مذہب، معاشرہ اور سیاست


مذہب کا جب بھی تذکرہ ہو گا تو تخلیق انسان سے ہی اس کے آثار ملیں گے۔ جب سے انسان وجود میں آیا تب سے ہی مختلف عقائد چل نکلے جو کہ ابھی باقی ہیں اور آئندہ بھی باقی رہنے والے ہیں۔ ہر دور کے انسان نے مختلف عقائد کی بنیاد پر اعمال انجام دیے اور طرز زندگی اختیار کیا۔ انھیں عقائد کی بنیاد پر ہی مذاہب وجود میں میں آئے۔ یہ بھی حتمی بات ہے کہ ہر دور میں معاشرے نے انسانی عقائد پر اثر پیدا کیا اور بعض اوقات وہ اثر اتنا شدید ثابت ہوا کہ اس اثر کو دھونس قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اور اسی اثر کے نتیجے میں مذہب کے اندر مذہبی اثرات کم اور معاشرتی اثرات زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔

اب جب ہم جب اکیسویں صدی میں زندگی گزار رہے ہیں تو اس وقت مذہب کا کیا کردار ہے؟ مذہب کس طرح زندگیوں پر اثر انداز ہو رہا ہے؟ تو جواب یہ ہی ہو گا کہ مذہب کا کردار اور اثر معاشرے میں نایاب ہے۔ اگر نایاب ہے تو مذہب کی رٹ لگا کر حساسیت کیوں پیدا کی جاتی ہے؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ پر موجود ہے مگر اس کا جواب سننے سے ہچکچاہٹ بھی رہتی ہے آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر ہم ان سارے سوالوں پر تبصرہ کریں تو آپ بھی خود ساختہ مذہب کی نذر ہو جائیں گے اور بلا توقف آپ کو جنت کے لالچ میں جہنم واصل کر دیا جائے گا۔ جو کہ المیہ بن چکا ہے۔

چونکہ میں ایک مسلمان ہوں تو اس حیثیت سے میں مثال بھی مذہب اسلام کی دوں گا۔ پہلی بات کہ جو میرا ٰعقیدہ ہے وہ یہ کے کوئی بھی روحانی مذہب برا نہیں ہوتا۔ کیونکہ کوئی مذہب بھی انسان دشمنی کی ترغیب نہیں دیتا۔ یا اگر کسی گروہ نے انسان دشمنی کی ٹھان رکھی ہو تو الگ ماجرا ہے۔ خیر ہم بات کر رہے تھے اکیسویں صدی اور مذہب کے کردار پر تو ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ پچانوے ( 95 ) فیصد لوگوں کو مذہب وراثت میں ملتا ہے ان کو خود پرکھنے کی مہلت نہیں دی جاتی۔

مذہب نسل در نسل منتقل ہوتا ہے، ایسے واقعات نایاب ہیں جب مذہب کا چناؤ اختیار سے کیا گیا ہو۔ یہ پہلا معاشرتی اثر ہے جو مذہب کے حوالے سے انسان پر پیدائش کے بعد پڑتا ہے۔ خیر اب ہم معاشرے کے اثر کی بات کریں تو اکیسویں صدی کا معاشرہ مذہب اسلام پر اتنا اثر انداز ہوا کہ مذہب اسلام کی مذہبی تعریف سامنے نہ آ سکی۔ اسلام پر معاشرے نے اس قدر اثر کیا کہ ہر علاقے کی جس طرح ثقافت تبدیل ہو جاتی ہے بالکل ویسے اسلام کی تعریف تبدیل ہو جاتی ہے حد یہ ہے کہ ایک ہی معاشرے کے اندر مختلف گروہ بن گئے اور ہر گروہ نے اپنی تعریف قائم کی اور مذہب میں مذہب کی روح کم اور معاشرتی روح زیادہ نظر آنے لگی۔

آپ ایک سروے کیجئے، پہلے ایسے علاقے میں جائیے جہاں پڑھا لکھا طبقہ زیادہ ملتا ہوں۔ وہاں اسلام کی آئیڈیالوجی یوں بیان کی جائے گی کہ بھائی اعمال تو اپنے اپنے قبول ہوتے ہیں لہٰذا اپنی فکر کرو۔ بس خالق اور مخلوق کے حقوق پورے کرتے رہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ ترغیب دیتے بھی نظر آئیں گے کے اسلام تو غور و فکر کر کے ترقی کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اب آپ ایسے علاقے میں جائیں جہاں مزدور طبقہ زیادہ رہتا ہے۔ وہاں اسلام کی آئیڈیالوجی نماز روزہ ادا کر کے اپنے بال بچوں کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کرنے تک محدود ہو گی۔

آپ ایسے علاقے میں جائیں جہاں مدارس کثرت سے پائے جاتے ہوں تو وہاں آپ محسوس کریں گے کہ دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگا کر خود کو مومن ثابت کرنا نہ صرف درست ہے بلکہ حق و باطل کو الگ کرنے کے مترادف قرار دیں گے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ گلگت میں ایک ایسا مکتب پایا جاتا ہے جو شیعوں کے درمیان ہوں تو شیعہ طریقہ سے اعمال انجام دیتے ہیں اور سنی کے درمیان موجود ہوں تو سنی طریقہ کار سے۔ اور اس گروہ کو نور بخشی کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار معتدل تو ہے مگر یہ بھی معاشرتی اثر کا نتیجہ ہے۔

اب اس صورت حال میں جب مختلف قسم کے گروہ وجود رکھتے ہیں اور ان کے مطابق اسلام کی تعریف الگ تھلگ ہے تو اس کے ذمہ داران کون ہیں؟ وہ کون سے محرکات ہیں جن کے باعث مختلف قسم کی آئیڈیالوجیز وجود میں آئیں اور ایک پر یکجا نہ ہو سکے۔ اس کی بنیادی وجہ میرے نزدیک فقط سیاست ہے۔ جزوی طور پر بے شمار وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں مگر کلی طور پر ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے سیاست۔ ہمیشہ سیاست میں فتح یابی کے لیے گروہ تشکیل دیے گئے۔

وہ سیاست کبھی قومی سیاست ہوتی ہے اور کبھی بین الاقوامی سیاست۔ اس سیاست میں فتح یابی کے لیے کبھی طالبان وجود میں آئے کبھی القاٰٰعدہ، کبھی داعش کبھی سپاہ صحابہ، کبھی لشکر جھنگوی، کبھی سپاہ محمد وغیرہ وغیرہ۔ پہلے ان جیسے گروہ کو اسلام کے نام پر طاقت ملتی ہے پھر ان کی دینی آئیڈیالوجی ہی اسلامی آئیڈیالوجی قرار پاتی ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے کبھی مندر توڑ دیا جاتا ہے کبھی مشال خان کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ نا بالغ بچے کو توہین کے الزام میں جہنم واصل کر دیا جاتا ہے۔ یہ سب کیسے ممکن ہے فقط سیاسی عزائم کو بدلنے سے۔ ورنہ ہم کو کیا غرض گلاب ٹوٹے یا کانٹا۔ ہم بے بس لوگ دنیا میں آ گئے اور چلے جائیں گے جس کا انکار بھی کوئی مذہب نہیں کرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments