افلاطون کی مثالی ریاست: کچھ خیالی، کچھ حقیقت


سپارٹا کے ہاتھوں ایتھنز کی شکست، جمہوریت پسندوں کے ہاتھوں سقراط کی عدالتی موت، سو فسطائیوں کی علم فروشی، مگارا، قیروان، اور سسلی کی

طرف ہجرت اور انسیاس کے ہاتھوں فروخت اور آزاد ہونا جیسے واقعات نے افلاطون کی زندگی میں ایک طوفان برپا کیا تھا، جو ”الجمہوریہ“ اور ”ریاست“ پر منتج ہوا۔

سسلی سے واپسی پر افلاطون نے ایتھنز میں 387، ق۔ م میں Platonic Academy کے نام سے ریاضی، قانون، فلسفہ، منطق، سائنس اور سیاسی نظریات سکھانے کے لیے عوام کے عطیات کے ذریعے ایک اکیڈمی قائم کی جو 529 ع (جسٹینین عہد ) تک فعال رہی۔ افلاطون نے تقریباً زندگی کے تمام شعبوں اور ریاست کے امور کی ازسرنو مثالی تشکیل کی، جو افلاطون کی مثالی ریاست کے نام سے مشہور ہے۔

افلاطون کے مطابق حکومت کرنا صرف عالموں اور فلسفیوں کا حق ہے، اور ایک مثالی مملکت کی بنیاد اخلاق، عدل اور نیکی پر ہونی چاہیے ; جس میں مملکت فرد کی فردیت کی ضامن ہوتی ہے۔ ان کی مثالی ریاست عینی بادشاہت کے طرز پر مبنی ہے۔ وہ جمہوریت کو محض دھوکا، مستقل کشاکش اور فتنہ و فساد قرار دیتا ہے۔ کیوں کہ جمہوریت میں نظریاتی اقلیت کے ساتھ جائز سلوک نہیں کیا جا تا۔

افلاطون کے نزدیک ریاست کے حکمرانوں، محافظین اور سپاہیوں کو ذاتی ملکیت، ذاتی کنبہ، ذاتی زمین، سونا، چاندی اور دیگر جائیداد رکھنے کی اجازت نہیں، کیوں کہ اس صورت میں ان کی توجہ عوام اور ریاست کے مفادات سے ہٹ جاتی ہے۔ ان کے سال بھر کی ضروریات ریاست کی ذمے داری ہو۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کا مخالف اور معاشی اشتمالیت کے حق میں تھے۔ وہ ریاست کے محافظین کو سونا، سپاہیوں کو چاندی اور عوام کو تانبے سے بنے ہوئے تصور کرتے ہیں۔

وہ حکمرانی کے لیے پچاس سال کی عمر ضروری قرار دیتے ہیں، کہ اس عمر میں انسان کا ذہن پختہ، عقل خواہشات سے پاک اور ارادے نیک ہوتے ہیں۔ افلاطون کی شدید خواہش تھی کہ ان کی مثالی ریاست میں سرکاری رقوم کے غبن، جنسی جرائم، غداری، دہریت، بارعت اور مقدس چیزوں کی بے حرمتی کرنے والوں کی سزا، سزائے موت ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ مثالی ریاست میں امن صرف ضبط نفس اور انصاف اپنانے سے ہی ممکن ہے۔ ان کے مطابق ہر شخص کا اپنے ہی فرائض کے دائرہ عمل میں رہ کر دوسروں کے فرائض کے دائرہ عمل میں مداخلت نہ کرنا انصاف ہے۔ انصاف ایک فن نہیں، بل کہ انسانی خوبی ہے جسے غریب کا مفاد کہا جاتا ہے۔

افلاطون کا نظریہ ہے کہ دنیا تغیر پذیر اور فنا پذیر ہے جو چار عناصر (آگ، پانی، مٹی، ہوا) سے مل کر بنی ہے، جس سے اس کی مقصدیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس مقصدیت کو پانے کے لیے روحیں جسم خاکی کے اندر عالم اعلیٰ سے اتر کر آتی ہیں اور دوبارہ عالم بالا کی طرف عود کر جاتی ہے۔ ان کے ہاں کوئی جسم خاکی اکیلا نہیں رہ سکتا۔ تمام انسان اپنی بقا کی خاطر خاندانوں کی شکل میں رہ کر ایک ریاست کو وجود میں لاتے ہیں۔ وہ ریاست لیڈروں کی خواہشات کے بجائے عوامی ضروریات پر استوار ہوتی ہے۔

ایک ریاست میں جب بہت سارے خاندان اکٹھے ہوتے ہیں تو ان مختلف خاندانوں کے مختلف رسم و رواج کے ٹکرانے سے قانون سازی کی ابتدا ہوتی ہے، اور قانون نہ ہونے کی وجہ سے جنگیں جنم لیتی ہیں۔ افلاطون کے نزدیک جنگ، سیاسی بیماری کا دوسرا نام ہے، جو حکمرانوں کی نا اہلی کا ثبوت ہوتی ہیں۔ ان کی مثالی ریاست کا ذریعہ معاش زراعت ہے، معاشی نظام کمیونزم ہے اور کمانے کی ایک خاص حد متعین ہے۔

افلاطون کے دور میں عورتوں کو ثانوی حیثیت دی جاتی تھی; مگر انھوں نے اپنی مثالی ریاست کی تشکیل میں عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دیے۔ وہ عورتوں کو مردوں کی ذاتی ملکیت میں رہنے اور جہیز لینے یا دینے کے خلاف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ عورتوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچے یا بچیاں صرف ریاست کی اولاد تصور کر کے ان کی ماؤں سے الگ کیے جائیں تاکہ تمام بچوں اور بچیوں کے ساتھ یکساں سلوک برتا جائے۔ اس حوالے سے وہ اشتمالیت ازواج کے حق میں تھے، کیوں کہ یہی وہ واحد صورت تھی جس میں عورتیں مردوں کے برابر رہ سکتی تھیں اور عورتوں سے متعلقہ جرائم میں کمی بھی آ سکتی تھی; تاہم افلاطون کا فلسفہ اشتمالیت ازواج کسی حد تک متنازع اور عورتوں کے حقوق کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

مثالی ریاست میں اولاد کی تعلیم و تربیت مفت ہو۔ ان کے ہاں تعلیم بہ ذات خود مقصد نہیں ; بل کہ مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ تعلیم کا حصول ایک انفرادی شخص کی پسند و نا پسند کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے ; بل کہ یہ ریاست کی ذمے داری ہو کہ وہ ہر قیمت پر اپنے شہریوں کو تعلیم یافتہ بنا لیں۔ ان کی تعلیمی پالیسی میں ورزش، کھیل، نیزہ بازی، ادب اور موسیقی بھی شامل ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ پچیس برس سے کمی عمری کی شادی پر پابندی ہو۔

مذہبی لحاظ سے وہ مثالی ریاست کی تشکیل کے لیے ایک خدا اور ایک مذہب کے حق میں تھے۔ ادب و فن ان کے ہاں دو درجے کی نقل ہے اور کامیڈی ادنٰی جذبات کی تشہیر ہے۔ مثالی ریاست میں پچاس سال سے کم عمر شعرا کی گنجایش نہیں، کیوں کہ ان کا کلام جذبات کا برانگیختہ اظہار ہوتا ہے جو مخرب الاخلاق ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ ادب و فن، فلسفے کے ماتحت اور برائے زندگی ہو۔ خطابت پردازی کو وہ نام نہاد جمہور اور سو فسطائیوں کی پیداوار سمجھ کر ناقص اور گمراہ کن قرار دیتا ہے۔

افلاطون کی ”تھیوری آف آئیڈیاز“ بہت مشہور ہے، یعنی انسانی دماغ میں آنے والے ہر طرح کے تصورات و خیالات حقیقت ہیں، جو اپنی ذات میں مکمل اور خود کفیل ہیں۔

افلاطون کے کئی نظریات اب مزید خیالی نہیں رہے۔ مغرب میں نظریہ اشتمالیت ازواج، نظریہ تعلیم، نظریہ انصاف و سزا و جزا اور معاشی اشتمالی نظام پر کسی حد تک عمل درآمد ہو چکا ہے ; لیکن وطن عزیز اب تک قدیم یونانی دور سے گزر رہا ہے اور جانے کس مسیحا کے انتظار میں ہے؟

سرود رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمے از حجاز آید کہ ناید؟
سر آمد روز گار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید؟

سقراط اور افلاطون کو پڑھ کر ایسا لگا جیسا کہ دونوں نے نہ صرف دنیا کا سفر براستہ پاکستان طے کیا ہو ; بل کہ کچھ عرصہ یہاں قیام بھی کیا ہو۔

سقراط: ”اسمبلی احمقوں، ذہنی معذوروں، ترکھانوں، لوہاروں، دکان داروں اور منافع خوروں پر مشتمل ہوتی ہے، جو ہر وقت یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کیسے سستی چیز مہنگے داموں بیچ کر منافع کمایا جا سکے“ ۔

افلاطون: ”عقل و دانش سے عاری سیاست دان ہمیشہ ضیافتوں پر پل کر ادنیٰ سطح پر اتر آتے ہیں۔ جانوروں کی طرح اپنی چراگاہوں پر چرتے ہوئے موٹے ہوتے ہیں، مجامعت کرتے ہیں، مخالفین کو کھروں اور سینگوں سے ٹھوکر مارتے ہیں اور بالآخر مار ڈالتے ہیں۔“

نوٹ: یونان کے اس وقت کے سیاسی، سماجی، عسکری، عدالتی اور اخلاق بگاڑ کی اس وقت کے کسی بھی ملک، معاشرے یا قوم سے اتفاقی مماثلت کا راقم الحروف ذمے دار نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments