اپنے دو سالہ بیٹے اساطیر امروز کے نام کھلا خط


از ایمرسن کالج ملتان
پیارے اساطیر

آداب! کیسے ہو؟ صبح فون پر تمہاری امی بتا رہی تھی کہ تمہیں شدید کھانسی اور زکام شروع ہو گیا ہے۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے؟ محض دو سال ہی کی تو ہے۔ گزشتہ سال بھی انہی مہینوں میں تمہاری طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی تھی اور طبیب نے نمونیا تشخیص کیا تھا۔ اوچ شریف کے معالجین کی دکانوں کے طواف کے بعد آخر احمد پور شرقیہ میں ڈاکٹر امین چوہان کی دوائی سے تمہیں افاقہ ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں صحت سے نوازا۔

تمہاری ماں کو میں نے بتایا ہے کہ وہ تمہیں سردی سے بچا کے رکھے، صبح اور شام کے اوقات میں گھر سے باہر نہ نکالے۔ کل شاید میں ملتان سے آ جاؤں تو تمہیں کسی اچھے معالج کو دکھاؤں گا۔

برسبیل تذکرہ، یہاں ملتان میں آج کل پنڈت جواہر لعل نہرو کی کتاب ”تاریخ عالم پر ایک نظر“ زیر مطالعہ ہے۔ تین حصوں پر مشتمل یہ کتاب دراصل ان خطوط کا مجموعہ ہے جو دوران اسیری پنڈت جی نے اپنی صاحب زادی اندرا گاندھی کے نام تحریر کیے تھے۔ اس کتاب سے میں ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب ”میری سب سے پیاری بیٹی“ پڑھ کر متعارف ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھٹو صاحب کی یہ کتاب بھی ایک طویل خط پر مشتمل ہے جو انہوں نے جیل سے اپنی صاحب زادی بے نظیر بھٹو کو لکھا تھا۔

اپنے اس خط میں بھٹو صاحب اپنی صاحب زادی کو پنڈت جواہر لعل نہرو کی کتاب ”تاریخ عالم پر ایک نظر“ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ یہ میری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ہے جس کا میں نے 22 سال کی عمر تک چار مرتبہ مطالعہ کیا تھا۔ یہ کتاب میں نے 2007 ء میں خریدی تھی۔ جانے یہ انہی کتابوں کا اثر ہے یا خط کی روایت کو زندہ رکھنے کی خواہش، میں نے سوچا کہ آج خط کے ذریعے ہی تم سے ”آدھی ملاقات“ کی جائے۔ چلیں تم سے اس یک طرفہ گفتگو کے بہانے تاریخ اور زور مرہ کا احوال قلم بند ہوتا رہے گا جو شاید بعد میں تمہارے کام آئے۔

بھٹو صاحب پاکستان میں وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، وزیر خارجہ، سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، صدر مملکت اور وزیراعظم کے عہدوں پر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ انہیں فوجی آمر ضیاء الحق کے زیر اثر ججز کے فیصلے کے تحت قتل کے ایک متنازعہ مقدمے میں 4 اپریل 1979 ء کو سولی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ تاریخ اس واقعے کو عدالتی قتل کے طور پر یاد رکھتی ہے۔

ججز کے تذکرے سے یاد آیا کہ آج ہی لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی اپنی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق رواں سال اگست تک پاکستان بھر کی اعلیٰ عدالتوں، ماتحت عدالتوں، ڈسٹرکٹ کورٹس، شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں کل ملا کر زیر التوا مقدمات کی تعداد پونے بائیس لاکھ ہے۔ اسی طرح ججز کو مراعات دینے کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے پہلے دس ممالک میں ہوتا ہے جب کہ انصاف کی فراہمی میں اس کا نمبر 130 واں ہے۔

پیارے بیٹے! تم بڑے ہو کر خود ہی سب کچھ پرکھ لو گے لیکن تمہیں یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ تم انصاف، قانون اور اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والے اس عظیم اسلامی ملک میں پیدا ہوئے ہو جہاں انصاف کے حصول کے لئے انسان کے پاس حضرت نوح علیہ السلام کی عمر، حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر اور قارون کی دولت لازمی ہونی چاہیے۔

کسی ”کافر“ نے کہا تھا کہ ”انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے“ لیکن ہمارے اسلام کی اس تجربہ گاہ اور جدید ریاست مدینہ میں وکیلوں کی فیسوں کے ساتھ ساتھ عدل کے ایوانوں کی ہر سیڑھی پر کوئی نہ کوئی خرچہ ہے جس کے بغیر آگے نہیں جایا جا سکتا۔

میں تمہیں شرم ساری سے اس ملک کے ایک ”خطر ناک مجرم“ مظہر حسین خواجہ کے بارے میں بتاتا ہوں جو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں 19 سال تک قید کی زندگی کا بوجھ اٹھاتا رہا اور جو جیل میں ہی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر طبعی موت مر گیا۔ اس کی وفات کے دو سال بعد ہماری عزت مآب عدالت عظمیٰ اسے تمام الزامات سے ”باعزت“ بری کر دیتی ہے۔

پیارے بچے! ہمارے گھر کے ہم دیوار ایک غریب اور شریف النفس سید زادے حسین جہانیاں کا گھر ہے۔ ان کے والد مخدوم سید حسن جہانیاں بخاری تمہارے دادا ابو کے دوست تھے۔ 1960 ء کی دہائی میں سید حسن جہانیاں بخاری صاحب نے درگاہ حضرت جتن پیر (جہاں تمہارے دادا کئی سال مقیم رہے ) کی چند ایکڑ وراثتی اراضی کے حصول کا کیس سول کورٹ میں دائر کیا تھا، سول کورٹ سے شروع ہونے والا یہ کیس سپریم کورٹ تک پہنچ کر اب دوبارہ سول کورٹ میں پہنچ چکا ہے۔

سید حسن جہانیاں بخاری پیشیاں بھگتاتے بھگتاتے دنیا چھوڑ گیا اور اب ان کا بیٹا سید حسین جہانیاں ہر ماہ 90 کلومیٹر کا سفر طے کر کے سستے اور فوری انصاف کے حصول کا لطف دوبالا کرنے خان پور جاتا ہے۔ آگے کبھی وکیل نہیں ہوتا اور کبھی جج۔

اے میرے نور نظر! تم ”خوش قسمت“ ہو کہ ”عمرانی“ جمہوریت کے سائے تلے عدلیہ کے ”عہد گلزار“ میں تم نے جنم لیا۔ جس میں عدالتیں مکمل آزاد ہیں اور ان پر کوئی دباؤ نہیں۔

برخوردار! اس ملک میں جہاں تیرہ بخت مخلوق کی زندگی ”گل و گلزار“ کی بجائے ہمیشہ شرمندگی اور درندگی کے درمیان پھنسی رہتی ہے۔ کسی بھی مایوس انسان کے لئے عدالت ہی امید کی آخری کرن ہوتی ہے لیکن یہاں ہمارے قابل احترام منصف مقننہ، مقتدرہ اور سیاست سمیت تمام شعبوں کے اتالیق ہیں اور دہائی دیتے ہیں کہ ہمیں لوک داستانوں کے ”بابا“ کا افسانوی مقام دیا جائے۔ کاش نئے پاکستان کے فضیلت مآب منصفوں کو وقت ملے کہ وہ سکولوں میں قرآن پاک کی تدریس چیک کرنے اور باقی اداروں کو ٹھیک کرنے کے بعد اپنے اداروں پر بھی توجہ دے سکیں۔

رات کافی بیت چکی ہے۔ مجھے صبح جلدی اٹھنا ہوتا ہے۔ باقی باتیں آئندہ خط میں ہوں گی۔
والسلام
تمہارا بابا
نعیم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments