خدا کا حسن انتخاب: انتخاب لاجواب!


جس طرح گلزار ہستی میں پیہم عنبر فشانی میں مصروف گل تر اپنی عطر بیزی کے منابع سے ’ثمر نورس اپنی حلاوت کے ذخیرے سے‘ بور لدے چھتنار اپنی گھنی چھاؤں کی اداؤں سے ’دریا اپنی طغیانی سے‘ حسن بے پروا اپنی حشر سامانی سے ’اٹھتی جوانی اپنی طبع کی جولانی سے‘ سمندر اپنی گہرائی سے ’کلام نرم و نازک اپنی ہمہ گیر گرفت و گیرائی سے‘ شعلہ اپنی تمازت سے ’گفتار اور رفتار اپنے معیار اور نزاکت سے‘ کردار اپنے وقار سے ’جذبات و احساسات مستقبل کے خدشات اور اپنی بے کراں قوت و ہیبت سے‘ نو خیز کونپلیں اپنی روئیدگی سے ’سمے کا سم کے اپنے ثمر سے‘ قوت عشق اپنی نمو سے ’سادگی اپنے در پئے پندار حیلہ جو سے‘ گنبد نیلو فری کے نیچے طیور کی اڑان گھات میں بیٹھے صیاد کی مچان سے ’خلوص و دردمندی اپنی خو سے‘ حریت ضمیر اپنے خمیر سے، موثر تدبیر سوچنے والے نوشت تقدیر سے ’ایثار و عجز و انکسار کی راہ اپنانے والے جذبہ بے اختیار کی پیکار سے‘ حسن و رومان کی داستان جی کے زیاں سے ’جبر کی ہیبت صبر کی قوت سے‘ ظالم کی واہ مظلوم کی آہ سے ’چام کے دام چلانے والے مظلوموں کے ضمیر کی للکار سے اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے فراعنہ جاہ و حشمت کے طومار سے وابستہ حقائق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح ہم اپنے نبی سرور کونین ﷺ شان‘ مقام ’تقدس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہمارے نبی رحمت العالمین ﷺ ہیں۔ جنہیں جن و انس ہی نہیں بلکہ ہر شے اعتراف کرتی ہے۔ ہم غیروں کے پیچھے بھاگ رہے‘ لیکن وہ غیر ہو کر بھی وہ ہمارے نبی ﷺ کی شان اقدس کے متعرف ہیں۔

روسی فلاسفر کاؤنٹ ٹالسٹانی کہتا ہے :

”محمد ﷺ عظیم الشان مصلحین میں سے ہیں، جنہوں نے اتحاد امت کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔ ان کے فخر کے لیے یہی کافی ہے کہ انہوں نے وحشی انسانوں کو نور حق کی جانب ہدایت کی اور ان کو اتحاد، صلح پسندی اور پرہیز گاری کی زندگی بسر کرنے والا بنا دیا اور ان کے لیے ترقی و تہذیب کے راستے کھول دیے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنا بڑا کام صرف ایک فرد واحد کی ذات سے ظہور پذیر ہوا“ ۔

فرانس کے عظیم جرنیل نپولین بونا پارٹ نے حضور کریمﷺ کی ذات کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے : ”محمدﷺ دراصل اصل سالار اعظم تھے۔ آپ ﷺ نے اہل عرب کو درس اتحاد دیا۔ ان کے آپس کے تنازعات و مناقشات ختم کیے۔ تھوڑی ہی مدت میں آپﷺ کی امت نے نصف دنیا کو فتح کر لیا۔ 15 سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کر لی۔ مٹی کی بنی ہوئی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں ’بت خانوں میں رکھی ہوئی مورتیوں کو توڑ دیا گیا۔

حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرتﷺ کی تعلیم کا کہ یہ سب کچھ صرف پندرہ ہی سال کے عرصے میں ہو گیا۔ جبکہ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام پندرہ سو سال میں اپنی امتوں کو صحیح راہ پر لانے میں کامیاب نہ ہوئے تھے۔ حضرت محمدﷺ عظیم انسان تھے۔ جب آپ ﷺ دنیا میں تشریف لائے اس وقت اہل عرب صدیوں سے خانہ جنگی میں مبتلا تھے۔ دنیا کی اسٹیج پر دیگر قوموں نے جو عظمت و شہرت حاصل کی اس قوم نے بھی اس طرح ابتلاء و مصائب کے دور سے گزر کر عظمت حاصل کی اور اس نے اپنی روح اور نفس کو تمام آلائشوں سے پاک کر کے تقدس و پاکیزگی کا جوہر حاصل کیا“ ۔

موھن چند کرم داس گاندھی آنحضرتﷺ کے بارے میں کہتے ہیں : ”اسلام نے تمام دنیا سے خراج تحسین وصول کیا۔ جب مغرب پر تاریکی اور جہالت کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ اس وقت مشرق سے ایک ستارہ نمودار ہوا۔ ایک روشن ستارہ جس کی روشنی سے ظلمت کدے منور ہو گئے۔ اسلام دین باطل نہیں ہے، ہندوؤں کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ بھی میری طرح اس کی تعظیم کرنا سیکھ جائیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ اسلام نے بزور شمشیر سرفرازی اور سربلندی حاصل نہیں کی بلکہ اس کی بنیاد نبی کا خلوص، خودی پر آپ ﷺ کا غلبہ، وعدوں کا پاس، غلام، دوست اور احباب سے یکساں محبت۔ آپ ﷺ کی جرات اور بے خوفی اللہ اور خود پر یقین جیسے اوصاف۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ اس کی فتوحات میں یہی اوصاف حمیدہ شامل ہیں اور یہی وہ اوصاف ہیں جن کی مدد سے مسلمان تمام پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود پیش قدمی کرتے چلے گئے“ ۔

موتی لال نہرو کہتے ہیں : ”سچی توحید نے مسلمانوں کے اندر خوف و جرات ’بے باکی اور شجاعت و بسالت پیدا کر دی اور عزم و ارادوں میں پختگی اس درجہ پیدا کردی کہ پہاڑوں کو اپنی بلندی اور مضبوطی ہیچ نظر آنے لگی۔ سمندروں کا جوش ٹھنڈا ہو گیا۔ توحید کی ایسی تعلیم آپ ﷺنے مسلمانوں کو دی جس سے ہر قسم کے توہمات کی جڑیں کھوکھلی ہو گئیں۔ ہر قسم کا خوف دلوں سے نکل گیا اور یہ سب کس کے سبب تھا۔ اس شخصیت کے جس کو مسلمانوں نے نبی آخر الزماں کہا اور دوسروں نے اس کو بنی نوع انسان کا ایک عظیم رہنما جانا“ ۔

یورپ کا مشہور عالم ٹامس کارلائل حضورﷺ کی صداقت کا ان الفاظ میں اظہار کرتا ہے۔ ”صحرائے عرب کی یہ عظیم شخصیت جنہیں دنیا“ محمدﷺ ”کے نام سے جانتی ہے پاکیزہ روح ’شفاف قلب و بلند نظری اور مقدس خیالات رکھتا تھا۔ جن کو خدا ہی نے حق و صداقت کی اشاعت کے لیے پیدا کیا۔ ہستی کا بھید ان پر کھل گیا تھا۔ آپ ﷺکا کلام خود خدا کی آواز تھا“ ۔

ایک ہندو پروفیسر راما کرشنا راؤ آنحضرتﷺ کو اس طرح خراج عقیدت پیش کرتا ہے : ”آنحضرتﷺ کے کل تک تو پہنچنا مشکل ہے البتہ یہ محمدﷺ جرنیل ہیں ’یہ محمدﷺ بادشاہ ہیں‘ سپہ سالار ہیں ’تاجر ہیں‘ داعی ہیں ’فلاسفر ہیں‘ مدبر ہیں ’خطیب ہیں‘ مصلح ہیں ’یتیموں کی پناہ گاہ ہیں، عورتوں کے نجات دہندہ ہیں‘ جج ہیں ’ولی ہیں۔ یہ تمام اعلیٰ اور عظیم الشان کردار ایک ہی شخصیت کے ہیں۔ ہر شعبہ زندگی کے لیے آپ ﷺ کی حیثیت مثالی ہے“ ۔

سر ولیم میود اپنی کتاب لائف آف محمدﷺ میں لکھنا ہے : ”ہمیں بلا تکلف اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ تعلیم نبویﷺ نے ان تاریک توہمات کو ہمیشہ کے لیے جزیرہ نمائے عرب سے باہر نکال دیا جو صدیوں سے اس ملک پر چھائے ہوئے تھے ’بت پرستی نابود ہو گئی‘ توحید اور خدا کی بے پناہ رحمت کا تصور محمدﷺ کے متبعین کے دلوں میں گہرائیوں اور زندگی کے اعماق میں جاگزیں ہو گئی ’معاشرتی اصلاحات کی بھی کوئی کمی نہ رہی۔ ایمان کے دائرہ میں برادرانہ محبت‘ یتیموں کی پرورش ’غلاموں سے احسان و مروت جیسے جوہر نمودار ہو گئے۔ امتناع شراب میں جو کامیابی اسلام نے حاصل کی اور کسی مذہب کو نصیب نہیں ہوئی“ ۔

ایس مار گولیوتھ رقم طراز ہے : ”آنحضرتﷺ کی درد مندی کا دائرہ انسان ہی تک محدود نہ تھا بلکہ انہوں نے جانوروں پر بھی ظلم و ستم توڑنے کو بہت برا کہا ہے“ ۔ مسٹر ایڈورڈ مونٹے کہتے ہیں : ”آپﷺ نے سوسائٹی کے تزکیہ اور اعمال کی تطہیر کے لیے جو اسوہ حسنہ پیش کیا ہے وہ آپﷺ کو انسانیت کا محسن اول قرار دیتا ہے“ ۔

جوزف جے نوٹن رقم طراز ہیں : ”حضرت محمدﷺ کا مذہب مطلق العنان روس کے لیے بھی اتنا ہی موزوں ہے جتنا جمہوریت پسند متحدہ امریکا کے لیے وہ مناسب و مفید ہے۔ اسلام ایک عالمگیر حکومت کی نشاندہی کرتا ہے اور اسلام کی کتاب قرآن کا موضوع زندگی ہے اور اس میں پوری انسانی زندگی کو سمیٹ دیا گیا ہے“ ۔

مشہور فرانسیسی مورخ موسیو سیدیو نبی کریم ﷺ کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں : ”محمدﷺ یوں تو محض امی تھے۔ مگر عقل و رائے میں یگانہ روزگار تھے۔ ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتے اور اکثر خاموش رہتے۔ طبیعت کے حلیم ’خلق کے نیک‘ اکثر اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے۔ لغویات کبھی زبان سے نہ نکالتے۔ مساکین کو دوست رکھتے۔ کبھی فقیر کو فقر کے سبب سے حقیر نہ جانتے۔ نہ کسی بادشاہ سے اس کی بادشاہی کے سبب سے خوف کھاتے تھے“ ۔

جارج برناڈ شاہ لکھتا ہے : ”میں نے رسول اکرمﷺ کے دین کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ یہ الزام بے بنیاد ہے کہ آپ ﷺعیسائیوں کے دشمن تھے۔ میں نے اس حیرت انگیز شخصیت کی سوانح مبارک کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ میری رائے میں آپ ﷺ پورے بنی نوع انسان کے محافظ تھے“ ۔

ڈاکٹر جی ویل نے حضور اکرمﷺ کی ان الفاظ میں تعریف کی ہے : ”بے شک حضرت محمدﷺ نے گمراہوں کے لیے ایک بہترین راہ ہدایت قائم کی اور یقیناً آپﷺ کی زندگی نہایت پاک صاف تھی۔ آپﷺ کا لباس اور آپﷺکی غذا بہت سادہ تھی۔ آپﷺ کے مزاج میں بالکل تمکنت نہ تھی یہاں تک کہ وہ اپنے متبعین کو تعظیم و تکریم کے رسمی آداب سے منع فرماتے تھے۔ آپﷺ ﷺ نے اپنے غلام سے کبھی وہ خدمت نہ لی جس کو آپﷺ خود کر سکتے تھے۔ آپﷺ بازار جا کر خود ضرورت کی چیزیں خریدتے ’اپنے کپڑوں میں پیوند لگاتے‘ خود بکریوں کا دودھ دوہتے اور ہر وقت ہر شخص سے ملنے کے لیے تیار رہتے تھے۔

آپﷺ بیماروں کی عیادت کرتے تھے اور ہر شخص سے مہربانی کا برتاؤ فرماتے تھے۔ آپﷺ ﷺ کی خوش اخلاقی ’فیاضی اور رحم دلی محدود نہ تھی۔ غرض آپﷺ قوم کی اصلاح کی فکر میں ہر وقت مشغول رہتے تھے آپﷺ کے پاس بے شمار تحائف آتے تھے لیکن بوقت وفات آپﷺ ﷺ نے صرف چند معمولی چیزیں چھوڑیں اور ان کو بھی مسلمانوں کا حق سمجھتے تھے“ ۔

ریمنڈ لیروگ آنخضرت ﷺ کو اس طرح خراج عقیدت پیش کرتا ہے : ”نبی عربیﷺ اس معاشرتی اور بین الاقوامی انقلاب کے بانی ہیں جس کا سراغ اس سے قبل تاریخ میں نہیں ملتا۔ انہوں نے ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھی جسے تمام کرہ ارض پر پھیلنا تھا اور جس میں سوائے عدل اور احسان کے اور کسی قانون کو نہیں ہونا تھا۔ ان کی تعلیم تمام انسانوں کی مساوات ’باہمی تعاون اور عالمگیر اخوت تھی“ ۔

لیفٹیننٹ کرنل سالیکس کہتے ہیں : ”حضرت محمدﷺ کے حالات زندگی پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی انصاف پسند شخص ان کی اولوالعزمی ’اخلاقی جرات‘ نہایت خلوص نیت ’سادگی اور رحم و کرم کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پھر انہی صفات کے ساتھ استقلال و عزم و حق پسندی اور معاملہ فہمی کی قابلیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ یقینی بات ہے کہ آپﷺے اپنی سادگی، لطف و کرم اور اخلاق کو بلا خیال و مرتبہ قائم رکھا۔ اس کے علاوہ شروع سے آخر تک وہ اپنے آپ کو ایک بندہ خدا اور پیغمبر خدا بتلاتے رہے‘ حالانکہ وہ اس سے زیادہ کا دعویٰ کر کے اس میں کامیاب ہو سکتے تھے“ ۔

ڈاکٹر مائیکل مارٹ نے اپنی کتاب ”The Hundred“ میں تاریخ کی 100 ایسی شخصیتوں کا ذکر کیا جنہوں نے دنیا میں انمٹ نقوش چھوڑے۔ اس عیسائی نے 100 ہستیوں میں سب سے پہلے نمبر پر نبی آخر الزمانﷺ کا مبارک تذکرہ کیا۔ وہ لکھتا ہے :کہ میں نے ان سو آدمیوں کا تذکرہ کیا جنہوں نے تاریخ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ان میں سب سے پہلے محمدﷺ کا تذکرہ کیا ہے۔ اس سے بعض لوگ حیران ہوں گے لیکن اس کی میرے پاس ایک ٹھوس دلیل موجود ہے۔

کائنات میں جتنی بھی ہستیاں آئیں اگر ان کے حالات پڑھتے ہیں تو وہ ہمیں اپنے بچپن سے لڑکپن میں کسی نہ کسی استاد کے سامنے بیٹھے تعلیم پاتے نظر آتے ہیں ’جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان تمام ہستیوں نے پہلے مروجہ تعلیم حاصل کی اور پھر اس کو بنیاد بنا کر انہوں نے زندگیوں میں کچھ اچھے کام کر دکھائے لیکن دنیا میں فقط ایک ہستی ایسی نظر آتی ہے کہ جس کی زندگی کی تفصیلات کو دیکھا جائے تو پوری زندگی کسی کے سامنے شاگرد بن کر بیٹھی نظر نہیں آتی۔

وہ ہستی محمدﷺ ہیں۔ یہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے دنیا سے علم نہیں پایا بلکہ دنیا کو ایسا علم دیا کہ جیسا علم نہ پہلے کسی نے دیا اور نہ بعد میں کوئی دے گا۔ لہٰذا اس بات پر میرے دل نے چاہا کہ جس شخصیت نے ایسی علمی خدمات سرانجام دی ہوں میں غیر مذہب کا آدمی ہونے کے باوجود ان کو تاریخ کی سب سے اعلیٰ شخصیات میں پہلا درجہ مانتا ہوں۔ یہ وہ مختصر ترین آراء ہیں۔ ہم کدھر جا رہے یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments