ایک دن کا بچہ جلانے کی کوشش اور "شف” کے جوتے کے فضائل


خبر: گلشن حدید میں ایک دن کا بچہ جلانے کی کوشش۔ بچہ آدھا جل چکا ہے۔
رپورٹر اے آر وائے : اپنے ”گناہوں“ پہ پردہ ڈالنے کے لئے بچے کو جلانے کی کوشش۔
______________________________________

گناہ، ثواب، مسلم، غیر مسلم، پاک ناپاک کا انسانی جان اور پیدا ہوئے بچے کو کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ ہم نے بچپن میں اسلامیات کی کتاب میں لکھا ہوا پڑھا تھا ”اللہ ہر انسان کو فطرت میں معصوم پیدا کرتا ہے“ یا یہ رٹا پٹا جملہ کہ ”حج کر کے انسان گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے پیدا ہوا بچہ گناہ سے پاک ہوجاتا ہے“ ۔

انسانوں کے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہوتا کہ گناہ ثواب کا حساب کتاب کریں مگر انسانوں کے ہی ہاتھ میں یہ اختیار ازل سے ہے کہ کس کو جادوگر، بد فطرت، بدعت اور توہین مذہب کے نام پر جلا دیں۔ انسان سے زیادہ خوفناک اور سفاک کوئی درندہ نہیں ہوتا۔ انسان سے زیادہ وحشی اور ظالم بھی کوئی نہیں ہوتا۔ اس بچے کے مجرم صرف وہ لوگ نہیں جنہوں نے اسے جلایا یا وہ جو اسے اس دنیا میں لائے۔ یہ ظالم معاشرہ، یہاں کے منافق لوگ بھی اس کے مجرم ہیں جو کبھی اس کی مدد نہیں کرنے والے۔

ظالم ہونے کے لئے ہاتھ میں ڈنڈا یا تلوار ہونا ضروری نہیں۔ کسی کی مدد نہ کر کے اسے سفاک دنیا کی خوراک بننے دینا بھی ظلم ہے۔ کس نے کہا کہ جو ہڈی توڑے گا صرف وہ ہی ظالم کہلائے گا۔ کچھ نہ کرنے والا، بے حس معاشرہ بھی ظالم ہی تو ہے۔ ایسے کئی بچے ہو چکے اور آئندہ بھی ہوں گے مگر کفار اپنے ملک میں ان بچوں کا ریکارڈ رکھتے ہوئے ان کی بہبود کے لئے ادارے بناتے ہیں۔ ہمارے جمہوریہ میں یہ بڑے ہو کر اپنے جیسوں کو کچرے کے ڈبوں سے اٹھاتے رہیں گے۔

لاوارثوں کو دفنائیں گے یا پھر منافقین کے ہاتھوں اپنا استحصال کروائیں گے۔ ان میں سے کسی کو اپنا درد رونے کی اجازت نہ ہو گی، اپنا درد بتانے کا اختیار بلکہ سوال پوچھنے کا حق نہیں ہو گا۔ ہر پوچھے گئے سوال کے لئے ایک جواب تیار ہے : تم حرامی ہو۔ گناہ کا نتیجہ۔ تم پر ظلم، جبر، تمہیں دبانے اور تمہیں مٹانے کی کوششیں تمہارے جنم کے ساتھ ہی شروع کر دی گئی تھیں۔

ہم سب سے ”پاک“ وطن میں رہنے والے، ”اسلامی“ جمہوریہ کے باسی (شاید باسی اور سڑ چکے) لوگ ہیں جو ایڈاپشن پہ ہزار اعتراض، یتیم بچوں کو حرام کاری کا نتیجہ اور ولدیت، نام، محرم نامحرم جیسے معاملات کو پیچیدہ بنا کر آنے والی نسلوں کو بھی بے حس بناتے رہیں گے۔

ہم جیسے وہمی اور احمقوں کے ہی بازو مروڑنے اور چماٹے کروانے کے لیے لوگ ترکی یا عراق وغیرہ سے بھاگے چلے آتے ہیں، گونگے، بہرے، معذور اور باپردہ بچیاں بھی ان کے آگے پیش کر دی جاتی ہیں کہ زور بازو مذہب کے نام پر آزما لیں۔ کوئی اعتراض نہیں یا ”شف“ والے بابا کو اپنا نیا نکور کراماتی جوتا اٹھا کر دکھانا پڑتا ہے کہ ولی اللہ کا یہ جوتا جن، بھوت، پریشانیاں سب دور بھگا سکتا ہے اسی لیے سبحان اللہ کہنے والے جوتا چوم کر سر پہ کھانے کو تیار ہیں۔

نوٹ: جلتے ہوئے بچے کو بچانے وہی ایدھی والے آئے جسے اہل منبر اور با اثر لوگ ”حرامیوں کو پالنے والا“ اور ”اعضاء کی اسمگلنگ کرنے والے“ جیسے فرد اور ادارے کا خطاب بانٹتے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments