بلدیاتی انتخابات کی آمد آمد


صوبائی الیکشن کمشنر کا اخباری بیان ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے الیکشن کمیشن پنجاب پوری طرح تیار ہے، پہلے سے منتخب بلدیاتی نمائندوں کی مدت رواں سال 31 دسمبر کو ختم ہو رہی ہے، نئے ووٹرز کے اندراج اور تصدیق کی مہم جاری ہے جو کہ 6 دسمبر تک رہے گی، اس سلسلہ میں تمام ضروری سامان اسسٹنٹ رجسٹریشن آفیسرز کے ذریعے تمام تصدیق کنندگان کو فراہم کیا جا چکا ہے۔ صوبائی الیکشن کمشنر کے بیان سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے سلسلہ میں حکومتی سنجیدگی اب واضح نظر آ رہی ہے۔

ویسے بھی سیاسی پرندوں کی ہلچل اور اڑان سے یہ بات عیاں ہے کہ اب بلدیاتی الیکشن کا میدان لگنے کے قریب ہے۔ سیاسی کھلاڑیوں کی جانب سے روٹھے کارکنوں کو منانے، شادی بیاہ و دیگر تقریبات میں شرکت اور جنازوں کو کندھے دینے کا سلسلہ بھی اسی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ جمہوریت کی روح کو سمجھنے والے طبقہ اور ڈیموکریٹک لورز کے لئے یقیناً یہ ایک خوشی کی نوید ہے۔ ویسے بھی بلدیاتی نظام نظرانداز ہونے سے نچلی سطح کے عوام جمہوری سسٹم سے کوسوں دور نظر آرہے ہیں۔

اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں اور مسائل کی خاطر ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ڈیروں کے طواف کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے سیاسی اور سماجی کلچر کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک عام شہری کے لئے ان نام نہاد جمہوری نمائندوں کو ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہی سمجھا جاتا ہے۔ اراکین اسمبلی کے فرائض ویسے بھی آئین کی روح سے بلدیاتی نمائندوں سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ اسی لئے جمہوریت کا صحیح رنگ اور حسن مضبوط بلدیاتی نظام میں ہی پنہاں ہے جس میں ملک کا ہر شہری اپنے ووٹ کی طاقت سے منتخب کروائے گئے بلدیاتی نمائندے کو مسائل کے حل کے لئے باآسانی مل سکتا ہے۔

انگلش میں جسے Easy to approachکہا جاتا ہے والی بات اور یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جمہوریت کا بنیادی تصور انسانی مساوات ہے۔ یعنی یہ اخلاقی اصول کہ تمام انسان رتبے اور حقوق کے اعتبار سے برابر ہیں۔ جمہوریت ہمیشہ انصاف کا تقاضا کرتی ہے۔ جمہوری نظام میں ہمیشہ پچھڑے ہوئے علاقوں، گروہوں اور طبقات کو ترقی کے دھارے میں شریک کرنے کی شعوری کوشش کی جاتی ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ایک موثر بلدیاتی نظام کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔

کچھ عرصہ قبل صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی صاحب نے بھی یہ بیان دیا تھا کہ بلدیاتی نظام سے ہی جمہوریت کا استحکام ممکن ہے۔ انہوں نے صوبائی حکومتوں پر بھی زور دیا کہ وہ بلدیاتی حکومتوں سے متعلق اپنی ذمہ داری فوراً پوری کریں۔ ایک پائیدار بلدیاتی نظام سے ہی جمہوریت مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کی نچلی سطح تک فلاح و بہبود میں مدد ملتی ہے۔ اگر ماضی میں نظر دوڑائی جائے تو سوائے 2001 اور 2005 کے بلدیاتی انتخابات کے علاوہ کبھی بھی باقاعدہ شیڈول کے مطابق یہ الیکشن منعقد ہی نہیں کروائے گئے۔

شاید نچلی سطح تک بسنے والے جمہور تک اختیارات کی منتقلی کا عمل اب تک کی منتخب حکومتوں کی ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہا۔ اس بات کی واضح مثال موجود ہے کہ 2005 کے بلدیاتی انتخابات کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر 10 سال کا عرصہ گزر جانے پر 2015 میں بلدیاتی الیکشن کی باری آئی تھی۔ واضح ہوتا ہے کہ ابھی تک ہماری منتخب حکومتیں بلدیاتی نظام کا کوئی واضح ڈھانچہ تشکیل دینے اور ان انتخابات کو منعقد کروانے کے لئے کوئی باقاعدہ شیڈول ترتیب دینے میں ناکام رہی ہیں حالانکہ ریاست موثر بلدیاتی نظام کی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبوں کو بلدیاتی نظام کی تشکیل کے حوالے سے فوری اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر بلدیاتی نظام میں کچھ خامیاں اور نقائص موجود ہیں تو اس حوالے سے آئین اور قانون میں وسعت لائی جا سکتی ہے مگر محروم اور نچلی سطح پر بسنے والے طبقات کو جمہوری عمل سے کسی صورت بھی دور نہیں جا سکتا کیونکہ آئین پاکستان میں بھی کئی بار مقامی حکومتوں کا ذکر واضح طور پر کیا گیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ جمہوری اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے لئے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد جلد از جلد ناگزیر ہے کیونکہ بلدیاتی ادارے ہی جمہوریت کی جان سمجھے جاتے ہیں جو کہ اختیارات کو گلی کوچوں اور محلوں تک تفویض کروانے میں کلیدی کردار اداکرتے ہیں۔

ویسے بھی جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ عوام کی ملکیت ہوتا ہے، قانون کی نظر میں تمام شہریوں کی برابری اور انہیں جمہوری نظام کا حصہ بنائے بناء جمہوریت کا پودا کسی صورت بھی پروان نہیں چڑھ سکتا، تمام شہریوں کی بہتری، حفاظت اور ترقی کو یقینی بنانا جمہوریت کا حتمی مقصد ہے۔ جمہوری نظام میں تمام شہریوں کو براہ راست یا منتخب نمائندوں کے ذریعے نظام حکومت میں حصہ لینے کا مساوی حق حاصل ہوتا ہے۔ محروم علاقوں اور طبقات کی ترقی و خوشحالی اور نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی صرف اور صرف ایک اچھے اور پائیدار بلدیاتی نظام حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments