چار اہم باتیں جو میں نے سیکھیں


یہ پرانی بات ہے۔ غالباً ان دنوں میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ کسی نے بتایا کہ فلاں جگہ سیمینار ہے جہاں بہت بڑے بڑے لوگ آ رہے ہیں، اعلیٰ تقاریر ہوں گی، مزا آئے گا، سو ہمیں بھی چلنا چاہیے۔ میں نے ہامی بھر لی۔ جب ہم تقریب میں پہنچے تو وہاں ایک صاحب کو مدعو کیا گیا جنہوں نے پروپیگنڈا کے موضوع پر کچھ بات کرنی تھی۔ ان کا تعارف ماہر ابلاغیات کی حیثیت سے کروایا گیا اور ساتھ میں کچھ بارعب قسم کی ڈگریاں بھی گنوائی گئیں جوان صاحب نے مختلف اوقات میں حاصل کی تھیں جن کی مدد سے میزبان نے ثابت کیا کہ یہ صاحب بہت ’پروفیشنل‘ ہیں۔

میں نے چونکہ کچھ عرصہ اخبار میں بھی کام کیا تھا اس لیے پروپیگنڈا میرا پسندیدہ موضوع تھا۔ مگر جوں جوں ان صاحب نے تقریر شروع کی توں توں میری مایوسی بڑھتی گئی، انہوں نے پہلے پندرہ منٹ تو محض ادھر ادھر کی رسمی باتوں میں گزار دیے، اس کے بعد جب انہوں نے موضوع پر بولنا شروع کیا تو بھی کوئی ایسی متاثر کن بات نہیں کی جس کا ہمیں پہلے سے علم نہیں تھا۔ ایسا نہیں کہ ہم بہت عالم فاضل تھے، بالکل بھی نہیں، ہم اس وقت طفل مکتب ہی تھے، مگر ان صاحب کی گفتگو سے ہمیں کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ مایوس ہو کر ہم وہاں سے اٹھ آئے۔

اسی طرح ایک مرتبہ مجھے تعلیم کے موضوع پر عالمی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا، ان دنوں میں تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھا اور کسی حد طفل مکتب سے اگلے درجے میں پہنچ چکا تھا۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے ماہر تعلیم آئے۔ میں نے تین دن تک ان ماہرین کی گفتگو سنی اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ سوائے دو چار مقررین کے باقی تمام ’ماہرین تعلیم‘ بھی میری طرح کے ہی لوگ ہیں۔

تیسری مثال بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ الحمرا میں ایک تقریب تھی، موضوع ٹھیک سے یاد نہیں، کچھ اس قسم کا تھا ’پاکستانی ڈرامے کا ارتقا، ماضی، حال اور مستقبل۔‘ وہاں جن مقررین نے اس موضوع پر تقاریر کیں ان میں سے سوائے ایک مقرر کے کسی نے بھی براہ راست موضوع پر بات نہیں کی اور فقط گپ شپ کر کے چلا گیا۔ البتہ ایک بات اس تقریب میں ایسی ہوئی جس نے میرے خیالات خاصی حد تک تبدیل کر دیے۔

جب یہ غیر متعلقہ تقاریر ہو رہی تھیں تو اچانک ایک خاتون اپنی نشست سے کھڑی ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ میں تو یہاں پاکستانی ڈرامے کے متعلق معیاری گفتگو سننے آئی تھی مگر افسوس ہے کہ آپ لوگ یہاں اپنے ذاتی قصے کہانیاں سنا رہے ہیں، لہذا میں یہاں سے جا رہی ہوں۔ اور یہ کہہ کر وہ تقریب سے اٹھ گئیں۔ بظاہر یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں تھی مگر ان محترمہ کی بات سے مجھے محسوس ہوا کہ ’گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں‘ ۔

اس دن کے بعد سے میرے خیالات میں ایک تبدیلی آ گئی کہ یہ ضروری نہیں کہ کوئی شخص اگر کسی شعبے کی ڈگری حاصل کر لے یا اس شعبے میں کام کرتے ہوئے اسے طویل تجربہ ہو جائے تو ایسا شخص خود بخود اس شعبے کا ماہر یا پروفیشنل مانا جائے گا۔ کسی شعبے کا ماہر ہونے کے لیے، ڈگری اور تجربے، دونوں سے زیادہ ضروری ہے کہ کوئی شخص اس شعبے میں کتنی محنت کرتا ہے، اپنی کام کے بارے میں وہ کتنا تخلیقی ہے اور نئے رجحانات سے کس حد تک با خبر رہتا ہے۔ ان تینوں باتوں کے ساتھ ساتھ جو بات جو سب سے ضروری ہے وہ ’عقل سلیم‘ کا ہونا ہے جسے کامن سینس کہتے ہیں، بد قسمتی سے یہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی نہیں ہوتی۔

اس بات کو سیکھنے اور سمجھنے میں مجھے کافی وقت لگا کہ جو لوگ اپنے تئیں کسی شعبے کے ماہر ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ اس شعبے سے متعلق ان کی ہر بات برہان قاطع ہو۔ دوسری بات میں نے یہ سیکھی کہ لوگوں کی حد سے زیادہ پر اعتماد گفتگو سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ خصوصاً پاکستان میں لوگ یوں قطعیت سے بات کرتے ہیں کہ گمان ہوتا ہے جیسے وہ مستقبل میں جھانک کر بات کر رہے ہوں، ایسے لوگوں کی لچھے دار گفتگو پر دھیان دینا محض وقت کا ضیاع ہے۔ تیسرا تجربہ مجھے سرکاری امور کی انجام دہی میں ہوا جب اس بات کی قلعی کھلی کہ ضروری نہیں کہ اعلی عہدے پر براجمان افسر قابل اور دور اندیش بھی ہو۔ اکثر اعلی سطحی اجلاسوں میں ایسی ایسی بچگانہ گفتگو اور تجاویز سننے کو ملیں کہ سر پیٹ لینے کو جی چاہا۔ وہ لوگ جنہیں ہم اپنے تئیں بہت اعلیٰ اور پہنچا ہوا افسر سمجھتے رہے، بے حد کوتاہ نظر اور معمولی سمجھ بوجھ کے حامل نکلے۔

ایسا ہر گز نہیں کہ میں پروفیشنل لوگوں یا اعلی عہدوں پر تعینات افراد کو نالائق یا اوسط درجے کا ہی سمجھتا ہوں۔ ہر شعبے میں قابل اور ذہین بندہ آپ کو مل جاتا ہے لیکن کم کم، ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اور زندگی کی درسگاہ میں چوتھی بات یہ سیکھی کہ انسان چاہے جتنا بھی قابل، ذہین، کامیاب، سمجھ دار اور ہر لحاظ سے چوکس ہی کیوں نہ ہو، اپنے معاملے میں بعض اوقات وہ اس سمجھ بوجھ کا دس فیصد بھی استعمال نہیں کر پاتا جتنا وہ کسی دوسرے کے معاملے میں استعمال کرتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جن معاملات میں ہماری ذات شامل اور موضوع ہوتی ہے ان میں معروضیت سے کام لینا نا ممکن نہیں تو کم از کم مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔

یہ چاروں باتیں کوئی موتی نہیں جو میں سمندر کی تہہ سے آپ کے لیے نکال کر لایا ہوں، بلکہ سچ پوچھیں تو یہ ایک طرح سے اپنی کم سمجھی کا اعتراف ہے۔ ان باتوں کو سمجھنے میں جتنا وقت میں نے لگایا اصولاً اس سے کہیں پہلے یہ باتیں مجھے سمجھ لینی چاہئیں تھیں۔ ویسے تو یہ جملہ بھی کالم نگاری کے اصولوں کے خلاف ہے کیونکہ اصولاً مجھے خود کو کم سمجھ کہنا ہی نہیں چاہیے بلکہ الٹا مجھے ہر وقت قارئین پر اپنے علم اور تجربے کی دھاک بٹھاتے رہنا چاہیے، اس سے پڑھنے والے متاثر بھی ہوتے ہیں اور خود لکھاری کا ہاضمہ بھی درست رہتا ہے۔

زندگی میں یہ چاروں باتیں سیکھنے کے باوجود میں آج تک یہ نہیں جان پایا کہ یار لوگ اپنی گفتگو اور تحریروں میں اتنی قطعیت کہاں سے لاتے ہیں، کس طرح وہ ہر معاملے میں اپنی دو ٹوک رائے دے کر سمجھتے ہیں کہ یہی آفاقی سچ ہے اور کیسے انہیں یقین ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ بولتے یا لکھتے ہیں اس میں کسی قسم کی غلطی کا امکان نا ممکن ہے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ یہ چاروں باتیں جو میں نے اپنے تئیں زندگی میں سیکھی ہیں، ان باتوں نے میری زندگی پر ایک عجیب اثر ڈالا ہے، اب میں کسی شخص سے آسانی سے متاثر نہیں ہوتا، ماضی میں جن لوگوں کے علمی اور دنیاوی رتبے کو میں رشک کی نگاہ سے دیکھتا تھا اب وہ مجھے ذرا برابر بھی انسپائر نہیں کرتے۔ اور یہ کوئی اتنی اچھی بات بھی نہیں، اس کے اندر ایک منفی جذبہ مخفی ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے جیسے میں خود کو کوئی توپ سمجھتا ہوں جسے متاثر کرنے کے لیے سر آئزک نیوٹن یا مولانا جلال الدین رومی کو عالم بالا سے نیچے تشریف لانا ہو گا۔ جبکہ حقیقت صرف اتنی ہے کہ اس دنیا میں ایسا ایسا پائے کا عالم، فاضل، ہنر مند، قابل اور ذہین شخص ہے کہ مجھ ایسا بندہ چاہے بھی تو کسی اوسط درجے کے ’پروفیشنل‘ سے متاثر نہیں ہو سکتا۔ بس اتنی سی بات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments