھا انہیں تو شاید یاد بھی نہیں تھا کہ شادی کی سالگرہ ہے۔ معمول کے مطابق دیر سے آئے پھر لاؤنج میں ٹی وی سے لطف اندوز ہوتے رہے میں بیڈ روم کو خوشبووں سے معطر کیے تنہا جاگتی رہی۔

رات کا تیسرا پہر لگا تو خوامخواہ ہی پیمانہ صبر لبریز کیے لاؤنج میں چلی آئی۔ شکیل فون پر کسی سے ایسی ہی گفتگو فرما رہے تھے جیسی شادی کی سالگرہ پر ایک بیوی کی چاہ ہوتی ہے اور میں نے کسی بیک ورڈ عورت کی طرح چلانا شروع کر دیا اب آپ زخمی شیرنی کو تہذیب کا سبق کیونکر دے سکتے ہیں پر اس زخمی شیرنی کو یہ معلوم نہ تھا کہ مقابل کی کمان میں زہر میں بجھا تیر موجود ہے پس کمان چڑھائی اور کر دیا جگر کے پار۔ طلاق طلاق طلاق۔ لو مل گیا شادی کی سالگرہ کا تحفہ اور ہو گیا رومانس۔ قصہ ہی ختم۔ میں بچوں کے کمرے میں چلی آئی۔ وہ جانے بیڈ روم گئے یا لاؤنج میں ہی پڑے رہے۔ اگلی صبح اپنے لئے چائے کا کپ بنا کر لان کی طرف جا رہی تھی کہ سامنے آ گئے

”میری چائے کہاں ہے؟“ ۔ انہوں نے ایسے پوچھا جیسے رات کو بلاسٹ نہیں کیا پھلجھڑی چھوڑی تھی۔
”خود بنا لیں۔“ اب ”، میں آپکی بیوی نہیں ہوں“
”یار سوری“
”بات سوری کی حد سے بڑھ چکی ہے۔ مجھے جانا ہو گا“
”میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا“ کافی عرصے بعد منافقت سے پاک لہجے کی چھنک سنائی دی۔
”یہ مذاق نہیں شرعی مسئلہ ہے“
”اس کا حل ہے“
میں نے استفہامیہ نظروں سے دیکھا تو نظریں چراتے ہوئے بولے ”حلالہ“
”کیا مطلب“

مطلب یہ کہ کسی سے معاہدے کے تحت عارضی نکاح کر کے طلاق لی جائے۔ اس کے بعد ہم دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔

”ہرگز نہیں۔ میں کوئی کھلونا نہی جسے آپ جب چاہیں کھیلیں، توڑیں اور ایرلدائیٹ سے جوڑ کر پھر کھلونوں کی پٹاری میں رکھ لیں۔

”دیکھو مجھے غصہ آ گیا تھا بس غلطی ہو گئی۔ بچے بکھر جائیں گے“

”یہ اپ کو تار عنکبوت کی مانند ناتا توڑتے وقت سوچنا چاہیے تھا۔ مرد کو طلاق کا حق تفویض کرتے وقت یہ گمان کیا جاتا ہے کہ مرد فہم و فراست اور جذبات پر قابو رکھنے میں عورت سے برتر ہے۔ اسے اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ اور طلاق کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے وقت یاد رکھنا چاہیے کہ کیا نقصان ہو سکتا ہے۔

”میں بچے چھین لوں گا“ منجنیق داغی گئی۔
”بچے چھوٹے ہیں قانون ماں کا ساتھ دے گا“ ۔

میری چائے ختم ہو گئی تھی میں سامان پیک کرنے کمرے میں جاتے ہوئے بولی ”چائے بنانی ہو تو پتی چینی اور ٹی وائٹنر سنک کے اوپر والی الماری میں ہیں“ ۔

اماں صبح صبح بچوں اور سوٹ کیسوں کے ساتھ اترتے دیکھ کر گھبرا گئیں۔ اماں کے گلے لگ کر سارا بھرم ڈھے گیا اور میں چہکوں پہکوں رو دی۔ آخر گھر اور دل دونوں ٹوٹے تھے۔ خود کو سنبھالنا ہی آساں نہ تھا اوپر سے بچوں نے ناک میں دم کر دیا ہر وقت باپ کو یاد کرتے۔ باپ کو بھی گویا ترپ کا پتہ ہاتھ آ گیا تھا فون پر خوب بچوں کو اکساتے اور وہ گھر جانے کے لئے میرا بھیجا کھاتے۔ عدت کے تین مہینے، دن کو بچوں کی ریں ریں اور رات کو اختر شماری میں گزرے۔ غالب کے مصداق

حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
چھوڑا نہ رشک نے کہ تیرے گھر کا نام لوں
ہر ایک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں۔

عدت ختم ہوئی تو شہریار نے شادی کا پیام بھجوا دیا۔ گویا میری طلاق نہ ہوئی بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ شکیل سے شادی والے دن اسٹیج پر جس منگیتر کی رونمائی کروائی تھی اسے دلہن کیوں نہ بنایا، نہ اس نے بتایا نہ میں نے پوچھا۔ میں تو بھسم ہو کر راکھ ہو گئی تھی۔ اس راکھ سے فینکس کا سا دوسرا جنم شہریار کی غیر متزلزل وفا اور سردیوں میں سلگتی انگیٹھی کی خوشگوار حرارت کی مانند محبت نے ممکن کیا۔ اماں ابا بھی دوبارہ میرا گھر بسانے کے تمنائی تھی آخر شہریار کے جذبہ صادق نے میرا دل جیت ہی لیا۔ شکیل نے سنا تو تلملا کر فون کیا۔

میں تمہیں کسی اور کا ہوتے ہوئے برداشت نہیں کر سکتا ’
آپ بھول رہے ہیں اپ اب مجھ پر کوئی حق نہیں رکھتے۔

تم دوسری شادی کرو گی تو بچوں کی کسٹڈی مجھے مل جائے گی ”اس نے ترکش کا اخری تیر چلایا اور نشانے پر لگا میرا دل فگار ہو گیا۔ امکان تھا کہ بچوں کی خاطر میں کھلے دروازے بند کر دیتی جیسا کہ ہمارے معاشرے کا عام چلن ہے لیکن ابا نے سمجھایا وہ صرف ڈراوا دے رہا ہے وہ تنہا بچوں کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔

”لیکن انتقاما ایسا کر لیا تو؟ میں خوفزدہ تھی

”وہ ایسا نہیں کرے گا“ شہریار نے حوصلہ دیا اور یوں شادی ہو کر میں بچوں سمیت شہریار کے آنگن میں چلی آئی۔ شہریار نے مجھے مرد کے ایک نئے روپ سے روشناس کرایا اس میں عشق کی دھیمی آنچ بھی تھی اور خیال رکھنے والے شوہر کا احساس تحفظ بھی۔ کسی ایک دن بھی اس نے پچھلی زندگی کا طعنہ نہیں دیا۔ کبھی بچوں سے غیریت نہیں برتی۔ سب کچھ اتنا اچھا تھا کہ حقیقت سے بعید لگتا تھا خواب کا سا گمان ہوتا تھا کوئی اتنا نفیس اتنا حلیم اتنا چاہنے والا۔

کیسے ہو سکتا ہے یہ بات تو مجھے بعد میں سمجھ مین آئی کہ کیوں اس نے گلک توڑ کر ساری کی ساری محبتیں ایک ساتھ مجھ پر لٹا دی تھیں۔ اسے جلدی تھی۔ اس کے پاس حیات کا دورانیہ ہی تھوڑا تھا، وہ سردیوں کا سورج تھا بہت جلد غروب ہونا تھا۔ برس بھر میں ہی بیوگی کا گھاؤ دے کر چلا گیا۔ ایک۔ پتھر تھا جو سینے پہ دھرا تھا۔ اوپر سے زمانے کی سنگ باری تھی جو منحوس اور حرماں نصیب کے طعنوں سے جگر چھلنی کیے دیتی تھی۔ نصیب کی اس مار سے سنبھلنا آسان نہیں تھا۔

جب شکیل نے نکاح خوانی کا پیغام بھجوایا تو دل راضی نہیں ہوتا تھا طلاق میں غصہ ہوتا ہے پندار کی چوٹ دوسری شادی پر رضامندی کا راستہ ہموار کرتی ہے لیکن بیوگی کا صدمہ اندوہناک ہوتا ہے ناتے کے تارو پود مضبوطی سے بندھے ہوتے ہیں خود کو نئے رشتے میں باندھنا آسان نہیں ہوتا مگر شکیل اور گھر والے قائل کرنے میں لگے رہے۔ شکیل۔ پچھلے رویے پر نادم تھا شرعی گانٹھ بھی کھل گئی تھی بچوں کا واسطہ دیا گیا کہ باپ کے ہوتے ہوئے یتیمی کی زندگی کیوں گزاریں۔ بالآخر بچوں کی خاطر ان کے باپ کو اپنا لیا۔ محبت کا مربع مکمل ہو گیا۔

عجیب شب زفاف تھی۔ وہی کمرہ وہی دولہا وہی دلہن، پر ایک دوسرے سے نگاہیں چراتے تھے۔ ایک ندامت سے دزدیدہ دوسرا ماضی سے ہراساں۔ ازدواجی رشتے کے سانپ سیڑھی کھیل کی نئی بازی شروع ہو رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments