اسیر خوف


” زیبی! بیٹا پاپا کے لئے سوپ بنا دو۔“ ماما نے مجھے تیسری مرتبہ آ واز دے کر کہا، وہ نومبر کی ایک اداس، تھکی ماندی سہ پہر تھی اور میں چائے کا مگ ہاتھ میں لئے جانے کب سے سوچوں میں گم بیٹھی تھی کہ ماما کی آ واز سنائی ہی نہ دی۔ انٹر کے امتحانات کے بعد میرے شب و روز آج کل گھر پہ ہی بسر ہو رہے تھے۔ اسکول بند ہونے کی وجہ سے گیارہ سالہ فاران بھی گھر پہ ہی ہوتا تھا۔

” شور مت کرو، کتنی دفعہ منع کیا ہے، پاپا کی ابھی ابھی آ نکھ لگی ہے۔ امی اب دالان میں بال کو دیوار پر مار مار کر کھیلتے فاری کو ڈانٹ رہی تھیں۔

میں آہستگی سے اٹھی اور کپ اٹھا کر کچن میں جانے لگی۔ ”فاری! تم چاہو تو میرے ساتھ کچن میں آ جاؤ۔“ میں نے دھیرے سے کہا، فاران منہ بسورتا میرے پیچھے چلنے لگا۔ امی واپس پاپا کے کمرے میں جا چکی تھیں۔ اس مختصر سی ہلچل کے بعد صمدانی ولا پھر سے اداسی اور خاموشی کی چادر اوڑھ کر سو گیا۔

” آپی! پاپا کب ٹھیک ہوں گے؟ فاری نے کا ؤنٹر پر اچھل کر بیٹھتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔
” دیکھو۔ انشاء اللہ جلد ہی۔ اللہ بہتری کرے گا۔“
” آپی۔ کیا ماما ہماری سگی ماما نہیں؟“
” یہ کس نے کہا تم سے۔ کیوں فالتو باتیں سوچتے رہتے ہو“ ، میں نے فاری کو گھورا۔

” پھر وہ ہم سے گھلتی ملتی کیوں نہیں، محبت کا اظہار نہیں کرتیں، اور ماؤں کی طرح ہمارے لئے فکر مند نہیں ہوتیں۔ وہ صرف پاپا ہی کے لئے پریشان ہوتی ہیں۔ ان کی priority list میں ہم اتنا نیچے کیوں ہیں؟“

فاری کے سوالات کا سلسلہ پھر سے دراز ہو گیا تھا۔

” فاران! جان! وہ بیمار ہیں، کئی مرتبہ سمجھا چکی ہوں، وہ ہمیں توجہ نہیں دے پاتیں، البتہ ہمیں ان کو توجہ دینا ہوگی۔“

” مگر پاپا۔ پاپا پر تو وہ جان چھڑکتی ہیں ان کا خیال بھی رکھتی ہیں۔ پھر ہمارا احساس کیوں نہیں۔ ؟“
اب کی بار میرے پاس اس کے لئے کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔
۔ ۔

مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ماما نے کبھی مجھے یا فاران کو گلے لگا کر ، پیار کیا ہو۔ جب تک نینی زندہ رہیں، یہ جذباتی کمی کسی حد تک پوری ہوئی۔ نینی کے انتقال کے وقت میں دس سال اور فاران پانچ سال کا تھا۔ فاری کو نینی اور ان کی شفقت کافی حد تک یاد تھی جبکہ میرا تو سارا بچپن ہی ان کی محبت کی حرارت کے سنگ گزرا تھا۔ نینی! میری پیاری نانی ماں! مجھے مامتا کے روپ سے آشنا کروانے والی۔ سوچتی ہوں اگر نانی ماں نہ ہوتیں تو ہمارا بچپن کتنا سرد، منجمد اور ویران ہوتا۔

وہ ہماری زندگی میں ہلکی ہلکی حرارت دینے والا چراغ سحری تھیں۔ اسی احساس نے مجھے فاران کے لئے بہت کم عمری سے ہی حساس بنا دیا تھا، میں حتی المقدور اس کا خیال رکھتی، اس سے لاڈ جتاتی، اور ماما کے سرد رویے کی تلافی کرنے کی اپنی سی کوشش کرتی۔ اسی لئے فاران بھی مجھ سے شروع ہی سے ایک خاص لگاؤ رکھتا تھا۔ اور سچ پوچھیں تو ہم دونوں کا ایک دوسرے کے سوا تھا ہی کون۔

ماما! صباحت شکیل! ان دیکھے وسوسوں، خوف اور ہراس کا شکار! میں مانتی ہوں کہ وہ بیمار تھیں مگر اتنی نہیں کہ اپنی کائنات کے دو بے نام سیاروں کو نظر انداز کر کے صرف اپنے سورج کے مدار پر گردش کریں۔

پاپا! شکیل صمدانی! وہ مدہم پڑتا سورج جو اپنی مدہم توانائی صرف قریبی سیارے تک محدود رکھتا ہے۔ اور کہیں دور، دو ٹھٹھرتے سیارے روشنی اور حرارت کے لئے ترستے ہی رہ جاتے ہیں۔

۔ ۔

میں چھوٹی سی تھی جب نینی نے مجھے بہت سی تلخ حقیقتوں سے روشناس کروا دیا تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ میں بہادر بنوں اور زندگی کا مردانہ وار مقابلہ کروں اسی لیے انہوں نے مجھے میری عمر سے بڑی باتیں بھی بتا دی تھیں، وہ جانتی تھیں کہ وہ تاعمر میرے ساتھ نہیں رہ سکتیں اس لیے انہوں نے مجھے اپنے آپ اور فاران کو سنبھالنے کے گر سکھا دیے تھے۔ میری زندگی کے شروع کے دس سال زیادہ تر نینی کے گھر ہی گزرے تھے فاری مجھ سے پانچ برس چھوٹا تھا وہ بھی زیادہ تر میرے ساتھ ہی ہوتا تھا نینی دھیمے دھیمے لہجے میں بولنے والی سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔ ان کی آواز کی بازگشت آج بھی مجھے اپنے کانوں میں گونجتی محسوس ہوتی ہے۔

” زیب! بیٹا زندگی میں کبھی کسی چیز کو اپنے حواس پر سوار مت کرنا۔ شاید یہ ہمارے اختیار میں میں نہیں ہوتا، مگر اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنا قید جسمانی ہو، روحانی یا نفسیاتی انسان کھو کھلا کر دیتی ہے۔ سب صلاحیتیں کھا جاتی ہے۔“ نینی دھیرے دھیرے بولتی چلی جاتیں اور میں حیرت سے ان کے پاس لیٹی ان کی باتیں سنا کرتی۔ اس وقت میری عمر نو برس رہی ہوگی جب مجھے نانی ماں کی زبانی بہت سی باتوں کا ادراک ہوا۔ میرے ماں باپ نے اپنے اپنے خاندان سے بغاوت کر کے، اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف چھپ کر نکاح کر لیا تھا۔

نہ ماما نے اپنے چچا زاد سے منگنی کی پروا کی اور نہ بابا نے ذات برادری اور خاندانی رسوم و رواج کی۔ اس کے نتیجے میں دونوں کو خاندان کی طرف سے مکمل بائیکاٹ سہنا پڑا۔ اس وقت ان کی طوفانی محبت ہر قسم کے نتائج اور نفع نقصان سے بے پروا تھی۔ البتہ جب ماما کے والد کو نکاح کی خبر سے ہارٹ اٹیک ہوا جو ان کی جان ہی لے گیا تو ماما کو بھی اس وقت پہلا panic attack ہوا۔ نینی اور ماما کے دونوں بھائیوں نے ان سے ہر ناتا توڑ کر گھر کے دروازے ان پر ہمیشہ کے لئے بند کر لیے۔

پاپا کے خاندان نے بھی ان سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ سو ماما پاپا نے ایک نسبتاً غیر آباد علاقے میں اپنی چھوٹی سی دنیا الگ تھلگ بسا لی۔ شروع کے کچھ سال تو پاپا کو اپنے خاندان سے شدید جانی خطرات بھی لاحق رہے جن سے وہ کبھی پوری طرح آزاد نہ ہو سکے۔ یہاں صرف وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی ذات کا محور تھے۔ کسی تیسرے کی ان کی زندگی میں گنجائش نہ تھی۔ حتیٰ کہ شادی کے پانچ سال بعد ہونے والی پہلی اولاد، میں، زیب النسا بھی نہیں۔

” تمہاری ماما اس وقت تنہا تھیں۔ کچھ وقت کے دھارے، کچھ خون کی کشش اور کچھ اصل سے زیادہ سود کی چاہت نے ہمارے رشتے پر جمی برف پگھلا دی، اور رفتہ رفتہ صباحت سے تعلق کی ڈور پھر سے جڑ گئی۔ تمہاری ماں اس وقت کچھ post partum اور کچھ اعصابی کمزوری کی وجہ سے بہت مجبور ہو گئی تھی۔ وہ ہر وقت روتی رہتی، اپنے والد کی موت کا ذمہ دار بھی خود کو ٹھہراتی۔ گھر سے باہر نکلنے سے شدید خوفزدہ رہتی۔ لیکن بہرحال اس کی اور شکیل صمدانی کی محبت تب بھی روز اول کی طرح تازہ تھی۔ میں اس کی حالت کے پیش نظر تمہیں اپنے گھر لے آئی۔ اس وقت تک میرے دونوں بیٹے بھی بیرون ملک سیٹل ہوچکے تھے اور میں گھر میں ملازموں کے ساتھ تنہا ہی ہوتی تھی۔“

نینی کی بے نقاب کی گئی سچائیاں اور ماضی بہت تکلیف دہ تھا مگر اس سے مفر ممکن نہیں تھا۔

” بس! پھر تم اور تمہارے پانچ سال بعد آنے والا فاران زیادہ تر میرے ہی پاس رہے، صباحت باہر نہیں نکلتی تھی اور شکیل کے آنے کے بعد اس کا سارا وقت اسی کے لئے مختص ہوتا۔ اس کی کائنات میں کسی تیسرے کی گنجائش کبھی رہی ہی نہیں۔ لیکن اس میں اس کا بھی اتنا قصور نہیں، وہ Agoraphobia کا شکار ہے۔ تم دونوں اسے معاف کر دینا۔“

ایگورا فوبیا سے میری پہلی آشنائی نینی کے ذریعے ہی ہوئی اور پھر ہمیشہ ہی وہ میرے مقابل رہا۔ نینی کی باتیں سنتے سنتے فاری تو ہمیشہ سو جایا کرتا مگر میں گھنٹوں سوچا کرتی۔ پتہ نہیں نینی نے یہ سب ہمیں بتا کر اچھا کیا یا برا! میں کبھی فیصلہ نہیں کر پائی۔ لیکن ان کی محبت ساری تشنگیاں بھلا ضرور دیتی۔

۔

پاپا کے کھانسنے کی آواز سے میرے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ ماما گھبرائی ہوئی سی ان کے کمرے سے باہر نکل رہی تھیں ”ماما! کیا ہوا طبیعت زیادہ خراب ہے کیا پاپا کی؟“ میں نے فکر مندی سے پوچھا۔

” زیبی! تم جلدی سے oximeter لاکر دے دو ۔ پتہ نہیں کہاں رکھ کر بھول گئی۔“
اچھا! ابھی لائی! میں تیزی سے oximeter کی تلاش میں بھاگی اور ماما کو لا کر پکڑا دیا۔
” ماما! اسپتال فون کردوں، ایمبولینس بلا لیں۔ ؟“

” قطعی نہیں زیبی! تمہیں پتہ ہے ناں وہ آئسولیٹ کر دیں گے۔ میں شکیل کے بنا کیسے رہوں گی۔ اور گھر میں مکمل خیال اور علاج ممکن ہے تو اسپتال کیوں جائیں۔“

ماما اندر کمرے میں جا چکی تھیں۔ میرا بڑا دل چاہ رہا تھا کہ میں دور ہی سے سہی پاپا کو کسی جھری سے ہی ایک نظر دیکھ لوں مگر ماما نے سختی سے ہدایت کی ہوئی تھی کہ میں اور فاری کمرے کے قریب بھی نہ پھٹکیں کہ یہ وائرس انتہائی متعدی ہے اور پھر بیڈ روم کا بند دروازہ اور کھڑکیوں پر دبیز پردے مجھے کمرے کے احوال سے بے خبر رکھ رہے تھے۔

” ماما آپ پاپا کے ساتھ کمرے میں کیسے رہ رہی ہیں۔ آپ کم از کم اپنا کمرہ تو الگ کر لیں۔ ہم سب مل کر ان کا خیال رکھیں گے مگر ان کو مکمل quarantine کرنا ہو گا۔“

پاپا کا ٹیسٹ مثبت آنے پر میں نے ماما پر زور دیتے ہوئے کہا تھا۔

” زیب النساء مجھے کچھ نہیں ہو گا۔ ساری عمر تمہاری پاپا سے کبھی الگ نہیں ہوئی تو اس حالت میں کیسے ان کو چھوڑ دوں، ویسے بھی میں نے ڈبل ماسک، گلوز سمیت تمام ایس او پیز کا خیال رکھا ہوا ہے“

”پھر بھی ماما! یہ وبا آپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اور پاپا بھی تو اصرار کر رہے ہیں کہ آپ کمرہ تبدیل کر لیں۔“ اب کی بار فاران نے ماما کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔

” فاران! میں نے کہہ دیا ناں کہ کچھ نہیں ہو گا مجھے۔ اب مزید بحث نہیں“ ۔

اور ہم دونوں منہ بسور کر رہ گئے تھے۔ ہمارے بس میں صرف یہی تھا کہ ہم دونوں اس وبا سے بچنے کی اپنی پوری کوشش کریں اور وہ ہم کر رہے تھے۔

شہر بھر میں وبا کے شکار افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ فاران اور میں تعلیمی اداروں کے بند ہونے کی وجہ سے گھر میں ہی تھے۔ آخرکار پاپا بھی لپیٹ میں آ گئے۔ اور ماما، وہ ان کے قرنطینہ میں بھی ان کی ساتھی بن گئیں۔ آج پاپا کو quarantine میں گئے پانچواں دن تھا۔ میں ہر دم ان کی صحتیابی اور ماما کی حفاظت کی دعا کرتی۔

۔ ۔

ماما ایک شدید anxiety disorder ایگورا فوبیا کی مریض تھیں۔ اس ڈس آرڈر کے مریض گھر سے باہر اکیلے نکلنے، کھلی اور بند جگہوں، تنہا ہو جانے اور اسی طرح مختلف، مخصوص حالات میں شدید خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے والد اور بعد ازاں والدہ کی بھی دل کے دورے سے ہونے والی موت نے اس خوف کو ان کے لاشعور میں پختہ کر دیا تھا کہ وہ بھی موروثی طور پر دل کی بیماری کا شکار ہیں۔

پاپا کی دنیا ہی ان کے گرد گھومتی تھی۔ پاپا نے ان کا بہت علاج کروایا۔ وہ مسلسل anti depressants اور anti anxiety ادویات کا استعمال کرتی تھیں۔ میرے بچپن کی یادوں میں ان کے کئی panic attacks شامل ہیں۔ ان کو ٹھنڈے پسینے آنے لگتے، دل کی دھڑکن بڑھ جاتی اور بے ہوش ہو کر گر جاتیں۔ پاپا اسپتال لے کر بھاگتے۔ ای۔ سی۔ جی اور دیگر ٹیسٹ نارمل آتے، وہ ہمیشہ panic attack ہی ہوتا، لیکن ان کو لگتا تھا کہ ان کو کبھی بھی ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے۔

وہ گھر سے نکلنے سے ہر ممکن گریز کرتیں، چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی پاپا پر مکمل انحصار کرتیں، کسی بھی ایسی جگہ جانے سے گریز کرتی جہاں سے ایمرجنسی کی صورت میں نکلنا ممکن نہ ہو۔ ایگورا فوبیا نے ان کی سماجی زندگی شدید متاثر کی تھی۔ وہ دنیا کے ان اڑسٹھ ملین لوگوں میں سے ایک تھیں جو ایگورا فوبیا کا شکار ہو کر دنیا سے کٹ جاتے ہیں اور خوف کے سائے تلے زندگی بسر کرتے ہیں۔

مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ہم یعنی میں، فاران، ماما، پاپا ایک خاندان کے طور پر کبھی شاپنگ کرنے اکٹھے کسی مال یا مارکیٹ گئے ہوں، ماما کو کھلی جگہوں سے بھی خوف آتا تھا اور بند جگہوں سے بھی۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ماما کی سائیکالوجسٹ سے اپائنٹمنٹ تھا۔ میں اور فاری بھی ضد کر کے ساتھ ہو لیے۔ ورنہ ہم دونوں عام طور پر گھر پہ ہی رہتے تھے۔ میری عمر اس وقت بارہ سال ہوگی۔ ماما گھر سے باہر اکیلے قطعی نہیں نکلتی تھیں انہیں اپنے comfort zoneمیں ہی رہنا پسند تھا۔

اس دن بھی مجبوری میں سائیکالوجسٹ کے پاس جانا تھا کہ دوائیوں کے ضمنی اثرات ماما کو پریشان کر رہے تھے۔ وہ ویک اینڈ تھا اور میرا اور فاری کا ارادہ تھا کہ پاپا سے کہہ کر واپسی پر آئس کریم کھائیں گے۔ پاپا کوشش کرتے تھے کہ گاڑی کم رش والی جگہوں سے نکالیں، مگر اس دن کسی جلوس کی وجہ سے اکثر راستے بند تھے اور ہم بد ترین ٹریفک جام میں پھنس گئے۔ ماما کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ میں سمجھ گئی تھی کہ ان کی طبیعت خراب ہونے لگی ہے۔ پاپا ماما کو تسلی دے رہے تھے مگر وہ پسینے میں شرابور ہو گئیں۔

” شکیل جلدی یہاں سے نکلو۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ گھبراہٹ ہو رہی ہے۔ اگر یہاں مجھے ہارٹ اٹیک ہو گیا تو اسپتال بھی نہیں پہنچ سکوں گی اور یہیں دم توڑ دوں گی۔“

” کچھ نہیں ہو گا صباحت۔ کیسی باتیں کر رہی ہو“

لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ماما کی گھبراہٹ بڑھتی گئی اور وہ بے ہوش ہو گئیں۔ جیسے تیسے کر کے ٹریفک بحال ہوا، اور ہم اسپتال پہنچ سکے۔ ان کا دشمن ایک ہی تھا۔ ایگورا فوبیا۔

۔ ۔

آج پاپا کو قرنطینہ میں گئے چھٹا دن تھا۔ میں ان سے ویڈیو کال پر بات کر لیتی تھی۔ کمرے میں تو ماما نے سختی سے داخلہ بند کر رکھا تھا، خود صرف کسی خاص ضرورت سے ہی باہر آتیں۔ اس وقت بھی میں نے پاپا کو کال لگائی۔ ماما شاید اس وقت واش روم میں تھیں۔

” پاپا آپ کی طبعیت کیسی ہے۔ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔“

” نہیں زیبی! بس تم اپنا اور فاران کا خاص خیال رکھو۔ ہر ممکن احتیاط کرو۔ ماما سے بھی فاصلے پر رہا کرو۔“

” جی پاپا۔ میں احتیاط کر رہی ہوں“
میں نے بجھے ہوئے لہجے میں کہا۔

” زیب! ڈاکٹر صالحہ کو کال کر کے اپنی ماں کی حالت کے بارے میں مشورہ کرلو۔ وہ وائرس کا شکار نہ ہوجائیں۔ مجھے اکیلا چھوڑنے پر آمادہ ہی نہیں۔“

” جی بہتر پاپا! میں فون کر لیتی ہوں، اور آپ کے ڈاکٹر سے بھی آن لائن ایڈوائس لے لوں؟“
” نہیں۔ اس کی ضرورت نہیں۔ میں رابطے میں ہوں اور تمام ادویات وقت پر لے رہا ہوں۔“
مختصر بات چیت کے بعد میں نے فون فاران کو تھمایا اور اور ڈاکٹر صالحہ کو کال کرنے چل دی۔

” زیب النساء! میں نے اس وبا کی ابتداء میں ہی بتا دیا تھا کہ اس سال ایگورا فوبیا کے مریضوں کی تعداد میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور جو پہلے ہی اس مرض کا شکار ہیں ان کے مرض کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان حالات میں جب ہر شخص ہی انجانے خوف کا شکار ہے اور سب گھروں میں ہی محصور ہیں باہر نکلنے سے خوفزدہ ہیں تو ایسی صورت میں اس فوبیا کے شکار لوگوں کا مزید panic ہوجانا قدرتی سی بات ہے۔ یہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ مسز صباحت اپنے شوہر جو وبا کا شکار ہیں ان ہی کے ساتھ quarantine ہیں۔

یہ کافی تشویش ناک بات ہے اس کا مطلب ہے ان کو کوئی خوف یا تشویش جکڑے ہوئے ہے کہ وہ صمدانی صاحب کو تنہا چھوڑنے پر تیار نہیں۔ یہ تو آپ جانتی ہی ہیں کہ ایسے مریض کسی ایک فرد پر overly dependent ہو جاتے ہیں مگر اس حالت میں ہر صورت ان کو وبا کے شکار فرد سے دور رہنا چاہیے۔ I strongly recommend you to make her visit at clinic۔ آپ سمجھ رہی ہیں ناں زیب النساء۔“ ڈاکٹر صالحہ کی گفتگو جاری تھی مگر میں سب سمجھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ ماما کو سمجھانا کم از کم میرے بس کا روگ نہیں تھا۔

۔ ۔

فاران کو پاپا کے حوالے سے ہدایات دے کر میں نے اوبر کو کلینک جانے کے لئے کال کر لیا۔ بھلا ہو اس سہولت کا کہ ماما کسی بھی قسم کے پبلک ٹرانسپورٹ میں جانے سے شدید خوفزدہ ہوجاتی تھیں شروع میں پاپا کے پاس ذاتی گاڑی بھی نہیں تھی، تو ماما باہر نکلنے سے ہر ممکن گریز کرتیں۔ وہ ہمیشہ باہر پاپا کے ساتھ ہی جایا کرتیں۔ یہ دوسری دفعہ تھا کہ وہ صرف میرے ساتھ کہیں باہر جا رہی تھیں۔ مجھے پہلی دفعہ کا تجربہ یاد آ گیا جو خاصا ناخوشگوار تھا۔

مجھے یاد تھا کہ دو سال پہلے وہ میرے میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ فارم جمع کروانے کا موقع تھا۔ پاپا شام کو گھر آ یا کرتے اور وہ فارم جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی۔ لا محالہ مجھے ماما کو راضی کرنا پڑا کہ وہ میرے ساتھ کالج چلیں۔ شکر کہ کالج گھر سے قریب ہی تھا تو ہم پیدل ہی پہنچ گئے۔ داخلہ فارم جمع کروانے والوں کی طویل قطار تھی، میں قطار میں لگ گئی اور ماما کو قریبی بینچ پر بٹھا دیا۔ گرمی میں کھڑے کھڑے بیس منٹ گزر گئے تھے اور میرا پیاس سے برا حال تھا۔

” ماما! آپ بس پانچ منٹ میری جگہ کھڑی ہوجائیں میں ابھی دو سافٹ ڈرنکس لے کر آتی ہوں۔ میں نے ماما کو قطار میں کھڑا کیا اور کینٹین کی طرف پیش قدمی کی۔ وہاں رش کی وجہ سے دس منٹ لگ گئے، واپس آئی تو ماما کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ وہ کانپ رہی تھیں اور پسینے میں شرابور تھیں۔ میں نے ان کو جلدی سے بینچ پر بٹھایا اور سافٹ ڈرنک پلایا۔ اس دن مجھے علم ہوا کہ ان کو قطار میں کھڑے ہونے سے بھی خوف آتا ہے۔ تیز سورج ہمارے سر پہ چمک رہا تھا مگر ہماری زندگی کے سورج پر ایگورا فوبیا نے سدا کا گرہن لگایا ہوا تھا۔

۔ ۔

باہر اوبر آ چکی تھی۔ میں سہمی ہوئی ماما کو لے کر ڈاکٹر صالحہ کے کلینک پہنچ گئی۔ ڈاکٹر نے کچھ دو اؤں میں رد و بدل کیا، کچھ ضروری ہدایات دیں، ساتھ ہی ہم سب خاص کر ماما کو وائرس کا تشخیصی ٹیسٹ کروانے کی تاکید کی۔ ڈاکٹر صالحہ کا کلینک گراؤنڈ فلور پر کسی توسیعی کام کی وجہ سے اسپتال کی دوسری منزل پر منتقل ہو گیا تھا۔ ماما نے آتے وقت سیڑھیوں کا استعمال کیا تھا۔ بقول ان کے لفٹ میں طبعیت خراب ہو جائے گی۔

واپسی پر میں نے محسوس کیا کہ وہ نڈھال سی ہیں۔ تھکی، تھکی پژمردہ۔ میں نے لفٹ کی طرف قدم بڑھا دیے۔ وہ شاید کچھ غائب دماغی کی کیفیت میں تھیں کہ مان گئیں اور لفٹ میں داخل ہو گئیں۔ جیسے ہی آپریٹر نے بٹن پریس کیا اور لفٹ نے حرکت کی ماما گھبرا گئیں۔

” روکو۔ روکو! باہر نکلو زیب النساء۔ میرا دم گھٹ جائے گا۔“ ماما کی دہائیاں جاری تھیں۔
” ماما۔ کچھ نہیں ہو گا، بس دو فلورز ہی تو ہیں“

اور چند ہی لمحوں میں لفٹ گراؤنڈ سے آ لگی۔ میں جلدی سے لے کر ماما کو لے کر باہر نکلی اور باہر منتظر اوبر میں سوار ہو گئی۔ ماما کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ خدا خدا کر کے گھر آیا اور ماما اندر بستر پر ڈھیر ہو گئیں۔

” ماما کھانا کھالیں، پھر دوا دے دیتی ہوں“ میں نے ان کو پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے کہا۔ کھانے اور دوا کے بعد ماما اپنے بیڈ روم کی جانب بڑھ گئیں۔

” ابھی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ یہیں میرے بیڈروم میں رک جائیں۔ “ میں نے مشورہ دیا۔

” نہیں اب میں ٹھیک ہوں“ وہ مختصر جواب دے کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔ میں نے ٹھنڈی سانس بڑھی اور فاری کو کھانا دینے آٹھ گئی۔

۔ ۔

رات کتنی بھی طویل ہو آخر کٹ ہی جاتی ہے۔ سورج نے اپنی کرنوں کا لشکر آسمان پر اتارا تو اندھیرے کو بھاگتے ہی بنی۔ آج کی صبح کتنی خاموش اور ویران لگ رہی ہے۔ وینٹی لیٹر پر آس اور نراس کے درمیان جھولتے مریض کی طرح۔ میں نے فالتو خیالات کو جھٹکا اور ناشتہ بنانے چل دی۔ مگر جب خلاف معمول ماما کمرے سے نہیں نکلیں تو میں نے دروازہ بجایا۔ کافی دیر بعد ماما کی ماسک تلے چھپی صورت نظر آئی۔ وہ صدیوں کی بیمار لگ رہی تھیں۔

” ماما۔ کیا ہوا آپ کو “ میں نے آ گے بڑھ کر ان کو چھونا چاہا۔

” زیبی! مجھے ہاتھ نہیں لگانا۔ مجھے بخار ہے۔ ساری علامات بھی وائرس کی ہی ہیں۔ تم اور فاران ہمارے قریب بھی نہ آنا۔ ناشتہ، کھانا اور دوسری ضروریات میں کال پر بتا دوں گی وہ باہر رکھ جانا۔ میرا خیال ہے تشخیصی ٹیسٹ کی بھی ضرورت نہیں، میں یقیناً پازیٹو ہی ہوں۔“

” اوہ خدایا“ میرا تو دل ہی بیٹھ گیا۔
” ماما کتنا سمجھایا تھا آپ کو ، پاپا سے دور رہنا چاہیے تھا ناں آپ کو ۔ اور پاپا۔ پاپا کیسے ہیں؟“

” ہاں وہ بہتر ہیں۔ رات ان کی طبیعت بھی خاصی خراب تھی مگر اب بہتر ہیں اور سو رہے ہیں۔ بس تم ناشتہ اور دوائیاں باہر ٹیبل پر رکھ جاؤ۔“ ماما نے ہدایت کی۔

” ماما۔ لیکن آپ ڈاکٹر کے۔“

میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن دروازہ بند ہو چکا تھا۔ میں مایوسی سے سر ہلاتی کچن میں آ گئی۔ پورا دن میں نے، اور فاران نے صمدانی ولا کی اداس فضا میں پہر گنتے، ایک دوسرے کو دلاسے دیتے گزار دیا، میں خود تو فاری کو تسلی دے رہی تھی مگر اندر سے خوفزدہ تھی کہ اب اگر اس وبا نے مجھے یا فاران کو لپیٹ میں لے لیا تو ہم کیسے مقابلہ کرسکیں گے۔ ماما اب صرف ضرورت کی اشیاء کے لئے دروازہ کھولتیں اور پھر سے اندر بند ہو جاتیں۔ میرے وسوسے درست تھے۔ ظاہر ہے اس طرح آخر کب تک وہ وائرس سے بچ سکتی تھیں۔

۔

وہ رات بھی ڈھل گئی اور سورج ایک نئے دن کی نوید لئے پھر سے حاضر ہو گیا۔ میں نے ماما، پاپا کے بیڈ روم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کافی دیر بعد بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو میری تشویش میں اضافہ ہو گیا۔ میں نے پاپا کو کال ملائی، جواب ندارد۔ ماما کو کال کی تو فون اٹھالیا گیا۔

” کیا ہوا زیبی! کیوں تنگ کر رہی ہو“
” ماما! آپ لوگ جواب کیوں نہیں دے رہے تھے؟“

” بیٹا۔ پاپا ابھی سو رہے ہیں اور میں واش روم میں تھی۔ ہم لوگ ٹھیک ہیں۔ میرا بخار کم ہے، لیکن میرے سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت سخت متاثر ہوئی ہے۔“

” اوہ! اگر آپ کی یا پاپا کی طبیعت ٹھیک نہ ہو تو فوراً بتائیے گا۔ میں فوراً اسپتال سے رابطہ کروں گی۔“

” ٹھیک ہے زیب! لیکن اسپتال کی ضرورت نہیں، گھر پر ہی قرنطینہ زیادہ بہتر ہے۔“
ماما نے بات ختم کردی۔
۔ ۔

شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ میرا دل بہت گھبرا رہا تھا۔ انجانے خوف، وسوسے ڈس رہے تھے، کل سے پاپا سے بھی بات نہیں ہوئی تھی۔ رات گئے میری بے چینی سوا ہو گئی۔ فجر کے بعد میں نے ماسٹر بیڈ روم کی ڈپلیکیٹ چابی اٹھائی اور کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

۔ ۔
مشرق سے سورج نے اپنا زرد تھال آسمان پر انڈیلا تو کسی بیمار کی صورت سارے جہان میں زردی کھنڈ گئی۔

دروازے کی بیل مسلسل بج رہی تھی، میں نے مرے مرے قدموں سے جاکر دروازہ کھول دیا۔ گھر میں موت کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اس سناٹے میں کچھ اہلکار حفاظتی کٹس پہنے اندر داخل ہو گئے۔ اجنبی آوازیں سن کر ماما کمرے سے باہر آ گئیں۔ اجنبی صورت عملے کے افراد کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خوف اور وحشت سمٹ آئی۔

” زیب! کون ہیں یہ لوگ۔ گھر میں کیسے آ گئے۔ میں نے منع کیا تھا ناں کہ ہم ٹھیک ہیں، ہمیں اسپتال نہیں جانا۔“

ماما ہذیانی انداز میں چلا رہی تھیں۔

” ماما کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے! یہ اسپتال سے نہیں ایدھی سے آئے ہیں، اور میں نے بلایا ہے۔ پاپا کی موت کو آج تیسرا دن ہے۔ ان کی میت بو چھوڑ رہی ہے۔ آپ ان کی لاش کے ساتھ جی سکتی ہیں لیکن ہم نہیں۔ مان لیں اب اس حقیقت کو ۔ ان کو ان کی آخری آرام گاہ جانے دیں۔ ان پر اور ہم پر اور ظلم نہیں کریں۔ آپ کے انجانے خوف نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔“

میں نے ماما کو بری طرح جھنجوڑ ڈالا۔ میرا ضبط جواب دے چکا تھا۔ ایدھی رضاکار، کمرے کی جانب جا چکے تھے۔ ماما کا سکتہ ٹوٹا اور وہ غش کھا کر گر پڑیں۔

اسی لمحے میری نظر کونے میں کھڑے زرد چہرے والے فاران پر پڑی۔ وہ سر سے پاؤں تک پسینے میں بھیگا ہوا پوری جان سے کانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اور وہ اپنے حواس میں نہیں تھا۔ شاید یہ اس کا پہلا panic attack تھا۔

فضا میں حبس بڑھ گیا تھا۔ میری آنکھوں سے دو اشک ٹپکے اور زمین کی وسعتوں گم ہو گئے۔ پاپا کا پروانہ رہائی آ گیا تھا مگر میں جان گئی تھی کہ ہم سب خوف کے اسیر ہیں اور ہمیں تاحیات اس قید میں رہنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments