ثاقب نثار کی لیک آڈیو ٹیپ پر طنزیہ نقد و نظر


پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں فلمیں نہیں بنتیں لیکن فلمی اداکار اور اداکارائیں موجود ہیں۔ تبھی تو واحد پاکستانی اداکارہ میرا فلموں میں اداکاری سے زیادہ اپنی ’معصومیت‘ انگریزی اور سچائی کی بنا پر خبروں میں ان رہتی ہیں۔ ایک ٹی وی اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ کسی نے میرا اور کیپٹن نوید کا ماسک پہنا، میری طرح ایکٹنگ کی اور مجھے بدنام کرنے کی خاطر گندی فلم بنا دی۔ میں ایسا کرنا چاہتی تو ہالی ووڈ میں پورن سٹار بنتی اور پونڈز میں کمائی کرتی۔

میرا واقعی معصوم ہے، ورنہ یہ نہ کہتی کہ کسی نے میرا ماسک پہن کر میری طرح ایکٹنگ کی ہے، کیونکہ آخر کون جان سکتی تھی کہ ایسی صورتحال میں میرا کیسا ایکٹنگ کرتی ہے؟ پھر ہالی ووڈ میں پونڈز کمانا بھی میرا ہی کہہ سکتی ہے، ورنہ یہ تو صادق و امین کے اسناد بخشنے والا اور ڈیم فیم سابقہ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب بھی جانتے ہیں کہ پونڈز برطانیہ میں کمائے جا سکتے ہیں امریکہ میں نہیں۔ کیونکہ آسیہ مسیح پیکیج لے کر وہ برطانیہ تشریف لے گئے تھے امریکہ نہیں، جبکہ بائیس کروڑ لوگ جی ہاں بائیس کروڑ لوگ سمجھتے رہیں کہ ریٹائرڈ ہوتے ہوتے ثاقب نثار صاحب تیرنا سیکھ چکے ہوں گے تب وہ ڈیم فنڈ اور ڈیم کی حفاظت کریں گے۔ لیکن تیرنا سیکھ کر وہ سات سمندر پار چلے گئے اور جب تک دوسری پارٹی کا ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ اور وعدے وعید نہیں ہوئے وہ واپس پاکستان نہیں آئے۔ کیونکہ ٹی ایل پی آسیہ مسیح کی رہائی پر بہت سیخ پا تھی لیکن کون جانتا ہے خفیہ معاہدے میں کیا کچھ ہے؟

پاریش راول فلموں میں بدمعاش یعنی ولن کا کردار نبھاتے نبھاتے کامیڈین بن گئے اور ولن سے زیادہ مزاحیہ کرداروں میں پسند کیے جانے لگے۔ ہیرا پھیری اور پھر ہیرا پھیری ان کی مزاحیہ اداکاری پر مبنی دو شاندار فلمیں ہیں۔ اس نے ثابت کیا کہ سیسلیئن مافیا کے کسی گاڈ فادر کا کردار کر کے وہ اتنے مقبول نہیں ہو سکتے تھے جتنا بابو بھیا کا مزاحیہ کردار کر کے وہ مشہور ہوئے۔ چپکے چپکے، پاریش راول کی ایک اور سپر ہٹ مزاحیہ فلم ہے جس میں وہ مچھلی کا کاروبار کرنے والا ایک دیوالیہ ٹھیکیدار کا کردار ادا کرتا ہے۔

اسے ایک دن سمندر سے مچھلیوں کی بجائے فلم کا ہیرو شاہد کپور جال میں پھنسا ہوا مل جاتا ہے۔ جو اپنے مسائل کی وجہ سے جان بوجھ کر گونگا بنا ہوتا ہے۔ پاریش راول اسے اپنا بھتیجا باور کرا کر اپنے قرضے کے عوض ایک سود خور کے پاس گروی رکھ لیتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد شاہد کپور سود خور کے گھر میں اپنے لئے جگہ بنا کر سچ بتا دیتا ہے کہ میں گونگا ہوں نہ پاریش راول میرا چاچا ہے۔

بڑے دنوں کے بعد جب پاریش راول اپنے ’بھتیجے‘ کا حال معلوم کرنے کے لئے سود خور کے گھر آتا ہے تو شاہد کپور اس کے ساتھ سب گھر والوں کے سامنے شستہ ہندی میں بات کرتا ہے۔ پاریش راول حیران و پریشاں ہو کر گھر والوں کو بتاتا ہے کہ یہ گونگا ہے بول نہیں سکتا، یہ بولنے کا مذاق کر رہا ہے۔ پھر شاہد کپور کو سمجھاتے ہوئے کہتا ہے کہ بول، بتادے ان کو کہ تم مذاق کر رہے ہو، تم گونگے ہو بول نہیں سکتے۔

بین الاقوامی ماہرین کے ادارے سے تصدیق شدہ آڈیو ٹیپ، جس میں جناب ثاقب نثار صاحب نواز شریف اور ان کی صاحب زادی کو ہر حالت میں الیکشن سے پہلے نا اہل قرار دینے اور ’دوستوں‘ کے کہنے پر خان صاحب کو ’لانے‘ کے احکامات دیتے ہیں، سننے کے بعد جب اپنی آواز سے پاریش راول کی طرح انکار کیا کہ یہ میری آواز نہیں ہے تو مجھے کچھ یوں لگا جیسا وہ بائیس کروڑ جی ہاں بائیس کروڑ لوگوں کے ساتھ مذاق کر رہا ہو کیونکہ وہ تو گونگا ہے، بہتر ہوتا کہ وہ بتا دیتے کہ وہ بولنے کا مذاق کر رہا تھا کیونکہ وہ تو پیدائشی گونگا ہے بول ہی نہیں سکتا۔ ان کے منہ سے اگر کوئی کچھ سنتا ہے تو وہ، ثاقب نثار صاحب نہیں ہوتے بلکہ وہ ان کے اندر سے ان کا یار بولتا ہے۔

کل عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں عزت مآب چیف جسٹس جناب گلزار احمد فرما رہے تھے کہ عدلیہ پر کوئی پریشر نہیں۔ ہم سارے فیصلے اپنی مرضی سے کرتے ہیں جو کیس بھی میرے پاس پہنچے میں اس کا فیصلہ آزادانہ اور انصاف کے ساتھ کرتا ہوں۔ اگرچہ اس دوران کچھ انتشاری علی وزیر کو رہا کرو کے نعرے بھی لگا رہے تھے اور سامعین میں سوموٹو کی ڈانگ سے مسلح سابقہ چیف جسٹس افتخار چودھری اور بولنے کی ایکٹنگ کرنے والے گونگے ثاقب نثار صاحب بھی بیٹھے تھے۔ بقول شاعر، میں نہیں بولدا لوکوں، میرے وچ میرا یار بولدا۔

چیف جسٹس صاحب کا فرمایا ہوا بالکل بجا ہے، کہ عدلیہ بالکل اپنی مرضی سے آزادانہ فیصلے کرتی ہے ان پر کوئی دباؤ نہیں۔ کیا جرنیلوں پر کوئی دباؤ ہوتا ہے؟ یا وہ کسی کے پریشر میں آ کر ایسا کرتے ہیں؟ مان لیں کہ جرنیلوں کی طرح ججز بھی اپنی مرضی سے قوم کے وسیع تر مفاد میں آزادانہ فیصلے کرتے ہیں۔

لیکن اپنی مرضی سے آزادانہ فیصلے کرنے والا جج جب اپنی آواز پہچاننے سے انکار کر کے گونگا ہو جائے تو پھر انصاف عدالت کے دروازے کے باہر مظلوم کے گلے لگ کر روتا ہے اور قانون گھنگھرو پہن کر تماش بینوں کے پھینکے ہوئے نوٹ اکٹھا کرنے میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ بقول مطیع اللہ جان، انصاف نہ دے سکنے کی صورت میں جج آواز اونچی کر کے تقریریں کرتے ہیں اور ڈائس پر مکے مارتے ہیں۔

سپریم کورٹ انصاف دینے کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور سپریم کورٹ کے ججز سب سے زیادہ قابل اعتماد منصف، پھر چیف جسٹس تو انصاف کے اہرام پر بیٹھا ہوا رعمسیس دوم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں تک وہ جس محنت سے بھی پہنچا ہو، آگے اپنا کردار وہ خود لکھتا ہے۔ وہ جسٹس منیر کا راستہ پکڑ کر ثاقب نثار بننا پسند کرے یا جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس رستم کیانی کا راستہ پکڑ کر جسٹس فائز عیسیٰ۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments