بیٹے کے نام خط جو اپنی ماں کو بدکردار سمجھتا ہے



جان مادر آج تم سے کچھ ضروری باتیں کرنا ہیں۔ یہ ایک پیغام بھی ہے میرے جیسی ماؤں کی جانب سے تم جیسے بیٹوں کے نام جو عزت اور کردار کو ایک مخصوص زاوئیے سے دیکھتے ہیں۔

بیٹا! تم نے میری نوکری کے پہلے روز مجھ سے کہا کہ ورک پلیس پر کسی کو یہ مت بتائیے گا کہ آپ کو شوہر نے چھوڑ دیا کیوں کہ لوگ آپ کو بد کردار سمجھیں گے۔ نہایت افسوس ہوا اور صدمہ ہوا کہ ایک بیٹا ماں کے ساتھ، ایک جو قدرت کی طرف سے شرم و حیا کی حد ہے، اس کو پھلانگ کے ایسی بات کیسے کر سکتا ہے۔ سانسیں سینے میں پھنستی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اس قدر تذلیل اور بے عزتی۔ یہ چند الفاظ نہیں تیزاب تھے جو میری برسوں کی محنت کو جھلسا گئے۔ مجھے تم سے اس گھٹیا مرد شاہی سوچ کی توقع نہیں تھی۔ مجھے معلوم ہی نہیں ہوا کہ تم خلیل الرحمن قمر والے اسکول آف تھاٹ سے کب ہوئے یا تم پھر واقعی سمجھتے خود ہی ایسا ہو کہ تمھاری ماں بدکردار ہے۔ لیکن بیٹا کردار کیا ہوتا ہے؟ آج میں تمھیں بتاتی ہوں۔ کردار میں انسان اپنے رشتوں کے ساتھ ایمان دار ہوتا ہے۔ یہ رشتے ہمیں کبھی کبھی بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں بھی ڈال سکتے ہیں۔ خصوصی جب حالات کچھ صحیح سمت میں نہ جا رہے ہوں۔ ایک اچھے کردار کا حامل انسان ہمیشہ اس رشتے کو نباہنا چاہے گا، ہمیشہ کے لیے۔

اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کرے گا۔ اور یہ اتنا ناممکن کام بھی نہیں ہے۔ گو کہ مشکل ہے کہ اپنے کمفرٹ زون سے نکل کر، اس رشتے پر محنت کرنا کہ وہ قائم دائم رہے۔ مگر تم، تم نے کیا کیا۔ میری ساری جائیداد حاصل کرنے کے بعد ، جو کہ میں نے اپنی محبت سے تمھیں دی تھی تم مجھے میرے بھائی کے گھر چھوڑ کر ایسے گئے۔ جیسے کسی مقدس کتاب کے بوسیدہ اوراق کو کوئی پانی میں بہا کے چلا جاتا ہے۔ کہ اٹ ول فائن ڈ اٹس وے۔ اولڈ ہوم میں داخل کرتے زمانے لعنت کا ڈر تھا تمہیں۔

تمھیں احساس ہے کہ زندگی میرے اوپر کس قدر نامہربان ہے۔ اتنی نامہربان کہ گزشتہ چھ سالوں سے زندگی میرے پاس سے گزرتی جا رہی ہے، پھسل رہی ہے اور میں اسے محسوس نہیں کر پا رہی ہوں۔ زندگی کو محسوس نہ کر پانے کا درد یا اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اتنی زیادہ تنہائی جو تم نے مجھے بخشی ہے۔ اس تنہائی نے مجھے جذباتی طور پر کتنا توڑا ہے کہ میں مکمل طور پر ادویات کے سہارے پر ہوں۔ جو سائیکاٹرسٹ نے تجویز کی ہیں۔

اور بیٹے! یہ تمھاری بخشش ہیں۔ میں گھر کے ہوتے، گھر کی بادشاہت کے لئے ترسائی گئی ہوں۔ ویسے تو عورت ہمیشہ سے ہی خانہ بدوش ٹھہیری مگر اس ہجرت کا دکھ برداشت سے باہر تھا۔ 33سال کی تھکن سے بے حال جیسے اب کسی بیابان میں ننگے سر، ننگے پاؤں کھڑی تھی اور جب میں شدید بیمار ہوئی۔ تو اس دوران تم نے ایک دفعہ بھی میرا پتہ نہیں کیا کہ میری طبیعت کیسی ہے؟ میں مر گئی ہوں۔ زندہ ہوں۔ میں کیا محسوس کر رہی ہوں۔ میں کتنی جسمانی تکلیف میں ہوں۔

ہاں! البتہ جب میں نے تمھیں رپورٹس بھیجیں ڈاکٹر کی۔ ان کو دیکھنے کے بعد تم نے مجھے فون کر کے کہا کہ ایسی ویسی عورتوں کو ایسی بیماریاں تو ہو ہی جاتی ہیں۔ کیا مطلب ایسی ویسی؟ میں جیسی ہوں۔ ایسی ہوں یا ویسی ہوں۔ بیٹے! وہ میری زندگی ہے۔ میں نے کبھی تمھاری زندگی میں، تمھاری پرسنل سپیس کو وائلیٹ نہیں کیا۔ تو تم میری پرسنل سپیس کو وائلیٹ کرتے ہوئے مجھے ایسی یا ویسی۔ کیسی بھی، کیسے کہہ سکتے ہو؟ تمھیں یہ حق بالکل نہیں حاصل۔

یوں نہیں کہ اگر تم میری خبر گیری نہیں کر سکتے ہو تو اس لیے تمھیں یہ حق حاصل نہیں ہے۔ نہ بیٹا! یہ حق تمھیں ویسے بھی حاصل نہیں ہے کہ تم میرے ساتھ اس طرح سے گفتگو کرو۔ اچھے کردار کے لوگ تو بہت پولائٹ ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کے لیے ریسپیکٹ شو کرتے ہیں، اینڈ دے مائنڈ دیئر اون بزنس۔ یہی کہتے ہو نا تم جب میں کسی گھریلو مسئلے میں مداخلت کرتی ہوں تو۔ اب میرا وقت تھا کہ جس محبت اور شفقت کے ساتھ میں نے تمھیں پالا، اسی محبت سے اب تم مجھے تھام لیتے۔

لیکن تم نے زیور نہ دینے پر مجھے کہا کہ میں اپنا خرچہ خود اٹھاؤں۔ تو بیٹے میں اتنی عزت دار ہوں کہ میں نے اپنا کمانا شروع کر دیا۔ مگر تم نہیں سمجھو گے کہ ایک عورت کی عزت محض جسمانی ہی نہیں سوچ اور جذبات کی بھی ہوتی ہے۔ بالکل مرد کی طرح لیکن تمہارے دوہرے معیار نے تم سے وہ کریہہ الفاظ کہلوائے۔ اعلی کردار کے حامل لوگ اپنی جنراسٹی دکھاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ غنی ہوتے ہیں، دوسروں کے لیے۔ چاہے وہ محبتیں ہوں۔ چاہے وہ فکر ہو۔

چاہے وہ علم ہو۔ چاہے وہ مادی اشیاء ہوں۔ زمین ہو، جائیداد ہو، روپیہ ہو، پیسہ ہو، وقت ہو۔ وہ ہر چیز دوسروں میں بانٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ کجا یہ کہ تمھارے پاس اپنی ماں کے لیے ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا۔ اور، یوں نہیں ہے کہ تمھیں ہر وقت میری دکھ میں آنسو بہاتے رہنا تھا یا تمھیں اپنا مستقبل میری خاطر داؤ پہ لگانا تھا۔ لیکن کم از کم اس وقت، جس وقت مجھے تمھاری ضرورت ہو اس وقت تمھیں میرے لیے کھلے دل والا ہونے کا مظاہرہ کرنا لازم تھا۔

کہاں یہ کہ میں بیمار پڑوں تمھارے گھرانے کا فرد ہوتے ہوئے، تمہاری ماں ہوتے، تمہاری ماں ہوتے ہوئے، تو خود ہی جا کے اسپتال داخل ہو جاؤں۔ خود ہی وہاں سے علاج کروا کے ڈسچارج ہو کے پھر تمھارے پاس آ جاؤں۔ اچھے کردار کے لوگ ہمیشہ تمیز کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تم تو میری طرف میری دوائیاں بھی غصے سے پٹخ کر جاتے تھے۔ تم تو میرے کمرے کا دروازہ بھی دھڑ کر کے بند کرتے تھے۔ کھا جانے والی نظروں سے دیکھنا، درشت لہجے میں بات کرنا، کیا یہ اخلاقیات ہیں؟

کیا یہ ہے کردار؟ جب کہ ان چیزوں پر، میں نے احتجاج بھی کبھی نہیں کیا۔ کیوں کہ مضبوط عورت احتجاج نہیں کرتی بلکہ وہ اپنے لیے راستہ بناتی ہے۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی۔ اور میں نے بھی وہی کیا۔ پھر اب جو راستہ میں نے اختیار کیا ہے۔ اس کے لیے مجھے کوئی الزام نہ دو۔ جہاں سے مجھے وقت محبت میرے ہونے کا احساس، مجھے یہ چیزیں ملیں گی۔ میرا جھکاؤ اسی طرف ہی ہو گا۔ سیلفش ہو جانا بہت آسان کام ہے۔ لیکن اچھے کردار کے مالک لوگ سیلفش نہیں ہوا کرتے۔

وہ دوسروں کے بارے میں سوچتے ہیں جب کوئی فیصلہ کرنے لگتے ہیں۔ تم نے تو جتنے بھی فیصلے کیے۔ اپنے حق میں درست اور میرے حق میں غلط۔ تم نے کبھی بھی ایسا نہیں سوچا کہ کیا ان فیصلوں میں میری سہولت، میرا آرام، میری خوشی کچھ بھی شامل ہے؟ جب دل چاہا تمھارا، جو دل چاہا تمھارا، تم نے میرے فیصلے کیے۔ تم نے کہا ہلکے رنگ کے کپڑے پہنو۔ کیوں مجھ پر یہ فیصلہ مسلط کیا کہ میں شوخ رنگ نہیں پہن سکتی۔ کیوں کہ وہی بات کہ میں ایک چھوڑی ہوئی عورت ہوں۔

کیوں تم نے میرے لیے یہ فیصلہ کیا کہ میں بال نہیں رنگ سکتی۔ کیوں کہ میں چھوڑی ہوئی عورت ہوں۔ کیوں تم نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے کسی قسم کی کوئی تفریح نہیں چاہیے۔ میں نے تو بس مصلا پکڑنا ہے اور اللہ اللہ کرنی ہے۔ کیوں کہ میں ایک چھوڑی ہوئی عورت ہوں۔ اللہ اللہ کرنا عبادت ہے۔ وہ میرا اور میرے خدا کا معاملہ ہے۔ وہ اس چیز کے ساتھ مشروط نہیں ہے بیٹے کہ میں چھوڑی ہوئی عورت ہوں یا میں ایک ایسا انسان ہوں جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ کسی کی اپنائی ہوئی ہستی۔

مجھے میرے فیصلے خود کرنا ہے کہ مجھے زندگی میں کیا کرنا ہے۔ کیوں کہ ابھی میں فیصلوں کے قابل ہوں۔ اور میرے کسی بھی فیصلے سے ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ تمھاری ریپوٹیشن خراب ہو۔ مجھے اس چیز کا پورا احساس ہے کہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں۔ وہاں ریپوٹیشن ایک بہت بڑی چیز ہے۔ اور میں تمھاری ریپوٹیشن کو خراب نہیں کر سکتی۔ اس چیز کا مجھے حق ہی نہیں ہے کہ تمھارے نام پر کوئی بٹا میری وجہ سے لگے۔

اور بیٹا! اگر لگتا بھی ہے تو اس چیز کو یاد رکھنا کہ میرے لیے تم اور تمھارے جیسوں کی بنائی ہوئی اس سوسائٹی نے چھوڑا ہی کیا ہے؟ کہ اگر میں کسی بھی قسم کا کوئی بھی ایسا یا ویسا کام کرتی ہوں۔ تو بیٹے! وٹ ادر آپشن از لفٹ۔ کیا قبول کرو گے؟ اپنے دوسرے پاپا کو؟ دوسری جائز ناجائز ماؤں کو تو قبول کر لیا ہے۔ نہیں بیٹے! ون آن ون بیٹھ کے ہم دونوں کے درمیان اس کے بارے میں گفتگو ہوئی تھی۔

ایک اچھے کردار کا حامل منافق نہیں ہو سکتا۔ میں منافق نہیں ہوں۔ مجھے سچ بولنا اچھا لگتا ہے۔ مگر میرے سچ بہت زیادہ کڑوے ہیں۔ میں دوغلا پن نہیں کر سکتی ہوں۔ میں جو محسوس کرتی ہوں۔ وہ میں بیان کرتی ہوں۔ جو گزرتی ہے وہ لکھتی ہوں تاکہ میری جیسی خواتین اپنی بہتری کے بارے میں سوچیں۔ یہ تو بتاؤ کتنا عرصہ پہلے تم مسکرائے تھے، مجھے دیکھ کر؟ بیٹا! تم میرے پاس سے گزرتے ہوتے تھے اور مجھے جن نظروں کے ساتھ دیکھتے تھے وہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتیں۔

میرا جرم کیا ہے؟ میرا جرم صرف اتنا ہے کہ میں نے جینا چاہا ہے۔ اس جینے کے لیے تم مجھے افورڈ نہیں کر پا رہے تھے یا کرنا نہیں چاہتے تھے؟ یقیناً تم مجھے اپنے تسلط میں رکھنا چاہتے تھے۔ نوکری کرنے سے میں قدرے آزاد اور خوش محسوس کرنے لگی۔ پھر میں جو ایک دفعہ مر ہی گئی تھی، جینا شروع کر دیا۔ میں نے اپنے لیے خوشیاں تلاش کرنا شروع کر دیں۔ کیوں کہ ہمارے یہاں تو چھوڑی ہی عورت کے لیے صرف ایک ہی آپشن رکھی گئی ہے کہ وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی زندگی کی ہر خوشی سے دور ہو۔

اس کے اندر نہ سوال پیدا ہوتے ہوں نہ اس کے پاس کوئی جواب ہوں۔ وہ بس مٹی کا ایک پتلا ہو اور اس کا سر جھکا ہوا ہو۔ بیٹے! تمھارے اس رویے کی وجہ سے مجھے گھر میں ہر طرف دیواروں پہ بھی آنکھیں ابھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ بڑی بڑی پتھر کی آنکھیں، مجھے گھورتی ہوئی۔ اور یوں بھی نہیں تھا کہ اس سیچوایشن کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جب میں برداشت کر رہی تھی تو اس وقت تم ان چیزوں کو ٹھیک کر سکتے تھے۔ جب میں تمھیں ہلکے پھلکے انداز میں سمجھا رہی تھی، بتا رہی تھی یا میں کسی انداز سے یہ شو کرتی تھی کہ میں ان کمفرٹیبل ہوں، تمھارے اس رویے کے ساتھ۔ تمھارے اس منفی رویے کے ساتھ۔ تو تم اسے امپروو نہیں کر سکتے تھے۔ تمھارے اور میرے بیچ کیا دوستی کا رشتہ پیدا نہیں ہو سکتا تھا؟ اولاد ماں کی سب سے بڑی دوست ہوتی ہے۔ مگر تم مجھے رعیت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ کیوں؟ اس وقت شریعت کے تمام اسباق بھول گئے جب میری قبلہ و کعبہ کی طرح تکریم کرنا تھی تمھیں۔

بیٹے تم نے مجھے بہت فارگرانٹڈ لیا۔ تمھیں میرے مرنے سے، میری خوشی، غمی سے کوئی غرض نہ رہی۔ پھر یوں تھا کہ ایک پوائنٹ آ جاتا ہے کہ جہاں انسان بری طرح سے ٹوٹ جاتا ہے۔ میں ٹوٹ گئی۔ دوبارہ سے کھڑے ہونے میں، جڑنے میں، بننے میں، پتہ نہیں اب دوبارہ کتنا وقت لگنے والا ہے۔ اور ایک اچھے کردار کا شخص معاف کر دیتا ہے۔ تم میری خطائیں معاف کرو یا نہ کرو۔ میں نے تمھاری خطائیں معاف کیں۔ کہ بہتری کی طرف قدم اٹھانا ہی، صلہ رحمی کرنا ہی اچھے کردار کی نشانی ہے۔ بیٹا ایک ماں ہونے کے ناتے میں نے تمھیں معاف کیا۔ لیکن ایک چھوڑی ہوئی عورت تمھیں معاف کرتی ہے یا نہیں۔ اس کا تو بیٹے اب مجھے بھی نہیں پتا۔ فقط وہ عورت جس کی نسبت سے روز قیامت تمھیں پکارا جائے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments