ثاقب نثار کی زبانی تردید کافی ہے؟


نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز کا نظام عدل ایک بار پھر موضوع گفتگو ہے۔ چند روز قبل جی بی کے چیف جج کے بیان حلفی کے سبب عدالتی ساکھ پر سوالات اٹھے تھے، اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوموٹو نوٹس لے لیا، لہذا یہ معاملہ عدالت میں ہونے کی وجہ سے اس پر میڈیا میں تبصرے سے گریز کیا گیا۔ اس کے چند دن بعد ہی مگر انہی سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ایک آڈیو ٹیپ منظر عام پر آ گئی جس کے چرچے اب زبان زد عام ہیں۔

اس آڈیو ٹیپ پر کسی ازخود نوٹس کا امکان کم ہے کیونکہ اس میں کسی حاضر سروس جج کا کوئی ذکر نہیں۔ لہذا کم از کم اس آڈیو ٹیپ کے حوالے سے اپنی ذات کی صفائی اور نظام عدل کی ساکھ پر لگائے گئے الزامات کے دفاع کے لیے کسی بھی قسم کی قانونی جنگ ثاقب نثار کو تنہا لڑنی چاہیے۔ اس معاملے پر بھی اگر انہوں نے عدالتی کندھے پر تکیہ کیا یا پھر بات دبانے کی کوشش کی تو شکوک و شبہات میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہو گا۔ جی بی کے چیف جج کے حلفیہ الزامات کے بعد بھی انہوں نے کسی بھی قسم کی کوئی قانونی کارروائی نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور آڈیو ٹیپ کے سامنے آنے پر بھی اب تک کے ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقدامات کی صفائی دینے کی بجائے ”مٹی ڈالنے“ کی پالیسی پر پیرا ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ایک حساس منصب پر بیٹھے شخص کی جانب سے، خود پر لگنے والے ان الزامات کے بعد جن کے باعث تاریخ کے دھارے کا رخ تبدیل ہو گیا، بے اعتنائی اور لا پرواہی کو کیا نام دیا جائے؟ ثاقب نثار صاحب کو احساس ہونا چاہیے ان کی ساکھ کی اہمیت ہے یا نہیں، جس مسند پر وہ فائز رہے اس کی حرمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنی صداقت پیش کریں۔

ثاقب نثار صاحب کی ذات پر لگنے والے الزامات کی صحت کے بارے تحقیق اس لیے ضروری ہے کیونکہ وہ سب سے بڑے عدالتی منصب پر فائز رہے ہیں اور نظام عدل کی ساکھ کا دار و مدار ان کے اقدامات کے میرٹ پر ہے۔ عدل و انصاف کسی بھی ریاست، سماج اور معاشرے کا جزو لا ینفک ہے۔ کسی بھی ریاست کا نظم و ضبط برقرار رکھنے میں انصاف کی بلا امتیاز فراہمی کا بہت بڑا کردار ہے۔ کوئی بھی ریاست اس وقت تک مستحکم نہیں ہو سکتی جب تک وہاں نظام عدل فعال نہ ہو۔

نظام عدل کو فعال اس وقت تک نہیں کہا جا سکتا ہے جب تک معاشرے کے تمام افراد کا اس پر یقین یکساں قائم نہ ہو اور اس کی غیر جانبداری کسی بھی شک و شبہے سے بالاتر نہ ہو۔ نظام عدل کی جانبداری کی صورت طاقت کا توازن بری طرح متاثر ہوتا ہے اور ایسے معاشروں میں استحکام کی کوئی ضمانت نہیں رہتی۔ جن ریاستوں اور معاشروں میں نظام عدل کمزور یا غیر فعال ہو وہاں لوگ اپنے باہمی اختلافات کو زور بازو سے حل کرنے کی کوشش کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا۔ نظام عدل پر شکوک و شبہات ہی انارکی کا سبب بنتے ہیں، اور انارکی کا اختتام ریاستی و معاشرتی نظام کا شیرازہ بکھرنے پر ہوا کرتا ہے۔ اسی لیے زور دیا جاتا ہے کہ عدلیہ کا کام مقبول فیصلے دینا نہیں بلکہ آئین و قانون کے مطابق بلا امتیاز انصاف فراہم کرنا عدلیہ کی اصل ذمہ داری ہے۔

آئین و قانون سے مکمل نا بلد شخص بھی جان سکتا ہے کہ ثاقب نثار کے دور میں سنے گئے سیاسی مقدمات پر بہت سے شکوک و شبہات ہیں۔ اس تمام عمل کو متنازعہ بنانے کی پہلی بنیاد تو یہ ہے کہ نواز شریف کو سنائی گئی سزا کی وجہ، مقدمے کی بنیاد سے یکسر مختلف تھی۔ اور شاید عدالتی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ بھی تھا، جس میں سزا سنانے کے بعد جرم کے ثبوت ڈھونڈنے کا آغاز ہوا۔ سپریم کورٹ نے نا اہلی کا فیصلہ کرتے وقت ایک ٹرائل کورٹ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا جس نے جے آئی ٹی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی حقیقت کا پتہ لگانا تھا۔

نا اہلی کے فیصلے کے وقت تک ملنے والی تفصیل کے مطابق جو سوالات اٹھائیس جولائی کو تشنہ تھے وہ مگر پھر بھی جوں کے توں رہے۔ مثال کے طور پر یہ واضح ہونے کے بعد بھی کہ لندن میں موجود فلیٹس نواز شریف کے بچوں کی ملکیت ہیں، نیب یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا، کہ اس جائیداد سے براہ راست نواز شریف کا کیا تعلق ہے؟ یہ تسلیم اگر کر لیا جائے کہ ان فلیٹس کی خریداری کے وقت میاں صاحب کے بچے کم عمر تھے، تو پھر بھی محض اس دلیل کو جواز ٹھہرانے کے علاوہ اس بات کا کیا ثبوت تھا کہ ان کی خریداری کے لیے پیسے نواز شریف صاحب نے ہی غیر قانونی آمدن سے بھیجے تھے؟

استغاثہ کی جانب سے شواہد پیش کرنے میں ناکامی کے باوجود محض مفروضوں کی بنیاد پر ملزم کو زنداں بھیجنے کا انتہائی حکم دے دیا گیا۔ دنیا بھر کے جوڈیشل سسٹمز میں ملزم کو شک کا فائدہ دیا جاتا ہے۔ اگرچہ کہا جا سکتا ہے کہ نیب قوانین کے مطابق بار ثبوت ملزم پر تھا، مگر یہ سوال اٹھتا رہے گا اس اصول کا اطلاق اور کس کس شخصیت پر ہوا۔ اسی دور میں عمران خان صاحب بھی بنی گالا اراضی کی ملکیت بارے وضاحت پیش کر رہے تھے۔ سوال تو ہو سکتا ہے کہ کیا اس مقدمے میں بھی نواز شریف والا معیار تھا؟

نواز شریف کا قصہ کچھ دیر کے لیے فراموش کر دیتے ہیں۔ اس بات سے مگر کوئی انکار نہیں کر سکتا ہر گروہ اور جماعت میں اچھے برے ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ تمام پارسا یا تمام گنہگار ایک جماعت میں جمع ہو جائیں۔ ثاقب نثار کے دور کے حالات دیکھ کر مگر لگتا تھا کہ تمام تر برائیوں کی جڑ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ہیں۔ کرپشن، منی لانڈرنگ، گمنامی جائیداد، کک بیکس اور منشیات فروشی کون سا ایسا جرم تھا جس کا طوق مذکورہ جماعتوں کے گلے میں نہیں ڈالا گیا؟

جہانگیر ترین کو بھی آئین کے آرٹیکل 62 ( 1 ) ایف کے تحت اپنی آف شور کمپنی ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ وہ سزا ہونے کے بعد بھی کابینہ اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے مگر اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ دوسری طرف اسی نوعیت کے کیسز میں نہ صرف اپوزیشن رہنماؤں کو پارٹی عہدے رکھنے سے بھی روک دیا جاتا تھا بلکہ ایک جماعت کے ارکان انتخابی نشان سے ہی محروم کر دیے گئے۔ اس دور سے لے کر اب تک مگر تحریک انصاف کا پارٹی فنڈنگ کیس پینڈنگ ہے۔

وطن عزیز کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے غالب امکان یہ نظر آتا ہے کہ ثاقب نثار صاحب قانون کی عدالت سے بچ جائیں گے۔ کاش انہیں احساس ہو جائے کہ ان الزامات کے بعد وہ عوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور عوامی عدالت بھی ان کا موقف سننا چاہتی ہے۔ عوامی عدالت میں ان کی خاموشی کو اقرار سمجھا جائے گا اس لیے انہیں اس عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوگی۔ قانون کی حکمرانی عوام اور عدلیہ کے درمیان اعتماد کے رشتے پر استوار ہوتی ہے اور لوگ اس اعتماد کی وجہ سے ہی انصاف حاصل کرنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ یہ اعتماد ختم ہو گیا تو لوگ انصاف کے لیے عدالت کے دروازے پر دستک دینے کی بجائے اپنے زور بازو پر انحصار کو ترجیح دیں گے۔ میری چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کہ ثاقب نثار صاحب اگر اپنی صفائی پیش نہ بھی کرنا چاہیں تو بھی ازخود نوٹس لے کر ان تمام معاملات کی سچائی عوام کے سامنے لائی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments