ساندل بار کی کہانی بابا بدھ سنگھ کی زبانی


کتاب اور رقم الحروف کی دوستی ہونی تھی اور نہ اب تک اس سطح کی ہو سکی ہے۔ جتنی کہ ہونی چاہیے تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ اتنا ضرور ہوا کہ ضرورتوں کے تحت ایک دوسرے کو اتنی قربت دی ہے کہ جتنی کہ اگلی سیڑھی کے لئے درکار تھی ’پھر جیسے تھے کے مقام پر چلے گئے‘ ان فاصلوں کے باوجود اب پتہ نہیں کیوں جس کتاب کو دیکھ کر نیند غلبہ مارتی تھی ’وہ کہانی بدل رہی ہے‘ اب کتاب کی قربت کے لئے دل کرتا ہے ’شاید زندگی کی الجھنوں کو سلجھاتے سلجھاتے اس نتیجہ پر آ کھڑا ہوا ہوں کہ بہترین دوست کتاب ہی ہے۔

دراصل کتاب سے دوری اپنے آپ سے دوری ہے؟ اپنے آپ کو اس کے بغیر پانا مشکل ہی نہیں نہ ممکن ہے۔ اس سچائی کو پانے کے باوجود‘ ابھی وہ مقام کتاب کے لئے اپنے اندر پیدا نہیں کر سکا جس کی اندر تڑپ بڑھ رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ کتاب کے لئے اتنا وقت نہیں ’جتنا کہ ہونا چاہیے‘ پھر کتابوں کی کمرشل بنیادوں پر اشاعت نے ان کی قیمتوں کو آسمانوں پر پہنچا دیا ہے ’ایک طرف آج کے لکھنے والوں نے اس کو منافع بخش کاروبار سمجھ لیا ہے تو دوسری طرف پبلشرز نے تو اپنے منافع کو کئی گنا بڑھا دیا ہے‘ ادھر حکومتوں کے لئے یہ شعبہ وہ اہمیت نہیں رکھتا جو کہ ایک نالی ’سولنگ اور ایکسپریس ہائی وے رکھتا ہے‘ شاید ان میں دلچسپی کی وجہ طے شدہ کمیشن ہے۔

یوں کتاب ان کی دلچسپی کے کسی ترجیح کے آخری کونے میں بھی نہیں آتی ہے۔ یوں کتاب لاوارث ہو کر پبلشرز کے رحم و کرم پر آ گئی ’پھر وہ کیا کہتے ہیں کہ جو مزاج یار میں آئے‘ وہ چاہیں اس کو آٹا مافیا ’چینی مافیا‘ ادویات مافیا یا کھاد مافیا کی طرح جیسے چاہیں فروخت کریں ’کر سکتے ہیں‘ یا پھر پیکٹ دودھ کمپنیوں کی طرح دیہی علاقوں سے دودھ پچاس روپے کلو لے کر 45 روپے فی پاؤ شہروں میں فروخت کریں ’مطلب 180 روپے فی لٹر فروخت کریں۔

اب کتاب سے دوری پر افسوس بڑھ رہا ہے اور بار بار دل کرتا ہے کہ اس سے یاری ہونی چاہیے تھی‘ دن اکٹھے گزرتے اور راتوں کو جاگ کر صبح کی پھوٹتی کرنیں اکٹھے دیکھتے ’ایک دوسرے کے لئے ہیر رانجھا ہوتے۔ سسی پنوں بن جاتے لیکن یہ خواب پورا نہ ہوسکا۔ جیسے میں نے عرض کہا کہ امتحان کی ضرورتیں ایم فل تک کتابوں سے ملاقاتیں کرواتی رہیں۔ سیلبس سے مطلب وکٹ سے باہر آ کر کتابوں کی زیارتیں ہوتی رہیں لیکن نہ ہونے کے برابر تھیں۔

پچھلے دنوں نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ اس کے مرکزی دروازے پر کتابوں کے سٹال نے روک لیا۔ اس کی ایک وجہ کتابیں تھیں تو دوسری طرف کتابوں پر 50 فیصد ڈسکاونٹ کا بڑا بورڈ تھا۔ سٹال سے کتابوں کی زیارت کے بعد کھڑے عملہ نے محبت سے اندر لگے کتابوں کے میلہ کا راستہ بتایا۔ شکریہ کے ساتھ آگے گیا تو واقعی کتابوں کی دنیا میں جا کھڑا ہوا۔ کتابیں لیں جو کہ بڑی مدت سے ڈھونڈ رہا تھا۔ پھر خیال آیا کہ پتہ تو کروں کہ آج کل نیشنل بک فاونڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کون ہیں؟

جن کی سربراہی میں نیشنل بک فاونڈیشن کا عملہ اتنا متحرک ہے۔ کاؤنٹر پر کھڑے باریش صاحب جن کی طرف سے اپنا مختصر تعارف غوری کرایا گیا‘ مینیجنگ ڈائریکٹر کا پوچھا کہ کون ہیں تو انہوں نے کہا کہ جی صاحب ابھی تو اپنے آفس میں گئے ہیں ان کا نام ڈاکٹر راجہ مظہر حمید ہے۔ اپنی گاڑی خود چلا کر آتے ہیں ’میں نے عرضی گزاری کہ ملاقات ہو سکتی ہے تو انہوں نے کہا کیوں نہیں‘ صاحب تو کتاب دوستوں سے مل کر خوش ہوتے ہیں۔ بہرحال تھوڑی دیر بعد راجہ صاحب کے سامنے تھا ’راجہ صاحب نے کتاب میلہ سے لے کر مستقبل کے کتاب کے حوالے سے اقدامات کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔

ایک موقع پر ڈاکٹر راجہ مظہر حمید پاکستان کی محبت میں جذباتی ہو کر رو پڑے؟ اس کہانی کا مکمل احوال پھر سہی۔ فی الحال نیشنل بک فاونڈیشن سے ملنے والی خوبصورت کتاب‘ پکی ماڑی ’ساندل بار‘ تاریخ لائل پور ”سے کچھ آپ کی خدمت میں پیش کرنے لگا ہوں تاکہ آپ موازنہ کرسکیں کہ پنجاب کی یہ خوبصورت دھرتی کہاں آ کھڑی ہوئی ہے؟ اور ان کو اس حال تک پہنچانے والے کون ہیں؟ بابا بدھ سنگھ ( 1878۔ 1931 ) جو کہ سکھوں کے تیسرے گرو امر داس جی کے خاندان کے جانشین تھے۔

بابا جی فرید کوٹ کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے آٹھویں تک مسجد میں فارسی میں فارسی پڑھی اور اس کے بعد مشن سکول میں داخلہ لیا۔ میٹرک کرنے کے بعد انہوں نے ایف سی کالج لاہور سے گریجویشن کی اور اس کے بعد روڈ کی انجنیئرنگ کالج میں داخلہ لیا اور انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی ’پھر بطور انجینئر ان کی تقرری لائل پور میں ہوئی۔ انہوں نے لائل پور کو خوبصورت شہر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ شاعر‘ ناول نگار اور تاریخ دان بھی تھے۔

1931 ء میں وہ لاہور میں سپریٹنڈنٹ انجینئر تھے۔ تب ایک کار حادثہ میں ان کا انتقال ہو گیا۔ بابا بدھ سنگھ ساندل بارے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سترہویں صدی کے شروع میں راوی اور چناب کے مشرقی اور مغربی کناروں کے ساتھ ساتھ بھینسوں کے چرواہے دن بھر اور جھوکوں اور ڈیروں پر رات کو چاند کی چاندنی میں مرزا صاحباں کے ڈھولے عام گائے جاتے تھے۔ یہی اس وقت کی معروف شاعری تھی جیسے دوآبے کا بانک پن ’دلیری‘ شجاعت اور مرزے کی تیز رفتاری ’وفادار گھوڑی“ بکی کو ایک شاندار علامت کے طور پر قبول کر لیا تھا۔

بابا بدھ سنگھ لکھتے ہیں کہ یہ بے ساختہ اور دلوں کو گرمانے والی شاعری تھی کہ جس کے ہر لفظ میں ٹھیٹھ پن دوآبے کے باسیوں کے مزاج کے عین مطابق تھا۔ اس لیے یہ شاعری سینہ بہ سینہ چلتی ہوئی پورے دوآبہ میں مقبول و معروف ہو گئی۔ یاد رہے کہ راوی اور چناب کے درمیان کے علاقہ کو کورچٹہ بھی کہا جاتا ہے۔ چرواہے اپنی بھینسوں کے ریوڑوں کو دن بھر راوی کنارے چراتے پھرتے۔ جب کچھ تھکان محسوس کرتے تو ڈھولے‘ ماہیے اور مرزا صاحباں گاتے۔

اس طرح وہ خود میں ایک نیا جوش ولولہ پیدا کرتے۔ ایک ڈھولہ تو بار کے ہر چرواہے کا پسندیدہ تھا۔ اچیئے لمیئے ٹالیے تیرے ہیٹھ مٹ شراب دا۔ آؤندیا جاندیاراہیا بھر جا گھٹ شراب دا۔ میں نی بھرنا گھٹ شراب دا۔ میرا ماہیا واجاں ماردا ’یہ شاعری کسی چرواہے کی ہے۔ اس میں ایک خاص پیغام بھی ہے۔ اور اس کا مقصد دل کو گرمانا اور جوش ولولہ ہی ہے۔ بابا جی بدھ سنگھ لکھتے ہیں کہ دوآبے کی بے ساختہ زبان کی شاعری ایک ”پیلو“ نامی شاعر کی ہے جو ساندل بار کا مکین تھا۔

پیلو شاید ایک شاعر تھا جو بے سروسامان تھا۔ اس کے مال مویشی نہ تھے۔ اس لئے وہ ایک گویا شاعر تھا جو کہ راوی چناب کے کناروں کے ساتھ سرکنڈے کی جھونپڑیوں میں مقیم قبائل کو ان کی زبان میں گیت اور رزمیہ داستانیں سناتا تھا اور ان کے بدلے اس قبائل سے کچھ نہ کچھ لائق ضرور مل جاتا تھا۔ مرزا صاحباں کی داستان عشق ان دنوں زبان زدعام تھی کیوں کہ اس داستان کے کردار ساندل بار کے تھے۔ پیلو کون تھا؟ کہاں کا رہنے والا تھا محقق اس کے بارے میں قیاس مرتے ہیں کہ وہ حافظ آباد کے کسی گاؤں کا تھا لیکن ادھر بابا پھندو (فرزند) پیدائش 1889 ء چک نمبر 39 گ ب ستیانہ بنگلہ کا کہنا ہے کہ پیلو شاعر جس نے مرزا صاحباں کا قصپ بنایا وہ جڑانوالہ کے قریب سید والا کی ایک واں کا تھا۔ وہ واں دریا راوی کے مغربی کنارے پر تھی۔ اس کے قریب ہی مرزے کا گاؤں دانا آباد تھا۔ اب بھی مرزے کی قبر بار کی قدیم ترین کی قبر ہے جو وہاں موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments