عوام کالانعام اور کالعدم پیارے


مملکت خداداد میں آج کل ’‘ کالعدم۔ کالعدم“ کھیلا جا رہا ہے۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت جو کے خیر سے کالعدم بھی تھی، نے بڑے جوش و ولولے سے اپنے قائد کی رہائی کے لیے لاہور سے اسلام آباد تک دھرنا دیا، حکومت نے ہمیشہ کی طرح گھٹنے ٹیکے اور مذاکرات کے ذریعے اس جماعت کے ساتھ کالعدم کا لفظ ہٹا دیا گیا اور قائد کی رہائی بھی ممکن ہو گئی۔

کہنے کو تو لفظ کالعدم چھوٹا سا ہے، مگر اس لفظ کی گہرائی بہت وسیع ہے۔ اتنی وسیع کے اگر کوئی اس میں ڈوب جائے تو باہر نہیں نکل سکتا۔ خیر سے اب یہ معنی بھی ختم ہونے کو ہوں۔ حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کی آڑ میں ایک ایسی تنظیم پر سے بھی کالعدم لفظ ہٹانے کی تیاری کرلی ہے جس نے پاکستان کی گلی گلی کو خون میں نہلایا۔ ہزاروں انسانوں کی جانیں ان کی گردنوں پر ہے۔ آرمی پبلک اسکول کے بچوں کا خون ان کے چہروں پر ہے۔ یعنی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) ۔

حکومت کے ٹی ٹی پی سے مذاکرات بڑی تیزی سے جاری ہیں اور فائر بندی کی بھی اطلاعات ہیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس معاملے پر بحث بھی ہوئی اور تحریک طالبان پاکستان کے نام کے ساتھ کالعدم ہٹانے کا بھی ذکر خیر ہوا اور شنید یہی ہے کہ بہت جلد یہ بھی حکومتی فراغ دلی سے مستفیض ہوجائیں گے۔

تھی خبر گرم کہ غالبؔ کہ اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پر وہ تماشا نہ ہوا

متحدہ قومی موؤمنٹ پاکستان کے کنوینر اور وفاقی وزیر مملکت ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کابینہ اجلاس میں شکوہ کیا کہ جب تحریک لبیک اور تحریک طالبان جیسی جماعتوں کو قومی دھارے میں لایا جاسکتا ہے تو پھر ہم نے کیا قصور کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے دفاتر کیوں نہیں واپس کیے جا رہے ہیں۔ ہماری اوپر جو پابندیاں اسے بھی ختم کیا جائے۔

شکوہ شکایتیں تو ہوں گی جب آپ آرمی پبلک اسکول کے شہداء بچوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں سے مذاکرات کریں گے۔ گلہ تو ہو گا جب ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کی حمایت کی جائے گی۔

موجودہ حکومت جتنے دعوؤں اور وعدوں کے ساتھ آئی تھی وہ سب آہستہ آہستہ مک گئے ہیں۔ وعدے کافور ہو گئے ہیں۔ امیدوں کے چراغ بجھ گئے ہیں۔ روشنی کی کرن آنا بند ہو گئی ہے۔ مہنگائی، لاقانونیت، بدعنوانی، رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی نے عام آدمی سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے اور حکومت کا ابھی تک صرف دعوؤں اور بڑھکوں پر انحصار ہے۔ ساڑھے تین سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا۔ 170 ہفتے، 1185 دن، 28 ہزار 440 گھنٹے، کوئی معمولی نہیں ہوتے۔ ہر گھنٹے میں کئی اہم فیصلے ہوسکتے تھے۔ ہر منٹ کوئی نیا کارنامہ انجام دیا جاسکتا تھا۔ اگر ان 28 ہزار 440 گھنٹوں میں سے صرف 12 گھنٹے ہی قوم کے لیے نکال دیے جاتے تو یقیناً آج حالات مختلف ہوتے۔

دعوؤں اور بڑھکوں سے حکومتیں نہیں چلا کرتیں۔ ریاست پروان نہیں چڑھتی۔ عوام خوشحال نہیں ہوتی۔ اس کے لیے محنت اور مشکل فیصلے کرنے کی ہمت و جرات چاہیے ہوتی ہے۔ اور جب فیصلے کر لیے جائیں تو اس پر ڈٹ جانا ہی اصل لیڈر کی نشانی ہوتی ہے۔ یوٹرن لینا کوئی سیاست نہیں بلکہ مصلحت ہوتی ہے اور مصلحت سے کبھی بھی انقلاب بپا نہیں ہوتے۔

قائداعظم اگر مصلحت کا شکار ہو جاتے تو کیا پاکستان بن پاتا؟

اگر ذوالفقار علی بھٹو امریکہ کے دباؤ میں آ کر مصلحت کا شکار ہو جاتے تو کیا ایٹمی صلاحیت کی جا سکتی تھی؟

تاریخ شاہد ہے کہ مصلحت کا شکار ہونے سے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور جرات اور بہادری سے فیصلوں پر عمل درآمد سے مسائل وقتی طور پر گمبھیر ہوسکتے ہیں مگر وہ ختم ضرور ہوتے ہیں۔

بات کہاں تھی اور کہاں چلی گئی!
شنید تو ایک اور ہے جس کی حقیقت کیا ہے وہ تو مقتدر حلقے ہی تصدیق یا تردید کر سکتے ہیں۔
بانی متحدہ کے لئے دروازے کھولے جا رہے ہیں اور جلد ہی ”ہیلو“ کی آواز گونجتی ہوئی سنائی دے گی۔

کراچی۔ کہنے کو ایک کاسمو پولیٹن شہر، چاہے اس کی ڈیرہ کروڑ کی آبادی ہی کھائی جا چکی ہو، اس کے حصے کو آدھا ہی کر دیا ہو مگر اس کی اہمیت و وقعت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ جتنا کراچی 2018 ء کے بعد بے سکون ہو گیا ہے، شاید اتنا تو انارکی کے دوران بھی نہیں ہوا تھا۔ بڑے بڑے سرمایہ دار زمین پر آچکے ہیں۔ کاروباری علاقوں میں آج بھی سوگ کا سا سماں رہتا ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ بھتہ مافیا اور اسٹریٹ کرمنلز کے رحم و کرم پر کراچی اور اس کے عوام سسک رہے ہیں، بلک رہے ہیں مگر کوئی درماں نہیں۔ کے الیکٹرک کا ظلم حد سے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ لوڈشیڈنگ اپنی جگہ، اور بھاری بھرکم بل کا بوجھ الگ۔ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔

بیرونی خطرات سے نمٹنا آسان ہوتا ہے بہ نسبت اندرونی خطرات سے۔ اللہ نہ کرے جو حالات چل رہے ہیں، اس میں اگر انارکی کی کیفیت پیدا ہو گئی، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو کیا ہو گا؟ اپوزیشن اس صورت حال سے مکمل فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے مگر ناکام ہے کیونکہ ان حالات کی اصل ذمہ دار تو یہی اپوزیشن اور ان کے لیڈران ہیں۔ ان کی دال گلنے میں نہیں آ رہی ہے۔ اسی لیے مقتدر حلقے بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ عمران خان سے حکومت اور ریاست سنبھلنے میں نہیں آ پا رہی ہے۔ نئے چہروں کی تلاش شروع ہو گئی ہے۔ اگلے سال سے انتخابات کی تیاریاں بھی شروع ہوجائیں گی اس سے پہلے پہلے نئی پلاننگ کی اشد ضرورت ہے۔

حکومتیں آتی جاتی ہیں۔ چہرے بدلتے رہتے ہیں۔ ریاست کی سالمیت اور عوام کی خوشحالی سب سے اہم شے ہوتی ہے۔ اگر یہی خطرے میں پڑ جائے تو پھر کچھ باقی نہیں رہتا۔ نہ ریاست کی سالمیت اور نہ عوام کی خوشحالی۔ صرف انارکی اور خانہ جنگی ہوتی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments