جولگرام چنارگی میں افسوس ناک واقعات


چنارگے جو لگرام کے مغرب کی طرف پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک سرسبز و شاداب اور خوبصورت علاقہ ہے۔ اس کی بلندی میں ایک قدرتی نالہ تھا جس کے جنوب مغرب کی طرف پہاڑوں میں ہندو شاہی کے دور سے تعلق رکھنے والا ایک قدیم گاؤں تھا جس کے کھنڈرات نمایاں طور پر چند سال پہلے تک موجود تھے۔ مقامی لوگ اس کو مانڑئی کے نام سے پکارتے تھے اور یہ تعداد میں تقریباً چودہ تھے۔

اگر جو لگرام کے مضافات کا غور سے جائزہ لیا جائے تو اتنی بڑی تعداد میں ہندو شاہی دور سے تعلق رکھنے والے آثار کہیں بھی نظر نہیں آئیں گے۔ اس کے علاوہ ”جولگرام“ کا نام بذات خود ہندو شاہی کے دور سے تعلق رکھنے والا نام لگ رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ موجودہ گاؤں سے الگ ایک قدیم گاؤں تھا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ وہ منہدم ہوتا گیا اور لوگوں نے پہاڑوں کی بلندی سے نیچے آ کر رہائش اختیار کرنا شروع کی اور یوں موجودہ جو لگرام گاؤں آباد ہوتا گیا۔

چنارگے نامی مقام جو پرانے جو لگرام کے نشیب میں واقع تھا، وہاں ایک قدرتی چشمہ تھا جس کے ارد گرد چنار کے درخت تھے جو اس علاقے کے حسن و جمال میں بنیادی کردار ادا کرتے تھے اور اسی وجہ سے اس علاقے کا نام ”چنارگے“ مشہور ہوا۔

وقت گزرنے کے ساتھ جو لگرام کی آبادی بڑھنے لگی اور لوگوں نے ملحقہ مضافات میں گھر بسانے شروع کیے ۔ چنارگے اپنی تاریخی اہمیت، پانی کی فراوانی، موجودہ جو لگرام کے بہت ہی قریب ہونے اور یہاں سستی زمینوں کی وجہ سے غریب اور متوسط لوگوں نے یہاں کا رخ کیا اور وہ چنارگی میں مکانات بنا کر وہاں منتقل ہو گئے۔ یہاں گاؤں کے ان لوگوں نے بھی نسبتاً بڑے مکانات تعمیر کیے جن کے گھر خاندان کے افراد زیادہ ہو جانے کی وجہ سے تنگ پڑ گئے تھے۔

ہمارے غریب لوگوں کا بنیادی مسئلہ گھر کا ہوتا ہے اور جب یہ حل ہو جائے تو پھر وہ بچوں کے جوان ہونے کا بڑی بے تابی سے انتظار کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے بیوی بچوں کے علاوہ اپنے والدین کے بھی کام آ سکیں۔

چنارگی میں بیشتر وہ لوگ رہتے ہیں جن کا واحد سہارا ان کے جوان بیٹے ہوتے ہیں۔ ان ہی کے سہارے ان لوگوں کی زندگی رواں دواں ہیں۔ وہاں کے جوان بیٹے اپنے خاندانوں کی دال روٹی کے لئے چھوٹے چھوٹے کاروبار یا کوئی اور مشقت آمیز ملازمتوں میں مصروف ہیں۔ آمدن تھوڑی تھی یا زیادہ لیکن سب قناعت اور صبر و شکر سے خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

اچانک آسمان کے تیور بدل گئے۔ چنارگے اور ملحقہ علاقوں کے لوگوں کی زندگی کی فائلوں میں سرخ لکیریں آنا شروع ہو گئیں۔ ان کے ہاتھوں کی وہ لکیریں جو خوش قسمتی کی علامت تھیں، وہ بد قسمتی کی لکیروں میں بدلنے لگیں اور ان لکیروں نے دفعتاً اپنی نحوست ظاہر کرنا بھی شروع کی۔ علاقے میں افسوس ناک اور درد ناک واقعات ایک تسلسل کے ساتھ ظہور پذیر ہونے لگے جس نے خوش حال گھرانوں میں صف ماتم بچھا دی۔

پہلا واقعہ عمر واحد کی بے وقت موت کا تھا جس نے مقامی لوگوں کو بہت رلایا۔ عمر واحد اپنی بیوہ ماں، بیوی اور بچوں کا واحد سہارا تھا جو ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف دہ بیماری سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گیا۔ اس بیماری میں انسان ایک قدم بھی آسانی سے نہیں اٹھا سکتا لیکن پیٹ کی مجبوری انسان کو مشکل سے مشکل کام کرنے کے لئے آمادہ کرتی ہے۔ وہ اپنے خاندان کی کفالت کے لئے بیماری سے لڑتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کرتا رہا جس کی وجہ سے اس کی تکلیف میں شدت آ گئی تھی اور وہ تڑپ تڑپ کر موت کے منھ میں چلا گیا۔

چند دنوں کے بعد بدقسمتی کے اور جھٹکے نے چنارگی کا ایک دوسرا گھر ویران کر دیا۔ فضل حکیم پیشے کے لحاظ سے درزی تھا۔ وہ لوگوں کے کپڑوں کی سلائی کر کے اپنے خاندان کے لئے روزی کماتا تھا۔ قدرت نے فضل حکیم کے لئے کرونا کا بہانا ڈھونڈا۔ کرونا سے موت ویسے بھی انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے اور اوپر سے دو تین سال پہلے اس کا جوان بھائی مزدوری کے دوران اللہ کو پیارا ہو گیا تھا۔ اس لئے اس کی موت پر گاؤں میں ایک سوگ کا سماں تھا۔

اس کے بعد چنارگی میں اصغر خان کی اندوہ ناک موت واقع ہوئی۔ وہ چار بچوں اور ماں باپ کا واحد سہارا تھا۔ اصغرخان گاؤں فوت ہونے والے ایک شخص کے لئے رضاکارانہ طور قبر تیار کرنے کے بعد اپنے گھر گیا اور پھر ایسا بیمار ہوا کہ دو ماہ تک چارپائی سے نہیں اٹھ سکا تھا اور اسی دوران ہی اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔ رضاکارانہ طور پر قبر کی تیاری کے بعد بیمار ہونا اور مرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ شہید ہے۔

چنارگی کا ایک اور جوان باپ بخت بادشاہ صبح اٹھتا ہے۔ گھر والوں کو بتاتا ہے کہ اس کی طبیعت ناساز ہے۔ وہ گھر سے باہر جا رہا تھا کہ اہل خانہ نے اسے منع کیا کہ تمہیں بیماری کی حالت میں باہر نہیں جانا چاہیے لیکن اس نے کہا کہ اس نے اپنے گاؤں کے فضل غفار نامی شخص کے ساتھ کھیت میں کام کرنے کا وعدہ کیا ہے اور وہ وعدہ خلافی کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ گھر والوں کی بات نظر انداز کر کے وہ اپنے دوست کے کھیت پہنچ جاتا ہے۔

کھیت میں کام کرنے کے دوران اس کے سینے میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے بھائی کو فون کر کے خود وہاں کی قریبی مسجد میں جاکر لیٹ جاتا ہے۔ اس کا بھائی جب پہنچتا ہے تو اس کی حالت غیر ہوجاتی ہے۔ وہ اسے اپنی گود میں لیتا ہے اور وہ اپنے بھائی کی گود میں مسجد میں آخری سانس لیتا ہے۔ وعدہ نبھانے کے دوران دل کا دورہ پڑنا اور پھر مسجد میں جان دینا بہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتا ہے۔

اس کے چند دن بعد گاؤں میں ایک اور افسوس ناک واقعہ پیش آتا ہے۔ جہان بادشاہ جو ایک شریف اور محنت کش باپ تھا۔ عشاء کی نماز کے بعد معمول کے مطابق قرآن پاک کا ترجمہ پڑھتا ہے۔ پھر گھر آ کر سونے سے پہلے فجر کی نماز کے لیے الارم سیٹ کرتا ہے۔ نماز کے وقت الارم بجتا ہے لیکن وہ اٹھتا نہیں۔ بیوی اس کو اٹھانے کے لئے آتی ہے تو کیا دیکھتی ہے کہ وہ تو ہمیشہ کے لئے سو گیا ہے۔

آج اس گاؤں کا ایک اور جوان باپ فرید خان چل بسا ہے۔ وہ ایک شریف ریٹائرڈ پولیس مین تھا۔ کراچی میں مزدوری کے دوران زخمی ہوا تھا۔ شوگر کے مریض ہونے کی وجہ سے اس کا زخم بگڑتا گیا اور وہ ہسپتال میں مختلف قسم کی پیچیدہ بیماریوں سے مقابلہ کرتے ہوئے دم توڑ گیا۔

اگر ان افسوس ناک اموات میں ظفر اقبال کا ذکر نہ کروں تو چنارگی اور ملحقہ علاقے میں جوانی میں مرجانے والوں کی فہرست نا مکمل سمجھی جائے گی۔ ظفر اقبال کا تعلق چنارگی کے ساتھ متصل جو لگرام کے ایک محلے ریزات خیل سے تھا۔ وہ ایک شریف اور خوبصورت نوجوان تھا۔ اس کی موت بھی ڈاکٹروں کی غفلت برتنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ وہ بھی مذکورہ مرحومین کی طرح شرافت کا نمونہ تھا۔ بچوں کے باپ اور نہایت خوبرو نوجوان ہونے کے ناتے عزرائیل علیہ السلام کو اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے چند سال کی مہلت کی درخواست کرنی چاہیے تھی لیکن اللہ کی مرضی اور منشا کو کون سمجھ سکتا ہے۔ اس طرح چنارگی کے ساتھ متصل علاقہ جاربٹ میں نوجوان اعجاز ولد گل محمد کی ناگہانی موت بھی ان سانحات کا تسلسل لگتا ہے۔

علاقے کے تمام لوگ ان مرحومین کی شرافت اور اچھے اخلاق کی گواہی دیتے ہیں۔ انھوں نے یا اس گاؤں کے لوگوں نے کوئی ایسا غیر اخلاقی یا غیر قانونی کام نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے یہ گاؤں اللہ کے غضب کا مسلسل نشانہ بنے۔

اے کاتب تقدیر مجھے اتنا بتا دے
کیوں مجھ سے خفا ہے، کیا میں نے کیا ہے

چونکہ مذکورہ لوگوں کی اموات مختلف بیماریوں کے صحیح اور بروقت علاج نہ ہونے یا ان بیماریوں سے لاپرواہی برتنے کی وجہ سے واقع ہوئی ہیں، اس لئے متعلقہ حکومتی ادارے، سیاسی رہنما، کونسلرز، انتظامیہ اور علاقے کے مخیر حضرات اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔

صوبائی وزیر برائے پبلک ہیلتھ کا تعلق اسی گاؤں سے ہے۔ اس کا اخلاقی اور محکمے کے حوالے سے جو فرض منصبی بنتا ہے، وہ اس کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کو ان سانحات کا نوٹس لینا چاہیے تھا کیونکہ تین چار مہینوں میں ایسے چھ سات جوان افراد کا ایک ہی محلہ میں جاں بہ حق ہونا آفت کے زمرے میں آتا ہے جو حکومت کے امدادی پیکیج کے حقدار ہوسکتے ہیں۔ وزیر موصوف کو ان کے لواحقین کے لئے کچھ پیکیج منظور کرانے چاہئیں کیونکہ جاں بہ حق ہونے والے افراد اپنے اپنے خاندانوں کے واحد سہارا تھے۔

اس طرح حزب اختلاف کے صوبائی رہنما کا گھر چنارگی سے چند سو گز کے فاصلے پر ہے۔ اس نے بھی ان اموات کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا ہے اور اس طرح اس نے اس اہم ایشو پر حکومت کی لاپرواہی سے فائدہ اٹھانے کا سنہری موقع ضائع کیا ہے۔ ان دونوں حضرات کا دعاؤں کے لئے حاضر ہونا کافی نہیں، کیونکہ لوگوں نے ان سے بہت سے امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں اور انہیں علاقے کے لوگوں کی اس قدرتی مصیبت میں مدد کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments