کیا مالا علی کردستانی سب سے بڑے کامیاب بزنس مین ہیں؟


ڈاکٹر مالا علی کردستانی کی شخصیت کا جادو آج کل پاکستان میں عروج پر جا رہا ہے یوں کہہ لیجیے کہ ٹاپ ٹرینڈ پر چل رہا ہے۔ جھاڑ پھونک اور اونٹ کے پیشاب کو اونٹ کے دودھ میں ملا کر کینسر کے علاج کا دعوی کرنے والا یہ بندہ کردستان سے بچ بچا کر سعودی عرب وہاں سے عراق اور آج کل پاکستان میں اپنے فن کا جادو جگا رہا ہے۔ اتنے ملکوں سے نکلنے کی بنیادی وجہ ان کا ٹریک ریکارڈ ہے جو کہ زیادہ موزوں نہیں ہے، سعودی عرب میں اس نے ایک نابینا شخص کی آنکھوں پر لعاب دہن لگا کر بینائی لوٹ آنے کا دعوی کیا تھا مگر مالا علی کو سعودی حکومت نے گرفتار کر لیا تھا اور تفتیش کے بعد بینائی لوٹ آنے کا چکر سارا ڈرامہ نکلا۔

لیکن مالا علی اب (سیف ہیون) یعنی محفوظ پناہ گاہ پاکستان میں پہنچے جہاں پر انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور مقبول سیاسی، روحانی اور مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد سیلفیاں بنیں اور اب یہ یادیں سوشل میڈیا کی زینت بھی بن چکی ہیں۔ ان سے ڈائریکٹ فیض حاصل کرنے والوں میں سرفہرست سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، فردوس عاشق اعوان، طاہر اشرفی اور مفتی کفایت اللہ شامل ہیں۔ ہماری سرزمین اس قسم کے معجزاتی مسیحاؤں کے لئے بہت زرخیز ہے اسی قسم کے مسیحاؤں نے بھوک سے بلکتی قوم کی جیبوں سے صدقہ، خیرات اور رد بلاؤں کی عملیات کی صورت میں کھربوں روپے کما کر اپنی شاہی زندگی کو محفوظ بنایا ہے اور بیمہ پالیسی کی طرح ان کے مرنے کے بعد اس کا ریٹرن ڈبل ٹریپل مقدار میں ان کی نسلوں کو منتقل ہوتا رہتا ہے اور یہ تسلسل مختلف آستانوں کے نام سے برصغیر میں چل رہا ہے۔

اسی جہالت کو کیش کرنے کے لئے اور اپنے کاروبار کے تشہیری اکاؤنٹ میں اضافہ کرنے کے لئے مالا علی نے پاکستان کا رخ کیا۔ اس کے کیریئر کے ٹریک ریکارڈ میں جو فراڈ کا دھبہ لگ چکا تھا اسے ہماری اشرافیہ اور ان پڑھ عوام نے مل کر دھو ڈالا اور اب کردستانی جی کی آنے والی زندگی بڑے آرام سے گزرے گی آخر کار پاکستانی اشرافیہ کی کچھ تو تھوڑی بہت کریڈیبلٹی ہے دنیا میں، ہم بالکل ویلے تھوڑی ہیں۔ ہماری سرزمین جہالت کے پرچارکوں کے لیے بہت مفید ہے اسی معاشرہ میں جن کے نام کے ساتھ صرف ایک (شاہ) لگتا تھا انہوں نے (ٹریپل شاہ) بن کر شہرت کی بلندیوں کو چھوا ہے اور اسے پیسہ عوام اس وجہ سے دیتی تھی تاکہ وہ ان کا پیسہ ڈبل کر کے لوٹائے۔

اس قسم کے بندے کو تو آئی ایم ایف والوں کے پاس بھیج دینا چاہیے تھا تاکہ وہ بھی اس ٹیلنٹ سے فیض یاب ہو جاتے مگر شاید ان کے پاس جانچنے کے لیے وہ نظر یا پیمانہ نہیں ہے جس سے ہمارا خطہ لبریز ہے۔ اسی معاشرہ سے کسی دربار کا ان پڑھ گدی نشین دنوں میں کوٹھیوں اور کاروں کا مالک بن جاتا ہے اور اسی معاشرہ کے باصلاحیت لوگ اپنی بیوی بچوں اور خاندان کا پیٹ کاٹ کر ایسے لوگوں کو دنوں میں شہرت کے مچان تک پہنچا دیتے ہیں۔

یہ اتنے باصلاحیت لوگ ہیں جو ایک معمولی مولوی کو کسی بڑی جماعت کا سربراہ بنا دیتے ہیں جس کے آگے پیچھے درجنوں سکیورٹی گارڈ ہوتے ہیں اور بڑی ٹھاٹھ سے دین کی خدمت کرتے کرتے ایک دن وہ قومی اسمبلی کا رکن بن جاتا ہے۔ اب جس معاشرے سے اتنا کچھ فری میں مل رہا ہو تو بھلا کون پیچھے رہتا ہے۔ کچھ ایسے بندے بھی اپنی چالاکیوں کے بل بوتے پر ماڈرن روحانیت کے نام پر اس معاشرے سے تاوان وصول کر رہے ہیں۔ یہ لوگ جدید وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ری شیپ کر کے پینٹ شرٹ اور کلین شیو گیٹ اپ میں روحانیت کا کاروبار کرنے میں مصروف ہیں۔

یہ معاشرہ کی پڑھی لکھی کلاس پر انگریزی زبانی کی بدولت اپنے ڈورے ڈالتے ہیں اور یہ وہ کلاس ہے جو سوٹڈ بوٹڈ ہے اور روایتی پیر یا مولوی کے چنگل میں پھنسنے کی بجائے ان ماڈرن روحانی صوفیوں کے حلقہ اثر میں شریک ہو جاتے ہیں۔ قصہ مختصر دین کے نام پر دوسروں کو بے وقوف بنا کر لوٹنے والے یہ لوگ بہت چالاک ہوتے ہیں اور یہ کوئی سیدھے سادے لوگ نہیں ہوتے بلکہ بہت ہی ذہین لوگ ہوتے ہیں۔ یہ ایک الگ تھلگ اور نمایاں جگہ پر بیٹھ کر اپنے سامنے بیٹھے ہوئے عوام کی نفسیات کو بڑی گہرائی سے جاننے لگتے ہیں اور اسی نبض شناسی کی بنیاد پر آپ کو ایموشنل فول بنا کر اپنی دنیاوی ضروریات کو بڑے بہتر انداز میں پورا کر لیتے ہیں، ہمیں ماشا اللہ، سبحان اللہ کی تسبیحات میں مشغول کر کے اپنا دنیاوی اسٹیٹس بڑے اچھے سے اسٹیبلش کر لیتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی مالا علی کردستانی گونگے، بہرے، نابینے یا کینسر کا شافی علاج جھاڑ پھونک سے کر سکتا ہے تو پھر پوری دنیا کو اس سے فیض یاب ہونا چاہیے اور اسے مشرقی ممالک کے علاوہ مغربی ممالک میں جا کر بھی اپنی صلاحیت کا جادو جگانا چاہیے اور دنیا کے دکھوں میں کچھ تو کمی لانی چاہیے اور دنیا کے سائنسدانوں کو موقع فراہم کرنا چاہیے کہ وہ اس بندے کا انٹرویو کر کے اپنی تحقیق کا حصہ بنا لیں اور خوامخواہ کی اپنی تجرباتی لیبارٹریاں بند کر دیں تاکہ وہی پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو سکے، مگر کردستانی جی کردستان سے نکل کر سعودی عرب، عراق، پاکستان اور بنگلہ دیش کی یاترا فرماتے رہتے ہیں، یہ ہمیشہ انہی جگہوں پر کیوں جاتے ہیں جہاں کی مٹی ایسی شعبدہ بازی کے لیے زرخیز ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ جتنے لوگ بھی روحانیت اور علم لدنی و باطنی میں مہارت کا دعویٰ رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے جنات اور مؤکلین کو سائنسی لیبارٹریوں میں بھیجیں جو سائنسدان دن رات کائناتی رازوں کو پانے کے لئے ٹکریں مار رہے ہیں وہ جا کر مخفی علم ان کے ذہنوں میں ٹرانسفر کر دیں تاکہ وہ بے چارے بھی زیادہ کھپنے سے بچ جائیں اور باقی کی زندگی اپنے بیوی بچوں میں آرام سے گزار لیں۔ سنجیدگی سے اگر غور کیا جائے تو ایسا ممکن نہیں ہے اور اگر ان شعبدہ بازیوں میں کوئی جان ہوتی تو آج ہمارے روحانی اور دینی رہنما کرونا ویکسین نہ لگوا رہے ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments