ماجرا عاصمہ جہانگیر کانفرنس کا


یا تو جنرل کو نیچے آنا پڑے گا۔ یا عوام کو اوپر آنا ہو گا۔ بس بہت ہو گیا۔ اب مزید برداشت نہیں کریں گے۔ اپنا حق حاصل کرنے کے لئے سب کو نکلنا ہو گا۔

لاہور کے آواری ہوٹل میں منعقد ہوئی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں اس مرتبہ دل جلوں نے خوب رنگ جمایا۔ دل کے پھپھولے پھولے گئے۔ قانون دان علی احمد کرد کی جذباتی تقریر کے دوران آزادی کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے۔ چند مقررین نے ایک ادارے کے بڑوں کو جی بھر کر کوسا۔

اس اجتماع کو ریاست سے ناراض عناصر کا اکٹھ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ کانفرنس اس حوالے سے بھی یادگار رہے گی۔ کہ اس میں علی احمد کرد کی غزل اور چیف جسٹس آف پاکستان کی جواب آں غزل نے لوگوں کو بہت محفوظ کیا۔ جسٹس گلزار کو پہلی مرتبہ اتنے غصے میں دیکھا گیا۔ وہ علی احمد کرد کی عدلیہ پر تنقید برداشت نہ کرسکے۔ اور روسٹرم پر ہاتھ مار مار کر اپنے ادارے کی آزادی اور خود مختاری کی گواہی دینے لگے۔ ان کی تقریر کو سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر بیٹھے ہوئے ذہن سازوں اور دکان داروں نے اچک لیا۔ اور موقع غنیمت جانتے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی کے سپریم کورٹ میں زیر التوا کیس، قاسم سوری کیس اور بعض دوسرے معاملات پر ٹرینڈز چلائے اور ویلاگز کیے۔ اور خوب دیہاڑیاں بھی لگائیں۔ اور جناب چیف جسٹس کو آئینہ بھی دکھا دیا۔

اس کانفرنس کی خاص بات لندن میں عرصہ دراز سے مقیم نون لیگ کے صحت مند قائد نواز شریف کی تقریر تھی۔ جس کی وجہ سے وزیر اطلاعات نے کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا۔ انہوں نے ایونٹ کو بھارت سے سپانسرڈ قرار دے ڈالا۔ یہ علیحدہ بات ہے اگر نواز شریف کی تقریر ایجنڈے میں شامل نہ کی جاتی۔ تب فواد چوہدری بڑی خوشی سے تقریب میں شرکت کرتے۔ اور اپنا جوش خطابت بھی دکھاتے۔

نواز شریف کی تقریر کے دوران انٹرنیٹ سروس کی بندش کی وجہ سے تھوڑا بہت خلل ضرور پڑا۔ مگر منتظمین کی کوششوں سے وہ اپنی تقریر مکمل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کی تقریر شاید کمپنی کی مشہوری اور ریٹنگ کے حصول کے لئے بھی ایجنڈے میں شامل کی گئی تھی۔

پاکستان میں جنرلز پر تنقید ایک فیشن کا روپ دھار چکی ہے۔ جو بھی ایسا کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو انقلابی سمجھنے لگتا ہے۔ مگر ایک ڈسپلنڈ ادارہ ہونے کے ناتے فوج کی طرف سے اس طرح کی باغیانہ تقاریر کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ اور نہ ہی کسی قسم کی وضاحت کا تکلف کیا جاتا ہے۔ جس طرح نقار خانے میں طوطی کی آواز کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اسی طرح ادارے کی طرف سے اکا دکا باغیانہ تقاریر کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔

ماضی میں جب جنرل آصف غفور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات تھے۔ تب وہ ادارے کے خلاف ہونے والی تقاریر کا جواب دے دیتے تھے۔ لیکن موجودہ ڈی جی صاحب اس حوالے سے چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کرتے۔ ایک پروفیشنل فوجی کی طرح اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔

کسی کانفرنس یا تقریب میں نظام کے خلاف تقاریر ہوں۔ یا نواز شریف اور مریم نواز کی شعلہ بیانیاں ہوں، یا پی ڈی ایم کے قائدین کی آنیاں جانیاں۔ پاکستان کے پسے، کچلے، روتے، بسورتے اور چلاتے ہوئے لوگوں کی حالت زار میں رتی برابر بھی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ان کی معاشی اور معاشرتی زندگی میں کوئی انقلاب برپا نہیں ہو گا۔ کیوں کہ ہم نے ایسے لیڈر پیدا کرنا بند کر دیے ہیں۔ جن کے ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتے تھے۔ جو لوگوں کے لئے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا کرتے تھے۔ جو عام آدمی کے لئے پھانسی پر جھول جاتے تھے۔ جنہوں نے اپنا عیش و آرام ترک کر کے غریب عوام کے لئے موت کو گلے لگا لیا۔ موری والے کپڑے پہن کر انسان لیڈر نہیں بن جاتا۔ اور مکے مار کر مائیک گرانے والا نقال تو بن سکتا ہے۔ مگر بھٹو کبھی نہیں بن سکتا۔

بدقسمتی سے وہ کارکن بھی ناپید ہوچکے۔ جو کوڑے کھاتے رہے۔ اور جنہوں نے اپنے لیڈر کی محبت میں خود سوزی کرلی۔ موجودہ دور میں جیسے لیڈر ہیں۔ ویسے ہی کارکن پائے جاتے ہیں۔

اب احتجاج، تحریکیں، لانگ، شارٹ اور ملین مارچ غیبی اشاروں پر کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست مکمل طور پر Engineered ہو چکی ہے۔ سیاست دان ڈیل اور ڈھیل کے چکروں میں گھن چکر بن چکے ہیں۔ اب سیاسی میدان میں وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کا رواج فروغ پا چکا ہے۔ کبھی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اور کبھی مفاہمت کی باتیں کی جاتی ہیں۔ ستم ظریفی کی بات مگر یہ ہے۔ کہ مزاحمت کا راستہ بھی پردے کے پیچھے سے آئے اشاروں کا مرہون منت ہوتا ہے۔ پاکستان کی نکمی اپوزیشن تحریک انصاف کی تاریخ کی کمزور ترین حکومت کے خلاف نہ تحریک چلا سکی۔ اور نہ ہی وزیراعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے میں کامیاب ہو سکی۔

درحقیقت پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کی نظر التفات کی منتظر رہتی ہیں۔ وہ وقت لد چکا جب تحریکیں اپنے زور بازو اور عوام کی مدد سے چلائی جاتی تھیں۔ جب خوشی کے ساتھ کوڑے کھائے جاتے تھے۔ جب جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہونا قابل فخر سمجھا جاتا تھا۔ جب بیگم نصرت بھٹو کی طرح سر پر لاٹھیاں کھائی جاتی تھیں۔ آج کل سیاست میں ایسے لاڈلے پائے جاتے ہیں۔ جو گرفتاری دینے کے بجائے دیواریں پھلانگ کر فرار ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جیل کی سلاخوں کو صرف کوئی مرد مجاہد ہی چوم سکتا ہے۔

آج سے چند مہینے پہلے تک لوگ صرف موجودہ حکومت اور عمران خان سے شاکی تھے۔ اب وہ اپوزیشن کی کارکردگی سے بھی مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو آنے والے الیکشن میں وہ کسی لاٹھی اور گولی کی زبان میں بات کرنے والوں کو منتخب کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments