تعصبات کا مارا ہوا انسان: انوکھا ہندو اور نرالا مسلمان


اسرائیل، ایران اور سعودی عرب وغیرہ چند ایسی مذہبی ریاستیں ہیں جن کی آبادی کا غالب ترین حصہ کسی ایک خاص مذہب یا فرقہ سے تعلق رکھتا ہے اور ان کے قوانین متعلقہ مذہب یا فرقوں کی دینی و فقہی ہدایات پر استوار ہیں۔ وہاں سماجی نظم و نسق کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، اسی طرح وہ ممالک جن کے عوام سیکولر ازم پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے قوانین بھی سیکولر ہیں، وہاں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے علاوہ وہ ممالک جن کی آبادی کا بیشتر حصہ مسلمانوں، عیسائیوں، بدھسٹوں یا کمیونسٹوں پر مشتمل ہے، ان میں سے بعض کا آئین جزوی طور پر مذہبی میلان رکھتا ہے اور بعض مذہب مخالف ہیں، ان میں سے جن کے شہری تعلیم یافتہ اور تہذیب سے بہرہ ور ہیں وہاں انتظامیہ کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا اور جہاں کے عوام تعلیم یافتہ و مہذب نہیں ہیں ان ممالک میں حاکموں کے ڈنڈے اتنے مضبوط اور سبک ہیں کہ کوئی سر اٹھانے کی جسارت ہی نہیں کرتا۔ لہذا ان ممالک میں انتظامی بحران پیدا نہیں ہوتا ہے، حکمرانی آسان ہے اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

ہندوستان کی بد قسمتی کہا جانا چاہیے کہ ایران، سعودی عرب اور اسرائیل کی طرح شدید قسم کا مذہبی ملک ہونے کے باوجود اس کا آئین مذہبی نہیں ہے اور نہ مکمل سیکولر ہے۔ اس کے شہری سیکولر نہیں ہیں اور سیکولر ازم کو پسند بھی نہیں کرتے ہیں، ہندو متعصب ہندو ہیں اور مسلمان شدت پسند مسلمان۔ تعلیم یافتہ اور مہذب بھی نہیں ہیں۔ اور نہ ہی قانون و انصاف کا ڈنڈا اتنا مضبوط اور تیز ہے کہ وہ باگھ اور بکری کو ایک ساتھ ایک گھاٹ پر پانی پلا سکے۔

اس کا تنوع اس کے لیے وبال جان بن گیا ہے، جسے حسن کہا جاتا ہے وہ بد نما داغ بن چکا ہے۔ سماج میں امن و آشتی کا بحران روز مرہ کا معمول ہے۔ یہاں نہ حکومت کرنا آسان ہے نہ ہی راوی چین لکھ سکتا ہے۔ ایک شخص یا ایک سیاسی جماعت کا انفرادی مسئلہ نہیں ہے، اجتماعی درد سر ہے۔ اندرا بدقسمت ٹھہریں جنہیں اپنی جان گنوانی پڑی۔ گو کہ راجیو کو تمل ٹائیگرس نے مروایا لیکن شاہ بانو اور بابری مسجد کی قفل کشائی کی الجھنوں اور تہمتوں نے سکھ کا سانس انہیں بھی نہیں لینے دیا، نرسمہا راؤ مسلمانوں کی نظر میں ملعون اور اپنی پارٹی میں مردود قرار دیے گئے، واجپائی پارٹی کے اصول اور منشور سے سمجھوتہ کرتے ہوئے دامن بچا کر نکل گئے اور منموہن ”حادثاتی وزیر اعظم۔ Accidental Prime Minister“ کا تمغہ لے کر رخصت ہوئے۔ گزشتہ سات سال سے نریندر مودی ”نیک نامیاں“ بٹور رہے ہیں۔ کل کلاں راہل وزیر اعظم بنے تو انہیں اپنے باپ اور دادی کے مقابلہ زیادہ مشکل حالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

مشکل حالات کے لیے کسی ایک مذہبی اکائی کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لگتا ایسا ہے کہ بندروں کے ہاتھ میں سیکولر ازم اور ڈیموکریسی کا استرا تھما دیا گیا ہے۔ ہر گروہ دوسرے کا منڈن کرنے کے لیے بے تاب ہے، کسی کو اپنے بڑھے ہوئے بال نظر نہیں آتے ہیں۔

ہندووں کی طرف سے رام نومی کے موقع پر سڑکوں پر اسٹیج سجائے جاتے ہیں، اشتعال انگیز نعروں کے ساتھ اسلحہ بردار جلوس نکالے جاتے ہیں، درگا پوجا اور دسہرہ کے موقع پر چھوٹے بڑے تمام شہروں میں ایک سے زیادہ سڑکوں پر کم سے دس دن کے لیے پنڈال لگائے جاتے ہیں، شب و روز لاؤڈ اسپیکر پر بھجن گائے جاتے ہیں اور ریکارڈنگ چلائی جاتی ہے، ہولی کے موقع سے پیدل چلنے والوں اور سائکل سواروں پر رنگوں کی پچکاری ماری جاتی ہے، بسوں اور ٹرینوں سے سفر کرنے والوں پر کھلی ہوئی کھڑکیوں سے پولیتھین میں باندھ کر گندا پانی اور رنگ پھینکا جاتا ہے، کبھی کبھی اور کہیں کہیں چلتی گاڑیوں کی کھڑکیوں اور دروازوں پر پتھر بھی مارے جاتے ہیں، اسی طرح دیوالی میں بے تحاشا شور آور آتش بازیاں کی جاتی ہیں۔ یہ تمام اعمال وہ اپنا حق سمجھ کر انجام دیتے ہیں، کیوں کہ وہ اکثریت میں ہیں۔ ہندوستان ان کی ”دویہ بھومی“ ہے، ان کی پوجنیہ ماں ہے، وہ اس کے پتر اور حقیقی وارث ہیں۔

دوسری طرف اس طبقہ کی مذہبی بالادستی کے بے لگام جذبہ کی داستان کچھ یوں ہے کہ ایک طرف وہ ”سرو دھرم سمبھاؤ یعنی سارے مذاہب یکساں ہیں“ کا پرچار کرتے ہیں اور دوسری طرف تمام دیگر مذاہب کو اپنے اندر جذب کر لینے کی معصوم خواہش انہیں چین سے بیٹھنے بھی نہیں دیتی ہے۔ ان کی ضد ہے کہ ہندوستان کے تمام باشندے ہندو ہیں، کیونکہ ان کے پوروج/پرکھے ایک ہیں، لہذا سبھوں کو چاہیے کہ ان کی مقدس یاتراؤں میں شریک ہوں، ان کے پاکیزہ مقامات کی زیارتیں کریں اور ان کے تہوار منائیں۔

اس سے کم پر وہ راضی نہیں ہیں اسی لیے کھلے بندوں ”شدھی کرن اور گھر واپسی“ کی تحریکیں چلاتے رہتے ہیں۔ ان کا یہ جذبہ بہت پرانا ہے، اسی کے تحت انہوں نے ”جین دھرم“ اور ”بدھ دھرم“ کو اپنی ہی زمین میں اجنبی بنا دیا، جبکہ ان دونوں مذاہب کے پیروکار بر اعظم ایشیا کے دوسرے ملکوں میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اسلام اور مسیحیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جب وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہندوستان نے تمام مذاہب کا کھلی بانہوں کے ساتھ استقبال کیا ہے تو سمجھنا چاہیے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔

مسلم حکومتوں کے تحت تحفظ کے احساس نے ”ورن“ یعنی ہندوانہ طبقاتی نظام کے ذریعہ ستائے گئے نچلے طبقہ کے لوگوں کو اسلام میں پناہ لینے پر مجبور کیا اسی طرح برطانوی سامراج کے دور میں بہت سے دبے کچلے لوگ مسیحیت میں داخل ہو گئے۔ تبدیلیٔ مذہب کے اس عمل میں تبلیغ و ترغیب سے زیادہ ہندوانہ طبقاتی نظام کے مظالم کا دخل تھا۔ براہمنوں کے پاس سیاسی و عسکری طاقت نہیں تھی لہذا وہ اسے روک بھی نہیں پائے۔ اپنی تمام سابقہ محرومیوں کے ازالے اور ناتمام آرزوؤں کی تکمیل کے لیے موجودہ جمہوری سیکولر نظام کو وہ اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں، جس میں وہ کبھی کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں اور کبھی ناکام۔ موجودہ حالات بڑی حد تک ان کے حق میں ہیں۔

دوسری طرف مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ اسلام نے انہیں ایک مکمل ضابطۂ حیات عطا کیا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ بر صغیر کے مسلمانوں سے زیادہ بے ضابطہ زندگی گزارنے والی کوئی دوسری قوم نہیں ہے۔ محرم کی دس راتیں، ربیع الاول کی بارہ راتیں، گیارہویں کی گیارہ راتیں اور شب برات کی ایک شب بڑے شہروں کی سڑکوں پر ، بعض جگہوں پر انتظامیہ کی اجازت سے اور بعض مقامات ہر بلا اجازت، برپا کیے جانے جلسے اور نکالے جانے والے شکتی پر درشن کے جلوس اور ان سب میں ضرورت سے بہت زیادہ آواز کے ساتھ مائک کا استعمال، اسی طرح رمضان کی تیس راتوں میں بعض سڑکوں پر خورد و نوش اور دیگر اشیاء کی دکانوں کا اس کثرت سے کھولنا کہ وہ کسی سواری کے لیے آمد و رفت کے قابل ہی نہ رہتیں، اسی طرح مسلم اکثریتی آبادی میں ذی الحجہ کے موقع سے برتی جانے والی بے احتیاطیں اور سال بھر اکثر شہروں میں سڑکوں پر جمعہ کی نماز، مسلمان یہ سارے بے ضابطہ کام سیکولر جمہوری ملک میں برادران وطن ہندووں کی طرح اپنا آئینی حق سمجھ کر کرتے ہیں۔ جبکہ یہ تمام بجا یا بے جا اعمال کسی ضابطۂ حیات رکھنے والی قوم کو زیب نہیں دیتے۔ صرف یہ بول کر دامن نہیں بچایا جا سکتا کہ دوسرے کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں۔

حالیہ دنوں گرو گرام (گڑگاؤں ) میں درجنوں عوامی مقامات پر جمعہ کی نماز ادا کرنے کے سلسلہ میں جو تنازعہ پیدا ہوا، وہ حیرت انگیز نہیں تھا۔ نماز کے لیے جگہوں کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری میں شامل نہیں ہے۔ حکومت نے ایک سو سے زیادہ عوامی مقامات پر نماز کی اجازت دی، تحفظ فراہم کیا، لیکن آبادی کے دوسرے طبقہ کو اس پر اعتراض ہوا تو انتظامیہ نے اجازت واپس لے لی۔ قطع نظر اس بات سے کہ فریق ثانی کے احتجاج کے پس پشت عوامل کیا تھے، عوامی مقامات پر اجتماعی عبادات کا روکا جانا معمول کا انتظامی عمل ہے۔

اس معاملہ میں تھوڑی دیر کے لیے ہندووں کی جگہ مسلمانوں کو رکھ کر سوچنا چاہیے۔ کیا مسلمان کسی بھی ایسے شہر میں جہاں ان کی اکثریت ہے تسلسل کے ساتھ ہمیشہ کے لیے درجنوں عوامی مقامات پر ہندوؤں کی ہفتہ وار پوجا کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکتے ہیں! نہیں۔ ہندوستان کا ہندو ہو یا مسلمان، تہذیبی و ثقافتی لحاظ سے تا حال اتنا پختہ اور بالغ نہیں ہو سکا ہے، خاص کر مسلمان اس معاملہ میں کچھ زیادہ ہی تنگ دامن ہیں۔ مثال کے طور پر ایک خبر یہ آئی کہ کسی سکھ نے گرودوارے میں اور ایک ہندو نے اپنے گیرج میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی پیش کش کی ہے۔

بات اچھی ہو تو اچھی لگنی چاہیے لیکن خوشی کے اظہار سے پہلے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا وقت پڑنے پر مسلمان بھی سکھ قوم کو عبادت کے لیے اپنی مسجد پیش کر سکتے ہیں؟ کم از کم ایسے ہندووں کو جو بت نہیں پوجتے، پوجا کے لیے اپنا گیرج دے سکتے ہیں؟ محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی مسجد میں نجران کے عیسائی وفد کو عبادت کی اجازت دے دی تھی، لیکن آج کے ہندوستانی مسلمانوں کی دینی غیرت ساتویں آسمان پر ہے وہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔

ان کی دینی غیرت کا عالم یہ ہے کہ اپنی مسجدوں کے دروازوں پر اپنے فرقوں کے نام لکھوا رکھتے ہیں کہ مبادا کسی دوسرے فرقہ کا مسلمان ہماری مسجد میں داخل ہو کر اسے ناپاک نہ کر دے۔ کوئی غلطی سے داخل ہو جائے تو مسجد دھلوائی جاتی ہے۔ اس بے غیرت قوم کی دینی غیرت اپنے ہی مذہب کے دوسرے فرقے کے مردوں پر بھی رحم نہیں کرتی، ممبئی میں ایک پلاٹ ایسا بھی دیکھا جو حکومت کی جانب سے قبرستان کے لیے دے دیے جانے کے باوجود صرف اس لیے خالی پڑا تھا کہ بریلوی اور دیوبندی اس پر قبضہ کے لیے جھگڑ پڑے تھے اور معاملہ عدالت میں تھا۔

آئین سیکولر ہو، حکومت سیکولر ہو، برادران وطن سیکولر ہوں لیکن ہم مسلمان سیکولر نہیں ہوں گے اور ایک سو سے زیادہ عوامی مقامات پر نماز کے لیے جگہ بھی چاہیے وہ بھی ہندو اکثریتی علاقہ میں، یہ بھی عین ممکن ہے کہ اجازت مل جائے تو آنے والے دنوں میں دیوبندی بریلوی امامت کے مسئلہ پر جھگڑیں اور ایک پارک میں ایک کے بعد ایک دو جماعت ہونے لگے۔ اس مسئلہ کا بہترین حل مسلمان چاہتے تو خود نکال سکتے تھے وہ اس طرح کہ میرج ہال اور فارم ہاؤس ہفتہ وار ایک دو گھنٹہ کے لیے کرایہ پر لیتے اور سکون سے نماز ادا کرتے۔ سال بھر کا معاہدہ ایک ہی بار کر لیتے۔ گڑگاؤں میں مسلم آبادی نہیں ہے لہذا مسجد بنانا مناسب نہیں ہے۔

بر صغیر کے مسلمانوں کے درمیان تعصب صرف سیاست اور سماج تک ہی محدود نہیں ہے۔ مذہبی تعصب میں بھی ان کا ثانی کوئی نہیں ہے۔ الحکمة ضالة المؤمن انى وجدھا ہو احق بھا ”دانائی اہل ایمان کا کھویا ہوا خزانہ ہے، جہاں کہیں اسے پائے اس کا پہلا حق دار وہی ہے“ محمد رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ بالا فرمان سے صاف ظاہر ہے کہ دانائی کسی ایک مذہب یا خاص فرقہ میں کلی طور پر محدود اور منحصر نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اسے ”جہاں کہیں“ پائے جانے کی بات نہیں کہتے بلکہ معین طور پر نشاندہی فرما دیتے اور تاکید فرما جاتے کہ اس کی تلاش میں کہیں اور سر کھپانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔

ابتدائی صدیوں میں مسلمانوں نے اس رہنمائی کی روشنی میں ”الحکمۃ“ کی تحصیل اور نشر و اشاعت میں قابل قدر کارنامے انجام دیے۔ جس کے نتیجہ میں چند فرقے ضرور پیدا ہوئے جنہیں محدود معنی میں اجتماعیت کا نقصان شمار کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کی افادیت کا پہلو لا محدود اور غالب رہا۔ بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ مسلمان خود ساختہ خول میں بند ہوتے چلے گئے۔ برصغیر کے دینی طبقہ میں خاص طور پر یہ مرض عام ہو گیا۔ دیگر مذاہب کی کتابیں اور ان کے اکابرین کی تخلیقات و تصنیفات سے کیا خاک استفادہ کرتے، اپنے ہم مذہب فرقوں کے اکابرین کی تحقیقات سے مسلم علماء خود بھی محروم رہے اور اپنے طلبہ و عوام کو بھی محروم رکھنا ضروری سمجھا۔ تعلیمی اداروں اور معاشرہ میں کسی بھی دوسرے فرقہ کے خلاف اتنا زہر بھر دیا گیا کہ طلبہ اور مطالعہ کا شوق رکھنے والے عوام کولہو کے بیل کی طرح ایک خاص دائرے میں گھومتے رہنے کے عادی ہو گئے، انہیں ”گمراہ کن“ کتابوں کے مطالعہ سے باز رکھنے کے لیے علماء کو اضافی زحمت اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments