ہار اور جیت ایک ہی سکے کے دو رخ


ہار اور جیت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ہی سکے کے دو مختلف رخ ہیں۔ جیتنے والا خوشیاں مناتا ہے جبکہ ہارنے والا ماتم کرتا ہے ’کف افسوس ملتا ہے۔ جس طرح زندگی میں خوشی اور غم ایک ساتھ چلتے ہیں بالکل اسی طرح ہار اور جیت کا تعلق بھی کافی گہرا ہے۔

اس دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جو خواب دیکھتے ہیں اور ان کو پانے کے لئے سرگرداں رہتے ہیں۔ ان خوابوں کی تکمیل کے لئے اپنی راہ میں آنے والے ہر طوفان سے لڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کامیابی تھالی میں آسانی سے حاصل نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے لئے دن رات اور ماہ و سال کی ریاضت اور تگ و دو درکار ہوتی ہے پھر کہیں جا کر مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے ہیں اور اکثر و بیشتر ساری زندگی گزار کر بھی وہ مقام حاصل نہیں ہوتا جس کے وہ متمنی ہوتے ہیں یا جس کا خواب انھوں نے دیکھا ہوتا ہے۔

پھر آتے ہیں وہ لوگ جو خواب تو دیکھتے ہیں لیکن ان کو پانے کے لئے تگ و دو نہیں کرتے بس چاہتے ہیں کہ محنت کیے بغیر اور ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر ان کو رات و رات عروج حاصل ہو جائے اور ایسا عروج جس کو زوال نہ ہو۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے کیونکہ قدرت نے اس کائنات کو چلانے کے لئے نظم و ضبط اور اصول و ضوابط ترتیب دیے ہیں جیسا کہ سورج ’چاند‘ ستارے حتٰی کہ زمین اپنے اپنے مدار میں گھومتے ہیں اور ایک دوسرے سے ٹکراتے نہیں ہیں اور نہ ہی اپنے مقررہ وقت سے پہلے آتے ہیں بالکل اسی طرح قدرت نے اصول و ضوابط ہمارے لئے بھی ترتیب دیے ہیں جس کے تحت انسان محنت کرے گا تو اس کو اس کا پھل ملے گا اور کسی بھی انسان کی محنت ضائع نہیں جاتی اس کو اس کی محنت کا صلہ اور پھل اس کے مقررہ وقت پر ضرور ملتا ہے۔

دراصل سارا فرق ہماری سوچ کا ہوتا ہے۔ ہماری سوچ ہی ہمارے رویے کی ضامن ہے اور یہی سوچ ہمارے عمل کو بناتی ہے۔ اگر سوچ مثبت ہے تو ہم اپنی ہار کو بھی مثبت انداز سے لیں گے اور اس میں سے بھی اپنے سیکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ نکال کر اپنے سفر کو جاری رکھیں گے کیونکہ ایک مثبت سوچ رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ کیسے اور کس سمت میں اس نے اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور درپیش مسائل کو کیسے اپنے حق میں بدلنا ہے۔

کامیابی یا جیت حاصل کرنے کا مرحلہ رات و رات طے نہیں ہو جاتا اس کے پیچھے کئی سالوں اور دہائیوں کی محنت شامل ہوتی ہے۔ اگر کسی مشہور مصنف کی مثال لیں تو وہ اس مقام تک کئی سالوں کی محنت کے بعد پہنچتا ہے۔ اسی طرح کھلاڑی ہے وہ بھی سالہا سال کی مشقت کے بعد اس مقام تک پہنچتا ہے جہاں وہ اس ملک اور قوم کے لئے سرمایہ بن جاتا ہے اور لوگ اس سے اس کی کارکردگی کی بدولت امیدیں باندھ لیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جو بھی کھیل کے میدان میں مقابلے کی غرض سے اترتا ہے وہ جیتنے کے عزم کے ساتھ آتا ہے اور اس جیتنے کے خواب کے پیچھے اس کی انتھک محنت کار فرماں ہوتی ہے اور یہ جیتنے کی امنگ ہی ہے جو محنت کرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔

جب خواب بڑے ہوتے ہیں تو حوصلے بھی بلند رکھنے چاہیے اور آنے والے مسائل کا کھلے دل سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ کہتے ہیں نہ کہ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں۔ لہذا خود کو ہر طرح کے چیلنجز کے لئے تیار رکھنا چاہیے اور ان سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی اور پلان بی بھی تیار رکھنا چاہیے۔

ہمیں خود پر اور اپنی سوچ پر کام کرنا چاہیے تاکہ ہم مشکل سے مشکل حالات میں اپنے حواس پر قابو رکھ سکیں اور مناسب حکمت عملی استعمال کر کے ان مسائل کا مقابلہ کر سکیں۔ اس دنیا میں ایسا کوئی شخص نہیں جس کو مسائل کا سامنا نہ ہو یا اس نے کبھی ناکامی نہ دیکھی ہو بس سب کے مسائل کی ’مشکلات کی نوعیت مختلف ہوتی ہے اور ان مسائل سے نمٹنے کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے جو ان کی سوچ پر منحصر ہوتا ہے۔ کامیاب وہی ہوتا ہے جو جو خود کو بدلتا ہے‘ اپنی سوچ اور رویے کو بدلتا ہے۔

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ :
تم خود کو بدلتے ہو
بدلنے والا تمھاری تقدیر بدل دیتا ہے

امریکہ کے سابق صدر ابراہم لنکن کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کو کتنی مشکلات کا سامنا رہا اس کے باوجود انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں ان کی زندگی مشکلات اور ناکامیوں سے بھری ہوئی ہے لیکن وہ کامیاب ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے اندر سے ناکامی کے خوف کو نوچ کر نکال دیا اور اپنی ترجیحات پر کام کیا۔ انہوں نے اپنی مثبت سوچ کی بدولت اپنی ناکامیوں سے سیکھا اور اسی مثبت سوچ کی بدولت خود کو تاریخ کے اوراق میں امر کر گئے۔

زندگی کو دیکھنے کا زاویہ بدل لیں ’مشکلات اور مسائل سے گھبرانے اور ناکامی کے ڈر سے خواب دیکھنا ترک نہ کریں بلکہ خوش دلی سے ان کا سامنا کریں‘ خود کو ہر طرح کے مسائل اور ہار کے لئے تیار کریں۔ اگر جیت نصیب ہوتی ہے تو رب کا شکر ادا کریں اور اگلے پڑاؤ کی تیاری کریں۔ مغرور بننے کی بجائے شکرگزاری اپنائیں اس کے برعکس اگر ہار یا ناکامی کا سامنا ہو تو مایوسی کا شکار نہ ہوں اور شکر ادا کریں کہ اس ذات نے سیکھنے کا موقع عطا کیا ہے۔

اپنی غلطیوں کو سدھارتے اور سیکھتے ہوئے آگے بڑھ جائیں اور ان غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرائیں۔ یہی بات اپنے بچوں کو شروع دن سے سکھائیں کہ وہ اپنے ساتھیوں کی جیت پر خوش ہوں اور تالیاں بجائیں کیونکہ جب ہم دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں تو وہ بھی ہماری خوشیوں میں ہمارے ساتھ خوش ہوتے ہیں۔ مقابلے میں کسی ایک نے جیتنا ہوتا ہے اور جیت ہار زندگی کا حصہ ہے۔ اسے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ اگر اس طرز پر ہم نوجوان نسل کی تربیت کریں گے تو ہوہی نہیں سکتا کہ وہ کبھی ٹوٹ کر بکھریں یا ناکامی کے ڈر سے خواب دیکھنا چھوڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments