محبت کی شادی، انجام بربادی؟


بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ شادی دو افراد کا ایسا باہمی رشتہ ہے جو ریل کی دو پٹریوں کی طرح باہم چلتے رہنے سے ہی برقرار رہتا ہے۔ جہاں کسی ایک کا بھی مزاج اکھڑنے لگے زندگی کی گاڑی تھم جاتی ہے۔ ہم ہمیشہ سے ساتھ چلنے والی پٹریوں کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن کبھی اس کے متوازی چلنے یعنی، باہمی چار فٹ ساڑھے آٹھ انچ کے فاصلے پر بات نہیں کرتے۔

مرد، عورت کا اس رشتے کی سانجھ میں آنا ایک اٹل حقیقت ہے جو انسانی تاریخ میں مختلف اطوار و انداز میں اپنایا جاتا رہا۔ آج بھی انسان کسی ایک فرد سے آزادی کی خواہش تو کر سکتا ہے لیکن سرے سے ہی اس تعلق سے آزادی کا خواہاں نہیں ہو سکتا ۔ وہ اس تعلق کی ذمے داریوں میں ہی زندگی کو ڈھونڈتا اور اس کے معنی تلاش کرتا ہے۔ عام حالات میں اس تعلق کی ناکامی کے کئی جواز ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہ رشتہ محبت کے تعلق میں بندھ کر جوڑا جائے تو اس کی ناکامی کا جواز خود محبت ہی کو ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ گویا یہ ایک ناقابل معافی جرم یا ایک انتہائی انوکھا و حیرت انگیز واقعہ ہے۔ اسے کچھ بھی سمجھا جائے لیکن سچائی تو یہی ہے کہ دنیا بھر میں جدا ہونے والوں کا 80 فیصد، ایسی ہی پسند اور محبت کی شادی کرنے والوں کا ہوتا ہے۔

ایسا کیوں ہے کہ محبت کا تعلق شادی جیسے رشتے کو سہار نہیں پاتا۔ اس کا جواب تلاش کرنے سے پہلے یہ سمجھ لینا زیادہ اہم ہے کہ آیا جن شادیوں کو ہم محبت کی شادی کا نام دیتے ہیں ان میں بندھنے والے دو افراد محبت کے معنی و مفہوم سے بھی آگاہ ہوتے ہیں یا نہیں؟ عموماً تو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جسے محبت کا تعلق کہا اور سمجھا جاتا ہے وہ مرد کا عورت اور عورت کا مرد سے محض ہوس اور شہوت کا تعلق ہوتا ہے۔ کیونکہ محبت ایک مسلسل جذبے کا نام ہے جب کہ جنس یا ہوس محض ایک وقتی ابال جو چند مہینوں یا محض چند دنوں میں ہی ٹھنڈا پڑ سکتا ہے۔

محبت کو سمجھنے کے لئے اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ یہ جذبہ انانیت سے دستبرداری کا نام ہے۔ اس لئے اسے اپنانے کے لئے خودساختہ جبری فلسفے سے انکار ضروری ہے۔ محبت وہ نہیں جو آپ کو دوسرے کے جسم و روح پر قابض بنا دے جو لوگ ایسا سوچتے ہیں وہ دراصل اپنی شخصی اناؤں کے محبوس خانوں کے قیدی ہیں۔ ان کے احساسات اور جذبات، گھمنڈ اور خود پرستی سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے محبت کے معنی اپنی برتری کی دھاک بٹھانا ہیں۔

محض غلبہ پانے کی حرص نوچنا، جھپٹنا، چھیننا تو سکھا سکتی ہے محبت کے تعلق کے ایثار، درگزر اور برداشت کو سہنا نہیں۔ اس لئے ہم عموماً جسے محبت سمجھتے ہیں وہ محبت نہیں اسی لئے اس کے زعم میں بنائے گئے تعلق میں لوگ محبت کو نبھاتے نہیں صرف اس تعلق کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ اور جب اس بوجھ کو سہار نہ پائیں اسے اتار پھینکتے ہیں۔

بہت سی شادیاں جنہیں ہم محبت کی شادی کا نام دیتے ہیں وہ دراصل راہ فرار اختیار کرنے کا طریقہ ہیں۔ ایسی گھٹن آمیز خاندانی روایات سے فرار، جو فرد میں ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے اور انہیں ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر تا ہے۔ عموماً لڑکیاں ایسے حالات سے چھٹکارے کے لئے، خودکشی یا پھر بھاگ کر شادی کرنے کے دو انتہائی اقدام میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیتی ہیں۔ ایسی شادیوں کو محبت کی شادی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اس فرار کو بھی محبت ہی کا قصور ٹھہرا کر، ان دو افراد کو عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ”محبت اپنی مرضی سے کھلے پنجرے میں طوطے کی طرح بیٹھے رہنے کی صلاحیت کا نام ہے“ یہی اس کی آزمائش اور اسے دائمی بنانے کی صورت ہے۔ لیکن یہ خاصا دقت طلب اور صبر آزما کام ہے۔ جس کے لئے روح کی تمام تر جرات و ہمت درکار ہے ورنہ جلد ہی یہ تعلق بوجھ اور اس میں کیے گئے قول و قرار گلے کا پھندا محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہ بات بھی ثابت ہے کہ اس قفس کی کشش اسے مکمل رضا و رغبت سے اپنانے سے ہی ہے۔ زور زبردستی کی گھٹن میں وہ دم توڑ دیتی ہے۔

المیہ یہ بھی ہے کہ محبت کی شادی کو اکثر وہاں بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جہاں دو چاہنے والے اس کے مفہوم و مطالب سے باخبر تھے۔ کئی تخلیق کار، ادیب، فنکار جو محبت کو سمجھنے اور برتنے کے دعویدار تھے۔ محبوب کو پا لینے کے بعد اس دعوے کا مان نبھا نہ سکے۔ دور کیوں جاتے ہیں اپنے جون ایلیا صاحب ہی کی مثال لیں کہ جن کی طبیعت کی نرگسیت نے انہیں عمر کے آٹھویں سال ہی میں محبت کرنا اور شعر کہنا سکھا دیا۔ پھر وہ عورت جس سے انہیں عشق تھا اسے پا بھی لیا۔

باوجود اس کے کہ دونوں کا مزاج و فن یکساں ٹھہرے، دونوں کا زندگی کو پرکھنے اور برتنے کا چلن یکساں نہ ہوسکا۔ ان کی خانگی زندگی کچھ اس طور الجھی کہ سبھی تعلق توڑنے کی نوبت آ گئی۔ اور انہیں انتہائی حزن اور ملال سے اعتراف کرنا پڑا کہ ”اگر دنیا میں زاہدہ اور میری محبت ناکام ہو سکتی ہے تو کسی کی بھی ہو سکتی ہے“ محبت کو پا لینا اور اسے پانے کی خواہش و چاہت کرنا دو الگ باتیں ہیں۔ یعنی محبت کرنے کی سرشاری اسے حاصل کر لینے کی سر خوشی سے قطعاً مختلف ہے۔

سچی اور کھری محبت میں محبوب کو پانے یا اس تک پہنچنے کی آرزو اور تمنا تو ہو سکتی ہے لیکن اسے اپنی دسترس میں کر لینے کا جنون نہیں۔ اور جب طلب دسترس بن جائے تو تلاش و جستجو کا عمل رک جاتا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کی پیاس ہی اک سچے فنکار کا ہنر اور اس کے ہنر کا معیار ہے۔ وہ اپنی قربانی تو دے سکتا ہے پر اپنے ہنر اور تخلیقی سفر کو غارت نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ کہ پھر جون ایلیا نے عمر بھر اسی تعلق کے دکھ میں خون تھوکا لیکن خیال سے شاہکار کے بت تراشتے رہے۔

اگر آپ کو کسی سے محبت ہے اور وہ سچی بھی ہے تو پٹریوں کے درمیاں حائل چار فٹ ساڑھے آٹھ انچ کے فاصلے کو بھی اہمیت دینی چاہیے۔ وہ فاصلہ جو اگر ختم ہو جائے تو سبھی کچھ گڈ مڈ ہو جاتا ہے۔ وہ فاصلہ جسے پاٹ لینے سے محبت امر نہیں ہوتی لیکن مر جاتی ہے اور اس کا احساس لایعنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ تعلق کو بھی فاصلہ درکار ہوتا ہے جس طرح حد سے زیادہ اور حیثیت سے بڑھ کر وسائل کا استعمال بعد ازاں تنگ دستی و مفلسی کا باعث بنتا ہے ٹھیک اسی طرح حد سے زیادہ قربت اور محبت سے جذبوں کا تھک جانا یا ماند پڑ جانا بھی ممکن ہے۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جس سے محبت کی جائے اس سے شادی نہ ہی کی جائے تو بہتر۔ اب ہر کوئی کھلے پنجرے میں طوطے کی طرح اپنی مرضی سے بیٹھے رہنے کا حوصلہ کہاں سے لائے۔ اس لئے محبت کو اگر جینا ہے تو محبوب سے چار فٹ ساڑھے آٹھ انچ کا فاصلہ تو رکھنا ہی پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments