افغانستان کا بحران اور عالمی ڈپلومیسی کی جنگ


افغانستان اس وقت اپنے داخلی مالی بحران اور عالمی امداد کے حصول میں ناکامی کی صورت میں ایک نئے بڑے انتشار کا منظر نامہ پیش کر رہا ہے۔ مسئلہ سیکورٹی سے زیادہ فوری طور پر خوراک کے بحران کا ہے جو ایک بڑے انسانی المیہ کو بھی جنم دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق افغانستان میں خوراک اور روزمرہ کی اشیا ختم ہونے کو ہیں اور فوری طور پر ان کی فراہمی کے امکانات بھی محدود ہیں۔ اس بحران کا نتیجہ معصوم بچوں کی ہلاکت کی صورت میں بھی سامنے آیا ہے۔

اگرچہ عالمی برادری نے انسانی بنیادوں پر خوراک کی فوری فراہمی کی بنیاد پر کچھ اقدامات کرنے کا فیصلہ بھی کیا، مگر افغان حکومت کے مالیاتی اکاؤنٹس کے منجمد ہونے کے سبب ان عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو بھی کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی حوالے سے دو اہم رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں۔ اول عالمی کمیٹی برائے ریڈ کراس) آئی سی آر سی (اور دوئم اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ جو بنیادی طور پر افغانستان میں جنم لینے والے المیہ اور مالیاتی بحران سمیت عالمی دنیا کی توجہ دلاتی ہے۔ ان کے بقول اگر عالمی سطح پر موجود بڑی طاقتوں بشمول امریکہ نے ہنگامی بنیادوں پر اپنا موثر اور عملی کردار ادا نہ کیا تو اس کا نتیجہ محض افغانستان ہی نہیں بلکہ اس کا براہ راست اثر پاکستان اور خطہ کی سیاست سمیت عالمی دنیا پر بھی منفی بنیادوں پر پڑے گا۔

ماضی میں جو ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت تھی تو اس کا مکمل طور پر مالیاتی بوجھ امریکہ اور اس کی اتحادی جماعتوں نے سنبھال رکھا تھا۔ افغانستان کی معیشت کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ امریکہ کا تھا جو تقریباً چھ ارب ڈالر سالانہ بنتا تھا۔ اسی طرح انفراسٹرکچر کی ترقی اور ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی امریکہ کی طرف سے کی جا رہی تھی۔ لیکن اب امریکہ اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے افغانستان میں طالبان حکومت کی مالی حمایت بہت کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے۔

اسی طرح افغانستان کے دس ارب ڈالر بھی امریکی بینکوں میں منجمد ہیں۔ اس پر بھی امریکہ کی جانب سے کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ اس وقت بڑا مسئلہ خوراک، ادویات اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کا ہے جس پر افغان حکومت کو ہر سطح پر مشکلات کا سامنا ہے۔ افغان حکومت تسلسل کے ساتھ دنیا کی بڑی طاقتوں اور عالمی امداد سے جڑے اداروں سے مسلسل بنیادوں پر امداد طلب کر رہی ہے مگر کوئی مثبت اشارے نہیں مل رہے۔ یہ صورتحال اگر جاری رہتی ہے تو پھر افغانستان میں بڑا قحط بھی سامنے آ سکتا ہے۔

افغانستان کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج ان کی حکومت کا عالمی سطح پر سیاسی قبولیت کا ہے۔ کیونکہ جب تک دنیا میں بڑی طاقتیں افغانستان کی حکومت کو قبول کرنے کا واضح اعلان نہیں کریں گی کوئی بڑی مثبت تبدیلی کا امکان کم ہو گا۔ افغان طالبان حکومت کے سامنے کچھ عالمی شرائط بھی ہیں جو ان کی قبولیت میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ ان معاملات میں عورتوں کی تعلیم، انسانی حقوق کی صورتحال، طاقت کا استعمال یا تشدد کی پالیسی، عورتوں کی ملازمتوں تک رسائی سمیت تمام فریقین پر مشتمل نمائندہ حکومت شامل ہیں۔

چین، روس، ایران سمیت پاکستان اور دیگر ریاستیں بھی طالبان حکومت کی قبولیت کے معاملے میں نمائندہ حکومت کی شرط پر قائم ہیں۔ اسی بنیاد پر پاکستان نے بھی ابھی تک طالبان حکومت کی قبولیت نہیں کی اور خود کو عالمی دنیا کے ساتھ کھڑا کیا ہوا ہے۔ البتہ پاکستان افغان حکومت سمیت وزارتی اور محکمہ جاتی سطح پر رابطوں میں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ہماری عسکری قیادت مسلسل اپنی سفارتی یا ڈپلومیسی کی جنگ میں دنیا کو یہ ہی باور کروانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس موقع پر افغان حکومت کو تنہا چھوڑنا اور ان کی مدد نہ کرنا عملی طور پر افغانستان کو داعش کے حوالے کرنا ہے۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری بھی عالمی بڑی طاقتوں پر ہی عائد ہوگی۔ اسی طرح پاکستان افغان طالبان کو بھی یہ ہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اگر اس نے تمام فریقین پر مشتمل نمائندہ حکومت کی شرط پوری نہ کی تو ان کے لیے عالمی حمایت کے امکانات بھی کم ہوجائیں گے اور اس کی ذمہ داری بھی طالبان پر ہی عائد ہوگی۔

افغان طالبان کے لیے دوسری بڑی مشکل داعش کی افغانستان میں پھیلتی ہوئی پرتشدد سرگرمیاں ہیں۔ کیونکہ جو بھی وہاں دہشت گردی پر مبنی سرگرمیاں ہو رہی ہیں ان کی براہ راست ذمہ داری داعش نے لی ہیں۔ داعش کی حکمت عملی خود کش حملے بھی سرفہرست ہیں۔ اگرچہ پوری دنیا داعش کے خلاف ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ افغان طالبان کی حکومت کے بعد کیسے داعش نے خود کو منظم کیا اور وہ کس کے ایجنڈے پر ہیں اور کون ان کی سیاسی، انتظامی اور مالی معاونت کر رہے ہیں۔

یہ بھی خبریں سامنے آئی ہیں کہ سابق افغان فوج کے بیشتر کمانڈر اور فوجی عملہ داعش کا حصہ بن کر افغانستان کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ افغان آرمی کی تشکیل اور ان کی صلاحیتوں کو موثر بنانے کے لیے امریکہ نے کم ازکم 30 بلین ڈالر خرچ کیے مگر ضرورت پڑنے پر یہ ہی فوج امریکہ کے لیے سیاسی پسائی کا سبب بھی بنی۔ امریکہ داعش کے خلاف ہے مگر اس تنظیم کے خلاف متحدہ محاذ یا عالمی اتحاد میں نہ تو کوئی بڑا کردار ادا کیا اور نہ ہی اب داعش کے خاتمہ میں افغان طالبان حکومت کی کھل کر ہر محاذ پر حمایت کی جا رہی ہے جو خود پاکستان کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔

پچھلے کچھ ماہ میں افغانستان کی بہتری کے تناظر میں دو اہم کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ اول بھارت میں دس نومبر کو ”دہلی علاقائی سیکورٹی مکالمہ برائے افغانستان“ کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں بھارت کے علاوہ روس، ایران، کاغذستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان سمیت، ازبکستان شامل تھے۔ چین اور پاکستان نے اس ڈائیلاگ میں شرکت سے گریز کیا۔ چین نے انتظامی بنیادوں پر جبکہ پاکستان نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا کہ بھارت کے افغانستان میں منفی کردار اور پاکستان مخالف ایجنڈے کی بنیاد پر ہم اس میں شرکت نہیں کریں گے۔

ہمیں خدشہ تھا کہ ہماری شمولیت سے اس کانفرنس کی سیاسی ساکھ قائم ہوگی جو ہمیں قبول نہیں۔ چین اور پاکستان کی عدم شمولیت سے یقینی طور پر بھارت میں ہونے والی کانفرنس کی اہمیت کم ہوئی۔ دوئم اس کے برعکس دوسری بڑی کانفرنس اسی افغانستان صورتحال پر ٹرائیکا پلس اجلاس پاکستان سمیت چین، روس، امریکہ، ایران کی شمولیت اہم تھی۔ اس مکالمہ کا ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا جس میں افغانستان کی سنگین انسانی اور معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ طالبان حکومت کے وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان اور پاکستانی قیادت سے باہمی بات چیت کا عمل جامع حکومت کے اقدامات کو بروئے کار لانے پر تھا۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ جو لوگ بھی افغانستان اور خطہ کی سیاست کو استحکام میں لانا چاہتے ہیں تو ان کو ایک محاذ پر اکٹھا ہونا ہو گا۔ کیونکہ افغان بحران سیاسی تنہائی میں حل نہیں ہو گا اس میں سب فریقین کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ بالخصوص بھارت جو اس وقت افغان پسپائی پر کافی پریشان ہے اور موجودہ صورتحال میں وہ افغان تناظر میں نئے کردار کی تلاش میں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس نئے کردار میں ان کے سامنے طالبان اور پاکستان مخالف ایجنڈا سرفہرست ہے۔

بھارت کے مثبت کردار میں خود امریکہ بھی رکاوٹ ہے جو بغیر کسی دباؤ کے بھارتی ایجنڈے پر مزاحمت کی بجائے ان کی حمایت میں کھڑا نظر آتا ہے۔ جبکہ امریکہ کی افغانستان سمیت پاک بھارت تعلقات پر دوہری پالیسی بھی مسائل کا سبب بنتی ہے۔ اس وقت افغانستان کو اگر عالمی طاقتوں نے بچانا ہے تو اس کے لیے حالیہ افغان غیر معمولی صورتحال میں عملاً غیر معمولی اقدامات درکار ہیں۔ یہ غیر معمولی اقدامات اسی صورت میں ممکن ہوں گے جب ہم افغان بحران کا حل روایتی یا فرسودہ یا پرانے طرز کے خیالات کی بجائے نئی سوچ اور فکر سمیت معاملات کو Out of Box جاکر دیکھنا اور نمٹ کی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔

سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر دنیا کو باور کروانا ہو گا کہ آج کا افغانستان اور طالبان ماضی کے ادوار سے مختلف ہے۔ اسی طرح جو عالمی توقعات طالبان کی حکومت سے قائم ہیں اس پر مشترکہ حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنا، مشترکہ باہمی تعاون کے امکانات کو موثر بنانا، تنازعات یا تضادات کو ختم کر کے اعتماد سازی کے ماحول کو قائم کرنا اور بہتر، مستحکم اور پرامن افغانستان کے لیے افغان حکومت کا فوری ساتھ دینا شامل ہو گا۔ یہ ہی عمل پرامن اور مستحکم افغانستان کو ممکن بنا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments