کچھ آنکھوں پر بوجھ کے بارے میں


وہ کسی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھی اور جتنی مہنگی اور ٹرینڈی چیزوں کا آپ سوچ سکتے ہیں، ان میں سے بہت کچھ وہاں موجود تھا۔ لیکن آنکھوں کو بھلا محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ دل بیزار تھا۔ سب قیمتی چیزیں وہ تاثر پیدا کرنے میں ناکام ہو رہی تھیں جو ہو سکتا تھا۔ الجھن سلجھ نہ پا رہی تھی کہ نظر پھر پورے کمرے کا طواف کرنے لگی۔ اور یک دم معاملہ حل ہو گیا۔ کمرے میں رنگوں کی بھر مار تھی۔ بے ترتیبی بھی تھی اور اشیا کی کثرت بھی۔ اور ڈانگ ہوئے شاید عرصہ ہو گیا تھا۔ ہر چیز غیر متوازن تھی۔ مکمل آؤٹ آف سکیل۔ گھر کے آرام دہ احساس کی بجائے، یوں محسوس ہوتا تھا کہ مختلف برانڈز کا ڈسپلے سنٹر ہو۔ بہرحال جن سے ملنا تھا، وہ ان سے ملاقات کر کے واپس آ گئی۔ لیکن ذہن بوجھل ہی رہا۔

اگلے دن اسے بازار جانا پڑا۔ تو بھی کوئی چیز مطمئن نہیں کر پائی۔ دکانیں ویسی ہی کھچا کھچ بھری ہوئیں، بے ہنگم شور، کھوے سے کھوا چھیلتے لوگ، بے تحاشا روشنیاں۔ غرض نظر جہاں اٹھے، تھک کے لوٹے۔ واپسی کی ڈرائیو بھی بڑی بھاری تھی۔ اور وہ خود سے بیزار تھی کہ وہ دن بدن مارکیٹ جانے، گھر سے باہر نکلنے سے کیوں گھبرانے لگی ہے۔

لڑھکتے، لٹکتے جناتی بل بورڈز، ابلتے کوڑا دان، جھولتی، الجھتی بجلی، فون کی تاریں، بے ترتیب، بے ڈھنگی ٹرانسفارمرز اور کھمبے، مکانوں کی چھتوں پر نیلی، پیلی پانی کی ٹنکیاں، اخلاق باختہ، جگہ جگہ دیواروں پر لکھے پیغامات، بدنما، ڈھلتی عمر کی عمارتیں اور حال کی بے حسی پر ملامت کرتے ماضی کے دلنشیں تعمیراتی نمونے۔

یہ ہیں ہمارے گھروں اور شہروں کے بننے والے پہلے تاثرات۔ جو تھکے جسموں کو مزید تھکاتے ہیں۔ بے خواب آنکھوں کو پراگندہ کرتے ہیں۔ ذہنی الجھنوں کو مہمیز کرتے ہیں۔ ترتیب خود ایک حسن ہے، اس سبق کی نفی کرتے ہیں۔ صفائی نصف ایمان ہے، اس تعلیم کا منہ چڑاتے ہیں۔ پریشان دلوں کو اور تلخ کرتے ہیں۔

بحیثیت رہائشی اور شہری یہ جان لیں کہ گھر ہوں یا شہر، مکینوں کے ذوق اور نفاست کا آئینہ ہوتے ہیں۔ ان کے عقیدوں کا عکس ہوتے ہیں۔ ان کا ظاہری ماحول، رہنے والوں کی ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ غربت ہمارے گندے شہروں، گلی محلوں اور گھروں کے لئے بہانہ نہیں۔ سلیقہ روپے کا محتاج نہیں۔

خدارا! ابھی سے فکر کیجئے اور توازن، ثقافت، تمدن، تہذیب، خوبصورتی اپنے ماحول میں متعارف کروائیں۔ ورنہ یقین مانیں جس طرح ابھی ہوا کی آلودگی کے کارن ہم سموگ میں اپنی سانسوں کی تنگی اور بینائی کی سوزش کا شکار ہیں۔ پانی کی آلودگی کے باعث پیٹ کی تکلیفوں میں مبتلا ہیں۔ شور کی آلودگی کی وجہ سے کانوں کے آزار کو سمیٹ رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح مستقبل قریب میں کوئی صاف ستھرا، پرسکون، طراوت بخشتا کونہ ڈھونڈیں گے لیکن بد قسمتی سے ہر طرف چنگھاڑتی روشنیاں، اڑتے پھرتے پولیتھین کے شاپر، تاروں کے جنگل، بدصورت اسٹرکچرز، نیلی ٹنکیاں، پیلے ڈرم اور ایسی بہت سی انسانی بے آہنگ چیزیں، آپ کی تلاش پر پانی پھیر دیں گی اور آپ کی ترقی کی بے سوچی سمجھی دوڑ پر ہنسیں گے۔

خالق پاک ہے، پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔ حسین ہے، حسن کو پسند کرتا ہے۔ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments