ہاسٹل میں چوری اور ہمارا دوست مٹھو


ہاسٹل میں کہرام مچا ہوا ہے۔ ہاسٹل وارڈن نے فل الفور میس میں بی ایس کے تمام سٹوڈنٹس کو میٹنگ کے لیے بلا لیا۔ دوسرے ہاسٹل سے انٹر میڈیٹ کے سٹوڈنٹس کو بھی میٹنگ کے لئے بلا لیا گیا۔ کک (Cook) صاحب اور ہاسٹل کے باقی ملازمین کو بھی میٹنگ میں شامل ہونا کا کہا گیا۔ میٹنگ شروع ہوتے ساتھ ہی ہاسٹل وارڈن صاحب نے بھاشن دینا شروع کر دیا کہ ”آئے روز ہاسٹل میں چوریاں ہو رہی ہیں اور ہم ابھی تک چور نہیں پکڑ پائے۔ پچھلے مہینے ایک لڑکے کا موبائل چوری ہوا۔ تقریباً ڈیڑھ ہفتہ پہلے ایک اور لڑکے کے تین ہزار روپے چوری ہوئے۔ دو دن پہلے میرے کمرے سے کوئی باتھ روم والی چپلیں اٹھا کر لے گیا۔ ہو نہ ہو چور تو کوئی آپ میں سے ہی ہیں۔ میں سٹوڈنٹس کو ہزار دفعہ کہہ چکا ہوں کہ اپنے پیسے اور چیزیں سنبھالا کریں۔ مگر میری یہاں کون سکتا ہے؟ اور اب آج دوپہر کو مٹھو نہانے گیا تو پیچھے روم سے اس کے کوئی پیسے نکال کر لیا گیا۔ یہ چوریوں کا سلسلہ تو بڑھتا جا رہا ہے۔ اب ایسے نہیں چلے گا۔ اب آپ سب 80 لوگ مل کر اس کا خمیازہ پورے کریں گے۔ نہ جانے کسی کا باپ پتا نہیں کتنی محنت و مشقت کر کے اپنے بیٹے کو پیسے بھیجتا ہے اور یہاں چوری ہو جاتے ہیں۔ اب ہمیں ہی اس کا نقصان پورا کرنا ہو گا۔“

جیسے جیسے ہاسٹل وارڈن صاحب کا بھاشن جذبات پکڑ تا گیا مٹھو کے چہرے پر بے چینی کے تاثرات بڑھتے گئے۔ اصل میں مٹھو خود بھی نہیں جانتا تھا کہ ہاسٹل وارڈن صاحب جو پچھلی ساری چوریوں پر دم سادھ کر بیٹھے رہے، انہیں آج اس چوری پر کیا ہو گیا ہے۔ اس چوری پر اتنا ہنگامہ۔ حالانکہ اس نے تو ویسے ہی گزرتے ہی ہاسٹل وارڈن صاحب کو چوری کا بتایا تھا۔ وہ سپیشل بتانے بھی نہیں گیا تھا۔ یہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ہاسٹل وارڈن نے مٹھو کو کھڑا ہونے کا کہا۔

” ہاں بھئی بتاؤ، تمہارے کتنے پیسے چوری ہوئے؟“
مٹھو سامنے ٹیبل پر ہاتھ رکھتے ہوئے آہستہ سے کھڑا ہوا اور دھیمے سے لہجے میں کہا
” سر جو ہوا سو ہوا اب۔ اب کے بعد ایسا نہیں ہونا چاہیے“

” نہیں بھئی ایسے کیسے۔ اگر ایسا چلتا رہا تو چوریاں تو ہوتی رہیں گی۔ تم بس یہ بتاؤ کہ تمہارے کتنے پیسے ہیں۔ یہ سارے لوگ مل کر تمہیں پیسے ادا کریں گے“

مٹھو کے چہرے کا رنگ اڑ گیا مگر ہاسٹل وارڈن صاحب نے اتنے میں پھر چلا کر کہا ”بھئی بتاؤ بھی“
مٹھو ذرا اور دھیمے لہجے میں بولا
”سر چالیس“
” چالیس ہزار۔ اب فی بندہ پانچ پانچ سو دے گا تاکہ اس کا نقصان پورا کیا جا سکے“
” نہیں سر“
” تم مٹھو چپ رہو۔ مجھے یہ سب کرنا ہی پڑے گا۔“
” نہیں سر صرف چالیس روپے“

یہ سن کر ایک قہقہہ بلند ہوا جو کہ روکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ بیچ میں سے ایک سٹوڈنٹس نے کہا کہ سر یہ بھاری رقم صرف میں ہی ادا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ ”یار اتنے پیسے چور کو بھی لے جاتے ہوئے بھی تکلیف ہوئی ہوگی“ ۔

ساتھ بیٹھے لڑکے نے کہا

”یار اتنی رقم ساتھ رکھتے ہو تو ساتھ کوئی سکیورٹی گارڈ بھی تو ساتھ رکھو“ ۔ اوپر سے سٹوڈنٹس اس بات پر بھی ہنس رہے تھے کہ پندرہ ہزار کا موبائل چوری ہونے پر اتنا ہنگامہ نہیں ہوا جتنا چالیس روپے کے چوری ہونے پر ہوا۔ بعد میں وہ چالیس روپے مٹھو کے کتاب سے برآمد ہوئے جو کہ اس نے خود ہی جب نہانے جا رہا تھا تو ٹراؤزر سے نکال کر کتاب میں رکھ کر بھول گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments