بیٹیوں کی توہین کا مجرم کون؟


گزشتہ دنوں سینیئر صحافی جناب انصار عباسی کا کالم پڑھا، جس میں محترم نے رشتے ناتوں میں لڑکیوں کو درپیش تمام تر مشکلات کا ملبہ اٹھا کر لڑکے والوں پر ڈال دیا۔ کالم پڑھ کر چند معروضات نے ذہن کے خاموش دریچوں میں جنم لیا، سوچا کیوں نا سوچوں کے ان تانے بانوں میں آپ کو بھی شریک کرلوں۔

اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ جب رشتے ناتوں کی بات آتی ہے تو لڑکی والوں کو ناقابل بیان اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے، دوسرا رخ یہ ہے کہ بنت حوا کو بھی وہی فرزند آدم لبھاتا ہے، جس کے پاس مال و دولت کا ذخیرہ ہو، جو ویل سیٹلڈ ہو، یا کسی بھی حال میں مضبوط حیثیت کا مالک ہو۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ کوئی معیوب بات بھی نہیں ہے، ہر کسی کو اپنے مستقبل کو سنہرا بنانے اور مالی پریشانیوں سے آزادی حاصل کرنے والے فیصلے کرنا کا مکمل حق حاصل ہے۔

لیکن جب ایک لڑکی کے لیے آنے والے رشتوں کو محض اس وجہ سے ٹھکرایا جاتا رہے گا کہ لڑکے کی ملازمت معمولی ہے، لڑکا کرائے کے مکان میں رہتا ہے، لڑکے کے پاس بینک بیلنس نہیں ہے، تو پھر جو لڑکا، لڑکی والوں کے معیارات پر پورا اترے گا تو لازمی سی بات ہے کہ اس کے بھی کچھ معیار ہوں گے۔ یہاں یہ چلن عام ہو چکا ہے کہ ایک معمولی سی سرکاری ملازمت کے حامل لڑکے کو اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے بھی اپنی اعلی تعلیم یافتہ لڑکیاں دے دیتے ہیں جبکہ اگر کوئی لڑکا پرائیویٹ جاب کرتا ہے یا اس کی مالی حالت مستحکم نہیں ہے تو اس کو معمولی تعلیم یافتہ لڑکی بھی منہ لگانے کو تیار نہیں ہوتی۔

ایک بار ذرا سوچیئے کہ جس لڑکے کو رشتہ اس لیے نہیں مل رہا کہ بحیثیت نوجوان اور انسان اسے شادی کی ضرورت ہے بلکہ اسے رشتہ اس وجہ سے مل رہا ہے کہ وہ مالدار ہے، اس کے پاس سرکاری نوکری ہے، اس کے پاس بینک بیلنس ہے، تو عزیزان من اس کے نخرے بھی تو ہوں گے نا؟ میں کامل یقین سے کہتا ہوں کہ لڑکی والے مالی حیثیت کو پس پشت ڈال کر اپنی لڑکیاں دینا شروع کر دیں، پھر دیکھئے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اور یہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے، کچھ زیادہ عرصہ نہیں بیتا، آج سے کم و بیش پچاس سال پہلے شادی کے لیے مال و دولت معیار نہیں ہوا کرتی تھی، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ لڑکی یا لڑکے کو دیکھے بغیر ہی رشتے طے ہو جایا کرتے تھے۔ دیکھنے دکھانے کی اس رسوا کن رسم سے مال و دولت کو معیار بنانے کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔

ان معروضات کا ہر گز یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ساری ذمہ داری لڑکی والوں کی حرص و ہوس پر ہے بلکہ اس معاملے کا ایک تیسرا پہلو بھی ہے جو کہ معاملے کی اصل بنیاد ہے اور پہلے دونوں پہلو اس تیسرے پہلو کا محض عکس ہیں۔ وہ تیسرا پہلو ہے، پاکستان میں جاری معاشی نظام۔

پاکستان میں اس وقت جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون اور معاشی نظام ہے، نظام مملکت کا سارا ڈھانچہ امیر کو مزید امیر اور غریب کو مزید غریب کرنے کے بے رحم سرمایہ دارانہ اصولوں کے گرد گھومتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ملک میں مہنگائی، بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور معیار زندگی مسلسل گر رہا ہے۔ اس وقت حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 11 فیصد سے زائد نوجوان بیروزگار ہیں۔ نوجوانوں کی پچاس فیصد سے زائد تعداد محض معمولی تنخواہوں پر گزارا کر رہی ہے۔

ایسی تنخواہوں پر جن پر دو افراد کا گزر بسر انتہائی مشکل ہے۔ ایسے نوجوان چند فیصد ہی ہیں، جو سونے کا نوالہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں، یا اچھی تعلیم حاصل کر کے اچھی ملازمتیں اور اچھے کاروبار حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کی تعداد کو گنا جائے تو ان کی شرح بمشکل بیس سے تیس فیصد نکلے گی۔ باقی پچاس سے ستر فیصد نوجوانوں کی آمدنی تو بس اتنی ہے کہ جسم و جان کا رشتہ برقرار رہے۔ اس طرح ایک محتاط اندازے کے مطابق ستر فیصد کے قریب نوجوان خط غربت کے آس پاس یا پھر اس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

جب رشتے ناتوں کی بات کی جائے تو یہ ستر فیصد نوجوان تو کسی گنتی میں ہی نہیں آتے۔ اب صورتحال کچھ یوں بنتی ہے کہ 25 سے 30 فیصد نوجوانوں کے لیے 100 فیصد لڑکیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ اس طرح ایک لڑکے کو ایک ہی وقت میں 4 لڑکیاں دستیاب ہیں، اور ہر سال اچھے رشتوں کی تلاش میں بیٹھی رہنے والی لڑکیاں جو سرپلس کی صورت میں اس تناسب کو مزید بگاڑنے کا سبب بن رہی ہیں۔ اگر ان کو بھی گنتی کر لیا جائے تو یہ تناسب مزید بگڑ جاتا ہے۔

جہاں تک رہی بات لڑکوں کی، وہ تو بہت جلد کمپرومائز کرلیتے ہیں، مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کے لڑکے غیر تعلیم یافتہ اور غریب گھرانوں میں بھی شادیاں کرلیتے ہیں، لیکن اصل مسئلہ لڑکیوں، خاص طور پر مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس لڑکیوں کا ہوتا ہے، مڈل کلاس لڑکیاں عموماً شہزادوں کے خواب دیکھتی ہیں اور اگر شکل و صورت میں نمایاں نہ ہوں تو پھر یہی خواب ان کے لیے روگ بن جاتے ہیں۔ ان کے والدین اس وقت تک شادی کرانے کے لیے تیار نہیں ہوتے جب تک کہ امید کی آخری کرن بھی ساتھ نہ چھوڑ جائے، ایسے میں کچھ لڑکیوں کی تو مرادیں بر آتی ہیں لیکن اکثر و بیشتر کو ایک طویل صبر آزما سفر کے بعد بھی کسی کم حیثیت کے لڑکے پلے ہی بندھنا پڑتا ہے۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز میں معاشی برابری کے نظام کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ ایک طرف ڈیمانڈ اور سپلائی کا یہ خوفناک حد تک بگڑتا ہوا توازن ہے تو دوسری طرف خالصتاً بے رحم سرمایہ دارانہ سماج، تو ایسے میں آپ ایک ہزار کالمز، ایک لاکھ سیمینارز، ایک کروڑ لیکچرز کا بھی انعقاد کر لیں، یہ سب مل کر بھی عوامی رویوں میں تبدیلی نہیں لا سکتے اور نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی نکلنا ہے۔ یہ بے رحم اور ظالم سرمایہ دارانہ سماج کی بنیادی خاصیت ہے کہ وہ خود غرضی، بے حسی اور سنگدلی کے دلدل میں بنی نوع انسانیت کو دھکیل دیتا ہے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ بنت حوا یوں رسوا نہ ہو اور ابن آدم محض غربت کی وجہ سے اپنی فطری خواہشات کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائے تو اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ حل پاکستان کے نظام معیشت کو برابری کے ایسے اصولوں پر استوار کرنا ہے کہ جس کی بدولت ہر نوجوان جو آٹھ گھنٹے محنت کرے، اسے اس قدر اجرت مل جائے کہ وہ اپنے گھر بار، تعلیم، صحت اور دیگر تمام ضروریات کو پورا کرنے کے بارے میں بے فکر ہو جائے۔ یقین جانیئے کہ اگر ہم ایک ایسا سماج تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں کہ جس میں کسی بھی محنت کش کو تعلیم، روزگار، صحت، اور رہائش جیسی ضروریات زندگی کے لیے پریشان نہ ہونا پڑے، بیروزگاری کا سامنا نہ کرنا پڑے تو ہم دیکھیں گے کہ بغیر کسی تبلیغ اور اخلاقی کالمز اور تقریروں کے ہی، اسی سماج میں وہ زبردست اور قابل تقلید اخلاقیات جنم لیں گی کہ یہ سماج حقیقت میں جنت کا ایک نمونہ بن جائے گا۔ آخر کار تمام سیاسی اور سماجی برائیاں کسی بھی سماج کے معاشی نظام سے ہی برآمد ہوتی ہیں۔ جب تک وطن عزیز کے معاشی نظام کو امیر کی بجائے غریب کے فائدے کے قالب میں نہیں ڈھالا جائے گا، تب تک ایسی تمام خواہشات محض خواہشات ہی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments