میوہ، سیوا، جان لیوا اور بیوہ


ایک صاحب کی زوجہ محترمہ میوہ جات کھانے کی بہت شوقین تھیں۔ تھوڑی دیر، اگر ان کو کوئی میوہ نظر نہ آتا تو بہت زیادہ پریشان ہوجاتی تھیں۔ شوہر بھلے کئی کئی دن دکھائی نہ دیتے، ان کو قطعاً کسی طرح کا مسئلہ نہ ہوتا تھا۔ شاید ان دنوں شوہر کو بھی کوئی مسئلہ نہ ہوتا تھا۔ تقدیر کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ چھٹی کا دن تھا۔ میاں صاحب سکون سے بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ خاتون تشریف لائیں اور نہایت غصے سے پوچھنے لگیں ”میوے کہاں ہیں“ ۔

شوہر کہنے لگا ”تو ہی میرا میوہ ہے، میرے من کی مندری کا تھیوا ہے، میرا دین دھرم تیری سیوا ہے، اک مدت سے یہی میرا شیوہ ہے، تو پھر بھی مگر جان لیوا ہے“ ۔ آخری سے پہلے تمام کلمات انہوں نے باآواز بلند گاتے ہوئے کہے۔ آخری جملہ اتنی آہستگی سے کہا کہ انہیں خود بھی بے مشکل سنائی دیا ہو گا۔ اعمال کا پورا پورا بدلہ آخرت میں دیا جائے گا۔ دنیا میں اکثر لوگ آپ کے افعال بھول جاتے ہیں۔ مگر چند اقوال یاد رکھتے ہیں۔ ہمارے علامہ اقبال نے بالکل بجا کہا تھا ”کہ اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے“ وہ صاحب اقبالیات سے آگاہ تھے۔

اپنے مستقبل سے مگر انجان تھے۔ خاتون خانہ کی سماعت کی صلاحیتیں ان سے پوشیدہ تھیں۔ اس جملے کے بعد ان کا شیوہ تو وہی رہا مگر ان کے مسائل کی راہ میں ان کی وسائل حائل نہ ہو سکے۔ ایک ہی جملہ ان کی جملہ خوبیوں کو نگل گیا۔ ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔ خاتون نے صاحب کا آخری جملہ سنا یا نہیں اس بارے میں راوی تو کیا پانچ دریاؤں کی سرزمین کا ہر ذی نفس خاموش ہے۔ خاتون نے اپنی اعلیٰ ظرفی ہمیشہ برقرار رکھی۔ ابھی تک انہی کی بیوہ کے طور پر جانی جاتی ہیں اور بعض حلقوں میں تو پہچانی بھی جاتی ہیں۔

ایک خاتون افسر ایک دن علاقے کا مختصر دورہ کر کے مقدمات کی سماعت کے لئے اپنے دفتر آئیں تو عملے کو پریشانی کا طویل دورہ پڑا ہوا تھا۔ وجہ پوچھنے پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نے بتایا ”ایک خاتون کی اپیل عدالت میں زیر کارروائی ہے۔ ابھی صرف چند دن ہی ہوئے ہیں۔ سائلہ احتجاج کر رہی ہیں۔ بار بار خود سوزی کی دھمکیاں دے رہی ہیں“ ۔ افسر صاحبہ نہایت رحم دل تھیں۔ سائلہ کو بلایا۔ مسئلہ پوچھا۔ خاتون کہنے لگی ”میں بیوہ عورت ہوں۔ آپ کی عدالت میں انتقال کی اپیل چل رہی ہے“ ۔

اتنا سننا تھا کہ ہماری افسر صاحبہ آبدیدہ ہو گئیں۔ بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگیں ”میری کیا بساط کہ میں آپ کے معاملے کا کوئی فیصلہ کر سکوں۔ آپ کے حق میں تو قدرت نے فیصلہ کر دیا ہے۔ انتقال کے فیصلے تو اوپر ہی ہوتے اچھے لگتے ہیں۔ عزت کے ساتھ بیوہ ہونا قدرت کا انعام ہے۔ میرے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھیں۔ دعا کیجئے۔ میری بہت ساری فرینڈز بھی آپ کے منصب کے لئے ترس رہی ہیں۔ کئی جگہ منتیں مرادیں مانگ چکی ہیں۔ تقدیر کے مگر اپنے ہی فیصلے ہیں۔

عزت کے ساتھ ریٹائر ہونا اور عزت کے ساتھ بیوہ ہونا ہر کسی کو کہاں نصیب ہوتا ہے“ ۔ افسر عالیہ کے مسائل دیکھ کر سائلہ اپنی تکلیف بھول گئیں۔ افسر صاحبہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔ گلے لگایا۔ دلی مراد پوری ہونے کی دعا دی۔ مدعی کو انصاف ملا یا نہیں ملا، مصنف گلے ضرور ملا۔ گلے دور ہو گئے۔ احتجاج ختم ہو گیا۔ دعا کا رشتہ قائم ہو گیا۔ سکون کا دور دورہ ہو گیا۔

ایک خاتون اپنے علاقے میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ لوگ ان کی کرامات کے قائل تھے۔ اردگرد کے علاقوں کی جملہ خواتین ان کے حلقہ ارادت میں شامل تھیں۔ لوگ ان کی شخصیت کے بارے میں بڑے متجسس تھے۔ ان کا ماضی پردے میں تھا۔ ایک صاحب طویل مدت سے ان کی کرامات کا راز جاننا چاہتے تھے۔ بڑی کاوشوں کے بعد عقدہ وا ہوا۔ پتہ چلا کہ خاتون کی پہلی شادی کم عمری میں ہوئی۔ پختہ عمر تک پہنچتے پہنچتے ان کے پے درپے کئی نکاح ہوچکے تھے۔ کوئی بھی شوہر تین ماہ سے زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکا۔ آخری شو ہر کو وفات پائے ابھی چند دن ہی گزرے تھے۔ خواتین ان کو پہنچی ہوئی ہستی سمجھتی تھیں۔ ان کے در پر حاضری دیتی تھیں۔ اپنے لیے دعا کرواتی تھیں۔ ان کی زندگی کو آئیڈیل سمجھتی تھیں۔

ایک خاتون بہت دھیمی طبیعت کی مالک تھیں۔ والدین کی مرضی سے شادی کی۔ سسرال کا مزاج عجیب تھا۔ شوہر بھی ہم مزاج نہ تھے۔ ہر طرح کی اذیت سے دوچار رہیں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ عرصہ بعد بیوہ ہو گئیں۔ ہر ماہ ایک دفعہ شوہر کی قبر پر ضرور جاتی تھیں۔ دیر تک روتی رہتی تھیں۔ ایک ہی جملہ دہراتی رہتی تھیں ”آنسو تمہیں واپس نہیں لا سکتے، اسی لیے روتی ہوں“ ۔

ایک خاتون جوانی میں بیوہ ہو گئیں۔ بہت خوبصورت تھیں۔ نہایت مال دار بھی تھیں۔ بہت سے لوگ ان کے مرحوم شوہر کی جگہ لینے کے لئے بے تاب رہتے تھے۔ خاتون مگر دوسری شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ کافی لوگ کافی عرصہ کوشش کرتے رہے بالآخر ہمت ہار گئے۔ ایک صاحب مگر نہایت ڈھیٹ ثابت ہوئے۔ گاہے بگاہے خاتون کو ضرور کہتے ”آپ کے شوہر کی جگہ تو کوئی نہیں لے سکتا۔ پھر بھی میرے بارے میں کچھ تو سوچیں“ ۔ خاتون نے پوری کوشش کی مگر ان صاحب کے جذبہ جنون نے ہمت نہ ہاری۔ ایک دن خاتون نے صاحب کا مسئلہ حل کرتے ہوئے صاحب کو بتایا ”میں نے آپ کے بارے میں بہت سوچا ہے۔ گورکن سے بھی بات کی ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں میرے شوہر کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ قریب ہی مگر ایک قبر کی جگہ خالی ہے۔ وہ میں نے آپ کے لئے مخصوص کروا دی ہے۔ امید ہے اب آپ کی تسلی ہو گئی ہوگی۔“

ایک محترمہ بیوہ خواتین کی فلاح کا ایک ادارہ کافی عرصہ سے چلا رہی تھیں۔ بہت سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بات کرنا بالکل پسند نہیں کرتی تھیں۔ ادارہ میں مستقل رہائش رکھنے والی خواتین کے لئے ہوسٹل بھی تھا۔ ذاتی رہائش وہیں پر تھی۔ ایک خاتون کافی عرصہ سے ہوسٹل میں مقیم تھیں۔ دونوں کی دوستی ہو گئی۔ ایک دن اپنی دوست کے اصرار پر صرف ایک بات کہی ”سب سے دکھی بیوہ وہ ہوتی ہے جس کا شوہر زندہ ہو مگر وہ پھر بھی بیوہ ہو۔ شوہر زندہ بھی رہے اور بیوی کو کسی دوسری عورت کی خاطر مسلسل بیوہ بھی رکھے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments