تعصبات کا مارا ہوا انسان: انوکھا ہندو اور نرالا مسلمان


ہم سنی تھے، اہل بیت سے عقیدت و محبت کا دعویٰ بھی تھا، لیکن ہماری مجلسیں حسن و حسین کے فضائل کے ذکر تک محدود رہیں۔ زین العابدین، محمد باقر اور جعفر صادق وغیرہم آل فاطمہ کی عظیم شخصیات ہماری تحقیق، تصنیف اور تقریر کا موضوع نہیں بن سکیں۔ گویا ان بزرگوں کی حیات میں ہمارے لیے ”الحکمۃ“ کی دریافت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ عربی ادب کے نصاب میں امرء القیس جیسے فحش گو اور نبوت کے دعویدار متنبی کے دو اوین کو شامل نصاب کرنے سے ہمیں پرہیز نہیں رہا لیکن ”نھج البلاغة“ جیسا شاہکار ہمارے نصاب کا حصہ نہیں بن سکا۔

ہم شیعہ تھے، ہم نے گنتی کے چند اصحاب رسول اور اہل بیت کے بارہ ائمہ کے علاوہ تمام صحابہ، تابعین اور اہل سنت کے ائمہ کی سیرت کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ ان کی زندگیوں میں ہمیں برائیوں کے علاوہ کوئی ایک اچھائی نظر نہیں آئی۔ گویا ہم نے مان لیا کہ ان کی زندگیوں میں ”الحکمۃ“ کے وجود کا امکان نہیں ہے، لہذا وہ ہمارے مطالعہ سے خارج قرار پائے۔

گزشتہ ایک صدی میں ہم بریلوی بنے، دیوبندی بنے، وہابی بنے، تحریکی بنے اور ”الحکمۃ“ کو اپنے اپنے فرقوں میں محدود اور منحصر قرار دے دیا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ حقیقی صورت حال سے ناواقفیت بدگمانیوں اور دشمنیوں کا سبب بنتی ہے ہم نے ایک دوسرے کی حقیقت سے آگاہی کو عبث خیال کیا۔ اور اسی کے ساتھ اتحاد ملت و وحدت امت کا راگ بھی الاپتے رہے۔

ندوہ کے ”عباسیہ ہال“ میں پہلی بار جب جانا ہوا تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہاں ایک بڑے سے بورڈ پر ہندوستان کے اکابر فقہاء کی فہرست میں سب سے پہلا نام مولانا احمد رضا خان بریلوی کا تھا اور اس کے سامنے ان کے تحقیقی فقہی رسالہ کا نام لکھا تھا ”کفل الفقیہ الفاہم فی بیع قرطاس الدراہم“ ۔ اسی طرح عقیدہ کے موضوع پر مولانا ابوالحسن علی ندوی نے کتابچہ ”رسالۃ التوحید“ میں تعظیمی سجدہ کی حرمت پر بحث کے حاشیہ میں مولانا احمد رضا خان بریلوی کے رسالہ ”الزبدۃ الزکیہ فی تحریم سجود التحیۃ“ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ موصوف نے سجدۂ تعظیمی کے حرام ہونے پر ڈیڑھ سو دلائل دیے ہیں۔

زندگی میں ایسے مراحل آتے ہیں جہاں پہنچ کر شدت سے محسوس ہوتا ہے ”الحکمۃ“ نہ کسی ایک دائرہ میں محدود ہے اور نہ ہی کسی ایک شخصیت میں محصور، نہ اس پر منحصر۔ پھر ایسا ہوتا ہے کہ عنایت اللہ مشرقی اور غلام جیلانی برق بھی شجر ممنوع نہیں رہ جاتے ہیں، جبکہ گزرے وقتوں میں مولانا بریلوی، تھانوی، مودودی اور وحید الدین خان بھی اپنے فرقوں کے خول میں رہتے ہوئے زہر لگتے رہے ہیں۔ اس کے بعد بات عہد نامہ قدیم و جدید /تورات اور انجیل سے ہوتے ہوئے شریمد بھاگود گیتا اور رامائن تک جا پہنچتی ہے۔

عین ممکن ہی نہیں، واقعہ ہے کہ متعدد اچھائیاں تمام بڑی کتابوں اور شخصیات کا قدر مشترک ہیں۔ اس کا مفاد یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک میں پڑھنے اور دیکھنے کے بعد کسی دوسری کتاب یا شخصیت میں کسی سچائی کی دریافت بے سود ہے یا ایسا کرنے سے پہلی کتاب یا شخصیت کی قدر و قیمت اور مقام و منزلت پر حرف آ جاتا ہے، بلکہ اس کے بر عکس متعدد تائیدی حوالہ جات کسی دانائی پر ایمان و ایقان کو مزید پختہ کر دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ”کلمة سواء/نقطۂ اتحاد“ کا ادراک و انکشاف ہوتا ہے، یعنی یہ بات علم میں آتی ہے کہ مختلف مذاہب یا فرقے اختلاف کے باوجود کن امور پر متحد ہو سکتے ہیں۔ قرآن نے اہل کتاب یہود و نصاری کو اس قسم کے اتحاد کی دعوت دے کر مسلمانوں کے لیے نظیر قائم کر دی ہے۔

کسی بھی کتاب کے مطالعہ کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا ہے کہ بلا تمیز اس کے رطب و یابس کو قبول کر لیا جائے، اسی طرح کسی دین دھرم کے مطالعہ سے انسان بے دین یا مرتد نہیں ہو جاتا۔ بلکہ اس کا مقصد ”الحکمۃ“ کی تلاش ہوتا ہے جو اہل ایمان کا کھویا ہوا خزانہ ہے۔ مثال کے طور پر راجہ دسرتھ نے اپنی بیوی کیکئی کے ساتھ کیے گئے اپنے عہد کی جس طرح پابندی کی، شری رام چندر نے اپنے والد کی طرف سے بغاوت کرنے اور بزور شمشیر حکومت پر قبضہ کرنے کا اشارہ پانے کے باوجود باپ کی زبان کے احترام کو قائم رکھنے کے لیے جن حالات میں بن باس قبول کیا اور بھرت نے اپنے بڑے بھائی رام چندر کے احترام میں جس طرح ان کی کھڑاؤن کو تخت شاہی پر رکھنا ضروری سمجھا اور ان کے ”حق حکومت“ کی حفاظت کرتا رہا؛ باپ بیٹے اور بھائیوں کے درمیان قابل تقلید رشتوں کو سمجھانے کے لیے ان مثالوں کو بیان کرنے اور دہراتے رہنے سے موحدین کے لیے ایمان و عقیدہ میں بھلا کون سا خلل پیدا ہو سکتا ہے! ما قبل تاریخ کی شخصیات ہیں، بعض لوگوں کے بقول اگر یہ خیالی قصے بی ہیں تو بھی مذکورہ کردار کے قابل تقلید ہونے سے کون انکار کر سکتا ہے۔

شری رام چندر جی کی شان میں علامہ اقبال کے قصیدہ کے ساتھ یہ مضمون ختم ہوتا ہے، علامہ نے انہیں امام ہند اور چراغ ہدایت لکھا ہے، اس قصیدہ کے لیے علامہ کو سات توپوں کی سلامی دی جانی چاہیے :

رام

لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند
سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے رام ہند

یہ ہندیوں کی فکر فلک رس کا ہے اثر
رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند

اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت
مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ہند

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند

اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانہ میں شام ہند

تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments