جسٹس ثاقب نثار کا مقدمہ عوامی عدالت میں


عوامی عدالت کوئی آئینی عدالت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے کوئی خاص قواعد و ضوابط مرتب کیے گئے ہیں۔ عوامی عدالت آئینی عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم بھی قرار نہیں دے سکتی مگر پھر بھی اس کے فیصلوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس کے فیصلے پاکستان کے قانونی جریدوں پی ایل ڈی یا پی ایل جے وغیرہ میں شائع تو نہیں ہوتے مگر تاریخ کی کتابیں ان کو ضرور محفوظ کیے ہوئے ہوتی ہیں۔ عوامی عدالتوں کے فیصلوں کی بنیاد پر سزا و جزا سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا اور زمانے نے دیکھا ہے کہ عوامی عدالتوں سے سزا یافتہ عوام میں اپنی عزت کبھی بحال نہیں کر پائے۔ عوامی عدالتوں کے فیصلوں کی بنیاد ”آواز خلق نقارہ خدا“ کے اصولوں پر ہوتی ہے۔

ثاقب نثار صاحب پاکستان کی عدلیہ کے اعلیٰ ترین عہدے پر رہے اور آج کل ان کو سنگین الزامات کا سامنا ہے اور الزامات لگانے والے بھی اہم شخصیات ہیں اور آئینی اداروں کے عہدیداران اور سربراہان رہ چکے ہیں۔ بظاہر ان کو قانونی اور آئینی اداروں سے کوئی خطرہ نہیں مگر عوام عدالت میں ان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ثاقب نثار کو پاکستان کی تاریخ کا متنازع تریں جج کہا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید تو کی ہے مگر محض تردید کافی نہیں بلکہ عوامی عدالت میں سرخرو ہونے کے لئے تفصیلی اور جامع حکمت عملی کے ذریعے تمام الزامات کا مدلل جواب دینا ہو گا جن کے اندر الزامات کو جھوٹا ثابت کرنے کے مدلل شواہد موجود ہوں۔

ثاقب نثار صاحب کو اپنے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے خلاف شہادتوں کے جواب دینے چاہیں، چاہے وہ عوامی اجتماعات میں پوچھے گئے سوالات ہوں یا کسی صحافی کر طرف سے وضاحتی بیان لینے کے لئے رابطہ ہو۔ ان کو وہ وقت یاد کرنا چاہیے جب وہ عوام کے اندر جانے، میڈیا اور صحافیوں سے رابطے کا شوق رکھتے تھے اور اپنے آپ کو بابا رحمتے سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز ایک وکیل سے شروع کیا اور سیکرٹری لاء بھی رہے، جیسا کہ وہ جانتے ہیں کہ وکیل کبھی بھی سوال و جواب سے نہیں گھبراتے۔ ان کا تو ویسے بھی یہ اپنا وتیرہ رہا ہے اور وہ سمجھتے بھی ہیں کہ اس طرح کے لگائے گئے الزامات پر جواب دینا قانونی اور اخلاقی فرض بھی بنتا ہے۔

ثاقب نثار صاحب چونکہ اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ رہ چکے ہیں اور ان سے زیادہ قانون اور قانونی تقاضوں کو کون جانتا ہو گا اور ان کی خاموش رہنے کی حکمت عملی کو بھی غلط نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جب الزامات کا کوئی مدلل قسم کا جواب نہ ہو تو خاموش رہنا ہی مفید ہوتا ہے مگر ان کے نادان دوست ان کی اس حکمت عملی کو بھی ناکام کر رہے ہیں اور وہ اس موضوع کو خاموش نہیں ہونے دے پا رہے۔ جن لوگوں کو ان کے الزامات سے فائدہ حاصل ہونے والا ہے وہ تو ان کا پرچار کریں گے ہی مگر جن کو نقصان ہونے کا خدشہ ہے وہ ان کی صفائی میں اپنے گناہ دھونے کے چکر میں ان کو خواہ مخواہ بحث میں گھسیٹ رہے ہیں۔

انکے اوپر لگائے گئے الزامات کو محض ان کی ذات تک محدود بھی نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ ان الزامات میں ان کا کردار ایک اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ کا تھا اور الزامات میں کئی دوسرے آئینی اداروں کے عہدے داران کے کردار پر بھی شکوک شبہات اٹھ رہے ہیں اور اس طرح کے الزامات سے اداروں کے تقدس اور ساکھ کو متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور اس طرح کے الزامات قومی جرم کے زمرے میں آتے ہیں۔ اور ایسے الزامات کی انکوائری اور اس پر فیصلہ اداروں کے وقار اور بقاء کا مسئلہ بن جاتا ہے۔

مختلف حلقوں کی طرف سے اس پر ٹروتھ کمیشن بنانے اور اس معاملے پر تحقیق کے مطالبات بھی سامنے آرہے ہیں اور یہ مطالبات ہیں بھی جائز کیونکہ اگر ان الزامات کو سچ ثابت کر لیا جائے تو ان سے اور ان کے کئی دوستوں سے آئینی حلف اور حدود کی خلاف ورزی ہوئی ہے جو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ قومی اور ریاستی جرم کے زمرے میں آتا ہے اور جس کے سنگین نتائج ہیں اور آئین اور قانون اس کی سنگین سزا بھی متعین کرتا ہے۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کے کچھ نادان دوست اور خیر خواہ ان کے لئے زیادہ مشکلات پیدا کرر ہے ہیں۔ کل ایک اسلام آباد بار کی خاتون ممبر وکیل نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کی مدد لے لئے توہین عدالت کے جرم کی دفعات کے تحت مریم نواز اور شاید خاقان عباسی کے خلاف پٹیشن دائر کی اور اس طرح اسلام آباد ہائی کورٹ سے ایک وضاحت کے ذریعے عوام کے اندر پائے جانے والے ایک خوف اور جھجک کو بھی ختم کروا دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جج جناب اطہر من اللہ نے کہا

”ججز قانون اور احتساب سے بالاتر نہیں، توہین عدالت کا قانون ججز کو نہیں بلکہ مقدمہ کے فریقین کی حفاظت کے لئے ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جوڈیشل آفس چھوڑنے پر جج عدلیہ اور عدالت کا حصہ نہیں رہتے، سابق چیف جسٹس کو ان کی ذاتی حیثیت میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ذاتی حیثیت میں تنقید پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی“ ۔

معزز جج کے تحریری فیصلہ کے بعد عوام کے اندر بچا کھچا جج کے متعلق کچھ کہنے کا بھرم بھی ختم ہو گیا کہ وہ عوامی بحث سے تحفظ کا حق نہیں رکھتے بلکہ ذاتی حیثیت میں ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور اس طرح سے انہوں نے ایک طرح سے ان کا مقدمہ عوامی عدالت میں بھیج دیا ہے۔

فاضل جج نے قانون کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کوئی سمجھے کہ اس کی عزت پر حرف آیا ہے تو

”ریٹائرڈ جج ہتک عزت پر پرائیویٹ شہری کے طور پر عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ ججز کا کام انصاف کی فراہمی ہے۔ ججز کو عوامی تنقید سے استثنا حاصل نہیں ہے“

ہاں اس میں انہوں نے ثاقب نثار کی حکمت عملی کو بھی سراہا کہ
”ایک آزاد جج تنقید سے کبھی بھی متاثر نہیں ہوتا“

انہوں نے توہین عدالت کے قانون کی مزید وضاحت دی کہ

”توہین عدالت کی کارروائی صرف اور صرف عوامی مفاد میں عمل میں لائی جاتی ہے۔ ایک پرائیویٹ شخص کی ہتک عزت پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں بنتی۔ قانون میں پرائیویٹ شخص کی عزت کی حفاظت کے لئے دیگر شقیں موجود ہیں“

ہاں اگر ثاقب نثار چاہیں تو اپنی توہین میں لگائے گئے الزامات کو چیلنج کر سکتے ہیں اور الزامات لگانے والی شخصیات اور ان الزامات میں مہیا کیے گئے ثبوتوں کی تصدیق کرنے والے اداروں کو بھی اپنے مقدمے میں فریق بنا سکتے ہیں اور ان کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ بھی کر سکتے ہیں۔

مگر یہ ان کا اپنا آزادانہ انتخاب ہے اگر وہ چاہیں تو اس کو عوامی عدالت سے اٹھا کر کسی آئینی عدالت میں لے جا سکتے ہیں اور اسی طرح اعلی عدلیہ جس کے وہ اس وقت سربراہ تھے ان کے پاس بھی یہ انتخاب موجود ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اس مقدمہ کو عوامی عدالت سے اٹھا کر اپنی آئینی عدالت میں لے جائیں اور اس طرح اس پر اٹھنے والی آوازوں کو ادارے کو مہیا کیے گئے توہین عدالت کے قانون کے حصار میں لے آئیں اور اس پر تحقیق کے بعد مدلل فیصلہ جاری کر دیں جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور جس کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

بات محض ان کے اور ان کے ادارے کے انتخاب کی ہے اور ان کو تمام تر سہولتیں بھی حاصل ہیں اور ان کو اس نظام پر مکمل اعتماد بھی ہونا چاہیے جس کا وہ حصہ رہے ہیں اور یقیناً ہو گا بھی اور ان کو کسی بھی فورم سے نا انصافی کا ڈر نہیں تو ان کو چاہیے کہ مطالبات کے جواب میں اپنے مقدمے کو عوامی عدالت سے اٹھا کر کسی آئینی ادارے یا اس کے بنائے ہوئے فورم پر لے جائیں اور اپنے آپ کو عوامی عدالت کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔

ابھی بھی وقت ہے وگرنہ عوامی عدالت کے لئے ارشد ملک کی وڈیو، جیف جج رانا شمیم کے حلفی بیان اور مبینہ آڈیو ٹیپ جیسے شواہد جن کا سلسلہ ابھی جاری ہے کا محض پر اسرار خاموشی کی بنیاد پر نظر انداز کر دینا ممکن نہیں۔

اور اگر ثاقب نثار صاحب یا ان کا ادارہ عوامی عدالت سے اٹھا کر کسی آئینی عدالت یا اس کے بنائے ہوئے کسی فورم پر لے جانے کے انتخاب کو نہیں چنتا تو پھر بہرحال مقدمہ عوامی عدالت میں ہے اور عوامی عدالت اپنے فیصلے کا حق رکھتی ہے اور ایسے عوامی عدالت کے کئی فیصلوں کی ایک لسٹ ہے جو کسی قانونی جریدے کا حصہ تو نہیں مگر تاریخ پاکستان کا حصہ ضرور ہیں اور جن کو قانون کی تعلیم دینے والے اداروں میں پڑھایا بھی جاتا ہے اور بڑے بڑے مباحثوں میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان بھی ریفرنس کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ ایک بڑی لسٹ ہے جس میں مولوی مشتاق، جسٹس منیر احمد وغیرہ کے وہ متنازع فیصلے ہیں جن پر عوامی عدالت نے بعد میں حاصل ہونے والے شواہد کی بنیاد پر فیصلے دیے اور کوئی سمجھے یا نہ سمجھے تاریخ اور عوام تو سمجھتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments