گریجوایٹس قبضہ مافیا کی زد میں


میڈیا کی خبروں سے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کا بیشتر حصہ قبضہ مافیا کی زد میں ہے، اور یہ قبضہ مافیا اتنا با اثر ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس کے خلاف ریاست کو ٹھوس کارروائی کرنے کی جرات تک نہیں ہو سکی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قبضہ مافیا کے قبضے اس قدر پھلتے پھولتے گئے کہ بات اس نہج تک پہنچ گئی کہ ہرطرف قبضہ مافیا کا شور برپا ہے اور اس مافیا سے سرکاری زمینوں کے ساتھ ساتھ ملک کے مظلوم عوام کی اراضی بھی اب محفوظ محسوس نہیں ہوتی۔

بدقسمتی سے مذکورہ مافیا کو سیاسی اشرافیہ کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔ اس بات کا واضح ثبوت وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان ہے جس میں انہوں نے کھل کر اس بات کو بیان کیا کہ سیاسی اشرافیہ کی مدد سے لینڈ مافیا نے ریاستی اراضی بشمول جنگلات کی اربوں روپے کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اپنی ٹویٹ میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں کمی کی ایک بڑی وجہ جنگلات کی قیمتی اراضی پر قبضہ ہے، جب ہم نے لینڈ ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کرنے کے لیے کیڈیسٹریل میپنگ کی تو کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

وزیراعظم نے کہا سرکاری اراضی کی میپنگ کے پہلے فیز میں حیران کن حقائق سامنے آئے، قبضہ شدہ سرکاری اراضی کی مجموعی ویلیو 5 ہزار 595 ارب روپے ہے، جب کہ جنگلات کی قبضہ شدہ زمین کی ویلیو ایک ہزار 869 ارب روپے ہے۔ محترم وزیراعظم صاحب کا بیان سامنے آنے کے بعد یہ بات تو واضح ہو گئی کہ یہ مافیا اتنا زیادہ تگڑا ہے کہ اس کی حوصلہ شکنی کرنے اور ان سے ملک کی قیمتی اراضی واگزار کروانے کے لئے جامع اور ٹھوس حکمت عملی فوری اپنانے کی ضرورت ہے۔

اس قبضہ مافیا کے تگڑے پن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2010 ءمیں جب میاں محمد شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو پنجاب گورنمنٹ نے بے روز گاری میں کمی اور قبضہ مافیا کی حوصلہ شکنی کرنے کی غرض سے زرعی اور ویٹرنری گریجوایٹس کو جنگلات کی ویران پڑی سرکاری اراضی پھل دار درخت لگا کر آباد کرنے کے لئے الاٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت کی پنجاب حکومت نے 2 مرحلوں میں گریجوایٹس کے درمیان یہ اراضی تقسیم کرنے کے لئے اخبار اشتہار کے بعد قرعہ اندازی کروانے کا فیصلہ کیا جو کہ مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر میں منعقد کی گئی۔

پہلے مرحلے میں زرعی اور ویٹرنری گریجوایٹس کو نصف نصف مربع جبکہ دوسرے مرحلہ میں قرعہ اندازی کے دوران فال نکلنے والے فی گریجوایٹ کو 25 ایکڑ الاٹ کیے گئے مگر بدقسمتی سے با اثر قبضہ مافیا نے حکومت کے اس احسن اقدام کو پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے ہی روک دیا۔ بے روزگار زرعی اور ویٹرنری گریجوایٹس نے عرصہ 11 سال کے دوران محکمہ ریونیو اور اعلیٰ افسر ان کے دفاتر کے طواف کرنے کے علاوہ مختلف فورمز پر حکومت سے الاٹ شدہ زرعی اراضی کے حصول کا پرزور مطالبہ بھی کیا مگر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔

اس بارے میں متعدد متاثرین سے کئی بار غیر رسمی بیٹھک ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ مذکورہ غیر آباد زمینوں کو آباد کرنے کے لئے اخبار اشتہار کے بعد صوبائی حکومت کو صوبہ بھر سے 5000 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ قرعہ اندازی کے ذریعے 2000 خوش نصیبوں کو زمینوں کی الاٹمنٹ کی گئی مگر با اثر قبضہ مافیا کی وجہ سے 40 %ہی گریجوایٹس زمینیں حاصل کرسکے۔ انہوں نے بتایا کہ نشاندہی کردہ زمینوں کو آباد کاری کے لئے حاصل کرنے کی کوشش میں متعدد افراد اپنی زندگیوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ انگریز سامراج کے غلامانہ نظام کے تحت گھوڑی پال، بھیڑ پال اور اونٹ پال سکیم وغیرہ کی مد میں الاٹ کی گئی زمینیں ابھی بھی صوبہ کے سینکڑوں افراد کے قبضہ میں ہیں اور ان کا ملکی و قومی ترقی میں صرف اتنا ہی کردار ہے کہ وہ سارا دن ڈیروں میں بیٹھ کر افسر شاہی اور پولیس کی ٹاؤٹی کے علاوہ ملک کی افرادی قوت میں زبردست کمی کا باعث بن رہے ہیں مگر پڑھے لکھے گریجوایٹس کو الاٹ شدہ زمینیں 11 سال گزرنے پر بھی نہیں مل سکیں۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے آبائی ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی مذکورہ سکیم کے تحت گاؤں 300 گ ب میں کچھ زرعی اور ویٹرنری گریجوایٹس کو جنگلات کی ویران پڑی اراضی آباد کرنے کے لئے الاٹ کی گئی تھی مگر با اثر قبضہ مافیا نے رکاوٹ بنتے ہوئے اس سکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے ہی تاریخ کے کوڑے دان کی نظر کر دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس ایشو پر اپنے حالیہ بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ قبضہ مافیا اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھرپور ایکشن لیں گے۔

اب دعا ہے کہ یہ ایکشن شوگر، آٹا اور گندم مافیاز کے خلاف لئے گئے ایکشنز جیسا بالکل نہ ہو۔ جنگلات کی ویران پڑی زمینیں پھل دار درخت اگا کر آباد کرنے کی غرض سے زرعی اور ویٹرنری گریجوایٹس کو الاٹ کرنے کے متعدد فوائد حاصل ہوسکتے ہیں، مثال کے طور پر سب سے بڑھ کر قبضہ مافیا کی حوصلہ شکنی، بے روزگاری میں کمی، ملک کی افرادی قوت اور خوبصورتی میں اضافہ، گلوبل وارمنگ میں کمی اور پھلوں کی پیداوار میں اضافہ شامل ہیں۔

اب حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے منشور پر قائم رہتے ہوئے الاٹ شدہ زمینیں قبضہ گروپوں سے واگزار کر واکر زرعی اور ویٹرنری گریجوایٹس کو لیز پر فراہم کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر عملی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ بے روزگاری میں کمی ہونے کے ساتھ ساتھ مگرمچھوں جیسے قبضہ گروپوں کا حقیقت میں خاتمہ ممکن ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments