زندگی بھیک میں نہیں ملتی


وہ لوگ جو اخبار پڑھنے اور ٹیلی وژن دیکھنے کے عادی ہیں انہیں خوشگوار خبریں کم ہی پڑھنے اور دیکھنے کو نصیب ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی سچائی اور غیرجانبدار تجزیوں کی کمی نظر آتی ہے بلکہ یہ پلیٹ فارم جہالت اور جھوٹ کے بیوپاریوں میں مقبول ہو چکا ہے۔ میڈیا پر پابندیاں اور حقیقت چھپانے کا رواج بھی پرانا ہے مگر بات ہو رہی ہے اچھی خبروں کے فقدان کی۔ حسن اتفاق ہے کہ گزشتہ اتوار دو ایسی خبریں نظر سے گزریں کہ ذہن خوشگوار ہو گیا۔ یہ خبریں دو مختلف ممالک سے متعلق تھیں جہاں اپنے حقوق کے لیے، بے بس اور کمزور عوام کی جدوجہد، کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ یہ اطلاع اندھیرے میں ایک روشن کرن کی مانند تھی۔ جن دو ممالک کا ذکر ہو رہا ہے، وہ مختلف براعظموں میں واقع ہیں۔ افریقہ کے شمال مشرق میں واقع، سوڈان اور ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان۔ پہلے سوڈان کا ذکر کرتے ہیں جہاں سویلین معاملات میں فوجی عمل دخل کا پرانا رواج ہے۔ عمر البشیر کی ڈکٹیٹر شپ 2019 میں ختم ہوئی اور جمہوری عمل کے نتیجے میں عبداللہ ہمدوک نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ ایک ماہ پہلے عبداللہ کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل عبدالفتح البرہان نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی۔ عوام نے فوج کے اس غیر آئینی عمل کو قبول نہیں کیا اور گزشتہ ایک ماہ سے عوامی مظاہرے جاری ہیں۔ سرکاری طاقت کے استعمال سے، اب تک چالیس مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں مگر حکومت امن و امان بحال نہیں کر سکی۔ فوجی حکومت اور غیر ملکی شراکت داروں کے درمیان مذاکرات کچھ عرصہ قبل شروع ہوئے۔ اتوار کو صدارتی محل سے ٹیلی وژن پر ایک تقریب دکھائی گئی جس میں برطرف کیے گئے وزیراعظم کو جیل سے نکال کر شامل کیا گیا۔ کیمروں کے سامنے ناتواں اور لاغر نظر آنے والے عوامی لیڈر نے خون خرابہ روکنے کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔ جنرل صاحب نے برطرف وزیراعظم کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے نئے سرے سے شفاف انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا۔ اقوام متحدہ نے فوجی اور سویلین قیادت کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی، عوامی اجتماعات اور سیاسی عمل کی اجازت پر زور دیا۔ اس سارے قصے کا خوش آئند پہلو عوام کا رد عمل تھا۔ انہوں نے معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے ملکی امور میں سوڈانی فوج کی شراکت داری قبول نہیں کی۔ مستقبل میں نہتے عوام اور مقتدر اداروں کے درمیان ہونے والے معاملات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس بارے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ امید ہے کہ ملکی مفاد میں سوڈانی فوج، عوامی رجحانات کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے، سویلین معاملات سے کنارہ کش ہو جائے گی۔

دوسری اچھی خبر ہندوستان سے آئی۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوا، مودی حکومت نے لوک سبھا سے تین قوانین کی منظوری حاصل کی تھی۔ کسانوں کو اعتراض تھا کہ کسی مشاورت کے بغیر پاس کیے گئے زرعی قوانین، ان کے مفاد کا تحفظ نہیں کرتے۔ زرعی معیشت سے متعلق ماہرین جانتے ہیں کہ کسی فصل کے زیر کاشت رقبے اور پیداوار کا اتار چڑھاؤ ختم کرنے کے لئے جنس کی امدادی قیمت مقرر کی جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو فصل کی فراوانی اس کی قیمت گرا دیتی ہے۔ کسان نقصان اٹھائے تو آئندہ سال وہ جنس کاشت نہیں ہوتی۔ نتیجتاً کم پیداوار کے بعد قیمت میں اضافہ ہوتا ہے اور کسان پھر ایک دفعہ اسی جنس کو زیادہ رقبے پر کاشت کر کے قیمت گرا دیتا ہے۔ پیداوار اور قیمت کی اس اونچ نیچ کو زرعی معیشت کا مسئلہ سمجھتے ہوئے ماہرین نے امدادی قیمت متعارف کروائی۔ تقریباً سب ملکوں نے اس مسئلے کو اسی طرح حل کیا۔ ظاہر ہے سرکار کو امدادی قیمت کے اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اسی لئے پاکستان میں بھی کابینہ امدادی قیمت مقرر کرتی ہے۔ امدادی قیمت کے خاتمے کے علاوہ کسانوں کو ان قوانین پر اور بھی اعتراض تھے مگر مودی حکومت نے پنجاب سے شروع ہونے والی کسان تحریک کو نظر انداز کیے رکھا۔ آہستہ آہستہ یہ احتجاج ہریانہ اور دوسرے صوبوں میں پھیلا اور کسانوں نے دہلی کی سڑکوں پر مظاہرے شروع کیے۔ مرکزی حکومت ڈٹی رہی کیونکہ پنجاب کے کسانوں کی بیشتر تعداد سکھ مذہب سے تعلق رکھتی ہے اور صوبہ پنجاب میں بی جے پی کی حکومت نہیں۔ ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ یو پی ہے، جہاں بی جے پی کے یوگی ادتیہ ناتھ، چیف منسٹر ہیں۔ آہستہ آہستہ کسانوں کا احتجاج یوپی تک پھیلا تو صوبائی حکومت نے مزید سختی سے کام لیا۔ احتجاج کے دوران، صوبائی وزیر داخلہ کے بیٹے پر الزام لگا کہ اس کی جیپ نے کسان مظاہرین کو کچل کر ہلاک کیا۔ اس واقعے کی وڈیو وائرل ہو گئی۔ سینکڑوں لوگ مارے گئے اور احتجاج پھر بھی ختم نہ ہوا۔ حکومت کا خیال تھا کہ جلد یا بدیر مظاہرین اپنا دھرنا ختم کر کے گھر چلے جائیں گے مگر آئے دن پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہیں۔ کسانوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور انہوں نے ہر قسم کے موسم میں اپنے حقوق کی جدوجہد جاری رکھی۔

گزشتہ اتوار، سوڈان سے آنے والی خبر کے علاوہ دوسری خوشگوار اطلاع کسانوں کے سامنے، ہندوستانی حکومت کی پسپائی تھی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ٹیلی وژن پر خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ کسانوں کو اپنا مافی الضمیر سمجھانے میں ناکام رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجوزہ زرعی قوانین کسانوں کے لئے نقصان دہ نہیں تھے مگر پھر بھی انہیں واپس لیا جائے گا۔ اس اعتراف اور قوانین کی منسوخی کی اطلاع پر کسانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ اب منتظر ہیں کہ حکومت ان سے مذاکرات کرے اور لوک سبھا سے ان قوانین کو باقاعدہ منسوخ کروایا جائے۔

دونوں خبروں سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے کہ جمہوری طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اگر بے بس عوام بھی حکومت کے جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کریں تو کامیابی قدم چومتی ہے۔ مگر جدوجہد کی کامیابی، قربانی کے بغیر ممکن نہیں۔ کچھ اسی طرح جیسا کہ ساحر نے کہا تھا ”زندگی بھیک میں نہیں ملتی، زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments