زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے


ہم بوڑھے ہو رہے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہم وقت سے پہلے بوڑھے ہونے لگے ہیں۔ چند ہی سالوں میں زندگی یوں ہو جاتی ہے جیسے ہمارے کاندھوں پر کئی قرنوں کا عظیم الجثہ بار آ گرا ہو جسے بنا حیل و حجت کے ڈھونے کی مجبوری لاحق ہے ہمیں۔ عمر تیس کے پیٹے میں آئی نہیں کہ ہڈیاں جوڑوں سے الگ ہوتی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ چلتے پھرتے ان سے کڑکڑاہٹ یا تڑخنے کے تکلیف دہ ساز ابھرنے لگتے ہیں۔ تکلیف اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب کہا جانے لگتا ہے کہ ”ان کے اندر ہمت، طاقت اور زندگی کا گودا کم پڑنے لگا ہے“ ۔

زندگی کی چادر میں جسم کے ڈھانچے کو ابھی ٹھیک سے ڈھانپا بھی نہیں کہ یہ کم پڑنے لگی۔ بیٹھے بیٹھے ہی پھر ادراک ہونے لگتا ہے کہ بصارت بھی مدھم پڑنے لگی ہے۔ گویا ہماری زندگی میں کھلے آسمان میں چم چم کرتے ستارے اپنی اصل ہیئت و بناوٹ کے ساتھ تکنے کے دن بہت مختصر ہوتے جا رہے ہیں۔ جلد ہی سارے منظر دھندلا جاتے ہیں۔ چہرے پر تھکان سے لتھڑی شکنیں بھی یوں ابھر آتی ہیں کہ ماس کی گٹھڑی میں چھید ہوئے اور ہزار، دکھ، کرب، دہشت اور خوف سے تھر تھر کانپتی لکیریں پھسل پھسل کر باہر آنے لگیں۔

چالیس تک پہنچتے ہی سر کی کنپٹیوں سے ابھرتا سپیدہ کا سہ سر کے مرکزی نقطے سے امنڈ امنڈ کر چار سو پھیلنے لگتا ہے۔ کوئی نا کوئی ایسا مرض لاحق ہو جاتا ہے کہ جس کی دوا دارو اب عمر بھر کرنا ہو گی۔ بلکہ یہ کہ ایک مرض کی دوا ہونے لگے تو کئی اور طرح کے امراض کا وہم اور دھڑکا دل کو ہر ساعت گھیرنے لگتا ہے۔ اور بس پھر باقی رہی سہی عمر انہی وسوسوں، شبوں اور ان کے تدارک کے ٹوٹکوں میں بیت جاتی ہے۔

وقت کے ریوڑ میں بے پناہ لمحوں کو ہانکتے ہانکتے ہم خود ہانپنے لگتے ہیں۔ تمام وقت اک گہری، جاں سوز مشقت میں مبتلا رہ کر بھی لگتا ہے جیسے سب رائیگاں رہا۔ گویا یہ ”تھکن“ ہماری منزل کو جا لینے کا رستہ نہیں دیتی، بلکہ ہماری کلپنا کو اور بھی بڑھا دیتی ہے۔ شاید ہمارے جلد بوڑھا ہونے کی وجہ ہماری سوچ کا بوڑھا ہو جانا ہے۔ سوچ میں شک، شبہ، تلخ یادوں کے قصے، ماضی کے داغ، حال کی ناکامیوں، الجھنوں، کدورتوں، نفرتوں، سازشوں، منفی سوچوں اور بے یقینیوں کے کیڑے پڑ جائیں تو خوشی، سادھنا، سرمستی، اطمینان، سکون اور فرحت کے ماس کو نوچ نوچ کھانے لگتے ہیں۔

ہم میں سے ہر شخص اپنے اندر اپنی مری ہوئی حسرتوں، گلہ گھوٹی ہوئی تمناؤں، اور پھندا دیے گئے خوابوں کی مردہ لاشوں جیسی آلائشیں لئے پھرتا ہے اسی لئے ہمارے بولنے پر چڑچڑاہٹ، جھنجھلاہٹ اور بدزبانی و بد مزاجی کا تعفن اٹھتا ہے۔

ہمارے وقت سے پہلے مرجھانے کا سبب یہ بھی ہے کہ ہم پر امید نہیں۔ ہم اپنے بچوں کے آنے والے کل کے لئے وقت سے بہت پہلے پر فکر ہونے لگتے ہیں۔ ہمیں لمحہ بہ لمحہ احساس رہتا ہے کہ ہم ان کی خواہشیں پوری نہیں کر پاتے۔ ہم اپنے کم وسائل کی وجہ سے، انہیں ان کی فطری ذہانت کے عین مطابق درسگاہ و معلم مہیا نہیں کر پائے۔ ہمیں یہ بھی فکر کھائے جاتی ہے کہ ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا وہ اپنی محنتوں اور مشقتوں کے بعد اس مقام تک پہنچ پائیں گے جس کی جستجو ان کا مطمعء نظر رہی؟ کیا اس ملک کا نظام انہیں ان کا اعلیٰ مقام دلوائے گا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر ان کا تحفظ۔ کیا ہمارے بچے اس جنگل کے قانون اور دہشت کے نظام و ماحول میں جی سکیں گے۔ جگہ جگہ چھپے بیٹھے موت کے سوداگر انہیں ان کی عمر جینے دیں گے؟ ہم وقت سے پہلے ہی اس کے خدشات کی بھٹی میں جلتے رہتے ہیں۔

ہم مسکرانا بھول گئے ہیں یا زندگی نے ہمارے لئے مسکرانا چھوڑ دیا ہے۔ گھٹن جو ہمارے ءچار سو ہے متواتر بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اگر کچھ جینا چاہتے بھی ہیں تو مذہبی ٹھیکیدار جینے نہیں دیتے۔ وہ ہمارے لئے زندگی سے حسن اور محبت کے رنگ کشید کرنا ہی حرام ٹھہرا دیتے ہیں۔ عمر خیام جب اک بار سمر قند کے سفر پر رواں دواں تھا تو اس دوراں اسے اس کی رباعیات کی وجہ سے ایک ملحد فلسفی ہونے کا الزام دے کر سڑکوں پر دست اندازی کی گئی۔ یہاں تک کہ اسے گھسیٹتے ہوئے قاضی کے دربار میں معتوب ٹھہرا کر لا کھڑا کیا گیا۔ کہا گیا کہ ”تم پر یہ الزام ہے کہ تم یہ کہتے سنے گئے ہو کہ میں کبھی کبھی ایسی مسجدوں میں جاتا ہوں جہاں جھپکی لینے کے لئے چھاؤں اچھی ہوتی ہے۔“ عمر خیام کا بیان تھا

”عبادت گاہ میں صرف وہی آدمی سو سکتا ہے جو اپنے خالق سے راضی خوشی ہو، میں ان میں سے نہیں جن کے لئے دین محض یوم الحساب کا خوف ہے۔ میری عبادت کا کیا ڈھنگ ہے؟ میں ایک گلاب کا بہ نظر غائر مشاہدہ کرتا ہوں۔ میں اختر شماری کرتا ہوں۔ میں کائنات کے حسن پر تعجب کرتا ہوں اور اس پر کہ یہ کس قدر منظم ہے۔ انسان پر جو خالق کی حسین ترین صفت ہے۔ انسان کے دماغ پر جو علم کا پیاسا ہے۔ اس کے دل پر جو محبت کا بھوکا ہے۔ اس کے حواس پر، چاہے یہ بیدار ہو یا آسودہ“ ہم فانیت کے کرب میں مبتلا ہیں اس لئے دکھ میں گھرے رہتے ہیں۔ لیکن ہم اسے حقیقت سمجھ کر اس سے راہ رسم بڑھا کر اس کے دکھ کو پچھاڑ نہیں پائے۔ اور جلد ہی یہ کرب خود ہمیں پچھاڑ دیتا ہے۔ ہم سے زندگی میں ہی ہماری زندگانی چھین لیتا ہے۔

ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم خود ایک المیے کی پیداوار ہیں۔ تقسیم کا المیہ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمیں تقسیم ہی کیے چلا جا رہا ہے۔ وہ تقسیم جو طبقاتی تو کبھی لسانی و علاقائی یا فرقاتی تقسیم بن کر ہمیں تشدد، ظلم، نا انصافی اور عدم تحفظ کی اقدار کے شکنجوں میں ہی جکڑتی رہی ہے۔ لیکن ان اقدار کی ہمیں ایسی لت لگ چکی ہے کہ اس کا لہو، اس کی چیر پھاڑ ہی ہماری رومانویت بن چکی ہے۔ رونا، چیخنا، مرنا، گھٹنا ہمارا تشخص اور سب سے بڑھ کر ہمارا ادبی و فنون لطیفہ کا اظہار بھی۔

ہمیں لکھنے اور پڑھنے میں بھی ایسے ہی کردار پسند ہیں جو زخم کھائے ہوئے، ٹھکرائے ہوئے اور زندگی سے کلبلائے ہوئے ہوں۔ جن کی محرومیوں، ناکامیوں اور تکلیفوں میں ہی کہانی ختم ہو جائے اور ہم آنسوؤں سے بھری آنکھوں کو لئے خوب تالیاں بجاتے رہیں۔ تالیاں بجا بجا کر اپنی محرومیوں کا بھی کچھ گھڑی جشن منا لیں۔ ہمارا جشن یہی ہے۔ ہم محبت کے تاج محل سے کہیں زیادہ موت کے احرام مصر میں رومانویت تلاش کرتے ہیں۔ ہم زندہ لوگوں سے فرار چاہتے ہیں اور مرے ہوؤں کے عرس میں دھمال ڈالنے ضرور پہنچتے ہیں۔

ہمارے دکھ ہمیں جلد بوڑھا کر دیتے ہیں۔ انسان کی سوچ زخم خوردہ ہو جائے تو سوچنے کا عمل بھی بانجھ ہو جاتا ہے۔ لیکن تازہ دم سوچ رکھنے والے بیتاب ہوتے ہیں مایوس نہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں بھید کی جستجو انہیں بے قرار رکھتی ہے۔ ان کے لئے کوئی راستہ کہیں بھی ختم نہیں ہو جاتا، وہ کہیں نہ کہیں آگے ضرور جاتا ہی ہو گا۔ یہی جستجو انہیں تحقیق اور تدبیر کی طرف لے جاتی ہے۔ ہم تو جہاں کھڑے ہیں ہمارے قدم دل کے وسوسوں اور خدشات سے، وہیں پتھر کے ہو جاتے ہیں۔ بھلا تجربات، تحقیق اور تخلیق سے ہمارا کیا سروکار۔

آخر اور کتنی نسلوں تک موت کا صور پھونکا جاتا رہے گا؟ ہم کب تک اپنے بے وقعت اور لاحاصل جذبوں کے کولھو کے گرد گھومتے، اور زندگی کے ہاتھوں بے دردی سے ضائع ہوتے رہیں گے؟ ہم کب یہ سمجھ پائیں گے کہ خوشی حاصل کرنے کے لئے کوئی بہت بڑے عرفان و الہام یا عظمت و انعام کی ضرورت نہیں۔ یہ تو بہت آسان اور سادہ سی خواہش ہے۔ اسے پانے کے لئے ضروری نہیں کہ پوری کائنات آپ کا ساتھ دے۔ یہ تو تنہائی میں خود اپنے ساتھ گزارے ہوئے لمحات میں بھی تلاش کی جا سکتی ہے۔ کبھی چاہت و محبت سے کسی گلاب کے بہ نظر غائر مشاہدے کے لطف میں۔ کبھی تنہائی میں اختر شماری کرتے ہوئے یا کبھی انسان اور اس کائنات کے حسن کو سوچ کر۔ زندگی کو جیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments