لاہور پر چھائے کالے بادل!


کالے بادل آئیں گے
آ کر مینہ برسائیں گے

افسوس کہ اگر واقعی لاہور پر بارش ہو رہی ہوتی تو یہ کالے بادل چھٹ جاتے لیکن یہ تو زہر آلود دھند کے بادل چھائے ہیں۔ لاہور پاکستان کا دل ہے۔ اور یہاں پر آلودگی کا زہر پھیل رہا ہے۔

اس حوالے سے ہماری چند ادنٰی سی تجاویز ہیں۔ پہلی تو یہ کہ کم فاصلے کے سفر کے لیے سائیکل اپنائیں اور اس فاصلے کو آہستہ آہستہ بڑھاتے چلے جائیں۔ ورزش بھی ہوتی رہے گی اور آلودگی بھی کم ہوگی۔ یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔ اگر ایک دو فرلانگ جتنا کم فاصلہ طے کرنا ہو تو پیدل سفر طے کریں۔ اس سے آپ کے جوڑوں کی ورزش ہوتی رہے گی۔ اور آلودگی بھی نہیں پھیلے گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ انتہائی کم فاصلے کے لیے بھی گاڑی یا موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں جس سے نہ صرف لوگوں کی صحت بہتر نہیں ہوتی بلکہ آلودگی بھی بڑھ جاتی ہے۔ زیادہ دور نہیں یہ ہماری گلی کا قصہ ہے کہ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ہماری گلی کے ایک کونے کے گھر سے دوسری کونے تک جانے کے لیے ہمارے پڑوسی موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں، حالانکہ یہ فاصلہ ایک فرلانگ بھی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ٹرام کو شروع کرنا چاہیے تاکہ زیادہ تر اس پر لوگ سفر کر سکیں۔ اس کے علاوہ مختلف جگہوں پر جانے کے لیے بجلی سے چلنے والی بسیں چلائی جائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بسوں میں سوار ہونے کی ترغیب دی جائے۔

اس وقت بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی قیمتیں گر رہی ہیں چنانچہ زیادہ سے زیادہ بجلی سے چلنے والی گاڑیاں خریدیں تاکہ آلودگی نہ پھیلے۔ اب یہ اعتراض کہ بجلی بھرنے والے مراکز یہاں نہیں ہیں تو آج کل کی بیشتر بجلی سے چلنے والی گاڑیاں ایک دفعہ بجلی بھرنے پر دو سو سے لے کر چار سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کر سکتی ہیں، اور یہ فاصلہ لاہور جیسے شہر میں سفر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر آپ اپنے گھر میں ان گاڑیوں کو رات کو بجلی بھرنے پر لگا دیں تو صبح تک اتنی بجلی بھر چکی ہو گی کہ آپ آرام سے دفتر وغیرہ جا سکیں گے۔

اسی طرح اپنے دفتر یا دکان کے سامنے جہاں آپ اپنی گاڑی کھڑی کرتے ہیں، وہاں اسے بجلی سے منسلک کر دیں۔ تو آپ کے وہاں آنے تک جتنی بجلی خرچ ہوئی ہوگی، وہ آپ کے واپس جانے تک بھر جائے گی۔ یہ کام تھوڑا سا مشکل لگتا ہے پر مشکل ہے نہیں۔ ذرا یاد کیجیے کہ لاہور میں دور درشن کی نشریات غیرقانونی طور پر دیکھنے کے لیے کتنے جتن کیے جاتے تھے۔ یا سنہ 1980 کی دہائی میں وی سی آر پر پابندی کے باوجود کتنے لوگ وی سی آر استعمال کرتے تھے۔ آج آپ آلودگی کم کرنے کے لیے ایسے ہی تھوڑے سے جگاڑ سے کیوں کام نہیں لے سکتے۔

صرف ایک فرد کے لیے خالی گاڑی چلانے سے جتنا ممکن ہو گریز کیجیے۔ دو سال پہلے دلی میں ایک روز جفت اور دوسرے دن طاق نمبروں والی گاڑیوں کو چلنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس سے نہ صرف گاڑیوں کی تعداد آدھی ہو گئی بلکہ بہت سے لوگ مشترکہ طور پر گاڑیوں پر سفر کرتے تھے جس سے جو بھی گاڑی سڑک پر آتی تھی، وہ بھری ہوئی ہوتی تھیں۔ لاہور یہ بھی یہ ترکیب اپنا سکتے ہیں کہ مشترکہ طور پر گاڑی میں سفر کریں تاکہ پیٹرول خرچ ہو تو ایک گاڑی سے زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔

اسی طرح نئی آبادیوں کے درمیان اتنا وقفہ رکھیں کہ ان کے درمیان کا کچھ حصہ صرف درختوں کے لیے مختص ہو۔ تاکہ آلودگی کم ہو سکے۔ ان نئی آبادیوں کی سڑکوں پر چھوٹی قسم کے درخت، پودے لگے ہوں۔ تاکہ اس علاقے کی بیشتر آلودگی وہیں کے درختوں میں جذب ہو جائے۔

لاہور کسی۔ زمانے میں باغات کا شہر کہلاتا تھا۔ ان باغات کو بحال کیا جائے۔ اور نئے آبادیوں میں نئے باغات لگائے جائیں تاکہ شہر کا ماحول کچھ بہتر ہو سکے۔

اسی طرح فصلوں کی باقیات کو جلانے کی بجائے کھیتوں میں بکھیر دینے کے لیے کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ایک تو وہ باقیات گل سڑ کر کھاد میں بدل جائیں اور دوسری طرف آلودگی بھی پیدا نہ ہو۔ کچھ سال پہلے فصلوں کی باقیات کو کھیتوں میں بکھیرنے کے لیے تجرباتی طور پر مشینیں لائی گئی تھیں، ان مشینوں کے استعمال کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔

آپ میں سے کچھ شاید اب بھی مایوس ہوں کہ ان اقدامات سے کیا ہو گا
تووہ ایک شعر ہے کہ
مالی داکم بھر بھر پانی دینا
مالک دی مرضی پھول بوٹی لاوے کہ نہ لاوے۔
کے مصداق آپ تو مقدور بھر کوشش ضرور کر لیں۔ باقی اوپر والے کی مرضی۔

لاہور اس وقت کسی نازک مریض کی طرح ہے۔ اور ہمیں اس مریض کی جان بچانے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

چچا غالب نے تو دلی کے لیے کہا تھا کہ اک شہر جو تھا عالم میں انتخاب لیکن یہ شعر لاہور پر بھی صادق آتا ہے۔

لاہور بہت ہی قدیم شہر ہے اور اس شہر کو عظیم تر بنانے کے لیے بہت ساری شخصیات نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ مثلا سر محمد اقبال، سر گنگا رام، وغیرہ۔ اس شہر کا قدیم ورثہ، یہاں کے فنون لطیفہ دنیا کو دکھانے کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہو گا کہ جب یہ مستقبل میں بھی لوگوں کے رہنے کے قابل رہے۔ ہمیں اپنے اس شہر کو آنے والی نسلوں کے رہنے کے قابل بنانے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ کہیں خدانخواستہ یہ بھی موہنجوداڑو اور ہڑپہ نہ بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments