پنڈت جواہر لعل نہرو: جمہوری ہندوستان کے پہلے غیر جمہوری وزیر اعظم


ہندوستان میں تحریک آزادی اپنے طویل سفر کو طے کرنے کے بعد جیسے جیسے اختتام کی جانب بڑھ رہی تھی ویسے ویسے موہن داس کرم چند گاندھی نے انڈیا کے جمہوری مستقبل کے لیے سوچ بچار کرنا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے یہ ذہن بنا رکھا تھا کہ انڈین نیشنل کانگریس (INC) کو تحلیل کر دیا جانا چاہیے۔ ان کے خیال میں INC کا مقصد ہندوستان کو برطانوی راج سے آزاد کرانا تھا۔ ایک بار جب یہ مقصد پورا ہو گیا تو تنظیم کا کوئی وجودی مقصد نہیں رہتا۔ گاندھی نے تجویز پیش کی کہ انتخابی سیاست کے ذریعے عوامی خدمت کے خواہشمند تمام لیڈروں کو اپنی سیاسی پارٹی بنانا چاہیے اور الیکشن لڑنا چاہیے۔ یہ دراصل حقیقی معنوں میں جمہوریت ہوتی۔

اس طرح کے خیال کے ممکنہ نتائج پر غور کرنا دلچسپ ہرگز دلچسپی سے خا لی نہ ہو گا۔

ایسا کرنے سے جہاں یہ بھی ممکن تھا کہ نہرو کو عوام مسترد کر دیتی۔ جو شاید ان کے خاندان کے سیاسی سفر کا بھی اختتام ہوتا۔ وہیں پہ یہ بھی ممکن تھا کہ شاید سردار پٹیل ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم ہوتے۔ تیسرا آپشن یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ٹوٹے ہوئے مینڈیٹ کے بعد شاید ایک نیا نسبتاً نامعلوم چہرہ انڈیا کے لیڈر کے طور پر ابھرتا۔

تاہم نہرو اور پارٹی کے اندر موجود دیگر لوگ سمجھتے تھے کہ INC کے پاس برانڈ کی پہچان ہے کہ وہ جدوجہد آزادی کے دوران پارٹی کی طرف سے کمائی گئی گڈول کی لہر پر سوار ہو سکتے ہیں۔ آزاد ہندوستان کے بانیوں کو للکارنے والوں کو واضح طور پر غدار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے گاندھی کے مشورے کو آسانی سے نظر انداز کر دیا گیا اور INC غالب ہو گئی۔

تاہم ایک اور معاملے میں گاندھی کے مشورے پر سختی سے عمل کیا گیا۔ 1946 میں INC کے صدر کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک داخلی انتخابات منعقد کیا گیا جسے بالآخر آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم بننا تھا۔ امیدواروں میں جواہر لعل نہرو، آچاریہ کرپلانی، اور سردار پٹیل تھے۔

INC کی ورکنگ کمیٹی اور مختلف ریاستی کمیٹیوں کو اپنے پسندیدہ امیدواروں کے لیے نامزدگیاں بھیجنا تھیں۔ گاندھی جی اس انتخاب میں نہرو کی شروع ہی سے کھل کر حمایت کر رہے تھے۔ گاندھی نے نہرو کی پشت پناہی کرنے کے پیچھے اپنی دلیل کی وضاحت کی تھی جواہر لعل کو آج تبدیل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ ایک ہیرو لڑکا، ایک کیمبرج گریجویٹ، اور ایک بیرسٹر، انگریزوں کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ ”

گاندھی نے یہ بھی محسوس کیا کہ نہرو کو بیرون ملک زیادہ جانا جاتا ہے اور وہ بین الاقوامی معاملات میں ہندوستان کی مدد کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ مولانا آزاد نے بھی نامزدگی کی آخری تاریخ سے تین دن پہلے نہرو کی تائید کی تھی۔ انہوں نے اپنی سوانح عمری جو 1959 میں بعد از مرگ شائع ہوئی، میں لکھا: ”نفع و نقصان کو تولنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ موجودہ حالات میں سردار پٹیل کا انتخاب مناسب نہیں ہو گا۔ تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے ایسا لگتا تھا کہ جواہر لعل کو نیا صدر ہونا چاہیے“

لیکن انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ INC کے ارکان کی رائے بالکل مختلف تھی۔ سردار پٹیل جو ایک عظیم ایگزیکٹو، منتظم اور رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے انہوں نے 15 میں سے 12 ریاستی کمیٹیوں میں کامیابی حاصل کی۔ دیگر ریاستی کمیٹیوں نے اس عمل میں حصہ نہ لیا۔ نہرو نے کوئی نامزدگی حاصل نہیں کی۔ یہ پٹیل کے لیے متفقہ انتخاب تھا۔ جب کہ نہرو نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ سردار پٹیل ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم بننے کی راہ پر گامزن تھے۔

گاندھی نے عوامی مینڈیٹ کو قبول کرنے کے بجائے نہرو کو نتائج سے آگاہ کیا تو نہرو کا ردعمل مکمل خاموشی کا تھا۔ گاندھی نے محسوس کیا کہ جب کہ پٹیل نہرو کے نائب کے طور پر کام کرنے پر راضی ہوجائیں گے جبکہ اس کے برعکس یقینی طور پر نہیں ہو گا۔ اس طرح گاندھی نے مداخلت کی اور پٹیل کو اپنی نامزدگی واپس لینے کو کہا۔

گاندھی نے نادانستہ طور پر پارٹی ریاستی اکائیوں کو مرکزی جماعت کے تابع کرنے والے جمہوریت مخالف کلچر کو متعارف کرایا۔ گاندھی کے احترام میں، کرپلانی نے نہرو کو نامزد کیا اور مقابلہ سے دستبردار ہو گئے۔ پٹیل جو گاندھی کو اپنا مرشد مانتے تھے اس لیے گاندھی کی درخواست پر نہرو کے حق میں دستبردار ہو گئے۔

پٹیل کے پاس گاندھی کی درخواست کو قبول کرنے کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ سب سے پہلے، نہرو کے برعکس، انہوں نے کبھی بھی عہدوں کو پسند نہیں کیا۔ ان کے لیے اطمینان صرف اور صرف اپنی قوم کی خدمت میں تھا۔ دوسرا پٹیل یہ بھی جانتے تھے کہ نہرو اپنے آپ کو رد کیے جانے کو اچھی طرح لینے والے نہیں تھے۔ اسے اندازہ تھا کہ نہرو شاید پٹیل کے نائب کی حیثیت سے انکار کر دیں گے اور درحقیقت پٹیل کے شدید مخالف اور قوم پر حکومت کرتے وقت ایک رکاوٹ بن جائیں گے۔

وہ جانتے تھے کہ نہرو کے بے شمار حامی ہیں جو پٹیل کی مخالفت کرنے والے ان کے دھڑے میں بھی شامل ہو جائیں گے۔ پٹیل سمجھ گئے کہ ان کے اور نہرو کے درمیان یہ تقسیم ایک ایسی قوم کو مزید تقسیم کر دے گی جو پہلے ہی مختلف مسائل سے دوچار تھی اور تقریباً تباہ کن تقسیم سے گزرنے والی تھی۔

پہلے بھارتی صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے اس پہ تبصرہ کیا کہ گاندھی نے ایک بار پھر اپنے قابل اعتماد لیفٹیننٹ کو مسحور کن نہرو کی خاطر قربان کر دیا ہے۔ ’پرساد کا ”ایک بار پھر“ کا استعمال پٹیل کی وجہ سے تھا۔ جنہیں اس سے قبل 1929 اور 1937 میں INC کی صدارت سے روک دیا تھا اور 1946 میں نہرو کو ترجیح دی اور یہ تبدیلی ہمیشہ آخری لمحے میں آئی۔

اس لیے نہرو بلا مقابلہ ’منتخب‘ ہوئے اور ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم کے طور پر ان کا راستہ صاف ہو گیا۔ مولانا آزاد نے بعد میں نہرو کی اپنی پچھلی توثیق کے بارے میں اپنی رائے بدل دی کہ یہ میری طرف سے غلطی تھی کہ میں نے سردار پٹیل کی حمایت نہیں کی۔ ہم نے بہت سے معاملات پر اختلاف کیا لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر وہ کانگریس کے صدر کے طور پر میرے بعد آتے تو وہ دیکھتے کہ کابینہ مشن پلان کو کامیابی کے ساتھ نافذ کیا گیا ہے۔ وہ جواہر لعل کی غلطی کا کبھی مرتکب نہیں ہوتا جس نے مسٹر جناح کو پلان کو سبوتاژ کرنے کا موقع فراہم کیا۔ میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر سکتا جب میں سوچتا ہوں کہ اگر میں نے یہ غلطیاں نہ کی ہوتیں تو شاید پچھلے دس سالوں کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔

پنڈت نہرو کی سوانح عمری لکھنے والے مائیکل بریچر نے لکھا: ”کانگریس کی صدارت کے منصب کے لیے ہر بار مختلف افراد کے چناؤ کے معزز رواج کے مطابق پٹیل اس عہدے کے لیے قطار میں تھے۔ پندراں برس قبل کراچی کے اجلاس کی صدارت بھی انہوں نے کی تھی۔ جب کہ نہرو نے 1936 اور 1937 میں لکھنؤ اور فیروز پور کی صدارت کی تھی۔ مزید یہ کہ پٹیل صوبائی کانگریس کمیٹیوں کا زبردست انتخاب تھے۔ نہرو کا انتخاب ’گاندھی کی مداخلت کی وجہ سے ہوا۔ پٹیل کو عہدہ چھوڑنے پر آمادہ کیا گیا۔

اگر گاندھی مداخلت نہ کرتے تو پٹیل 1946۔ 47 میں ہندوستان کے پہلے ڈی فیکٹو پریمیئر ہوتے۔ پٹیل سے یہ انعام چھین لیا گیا اور اس کی منصوبہ بندی میں بہت باریک بینی سے کام لیا گیا۔ سی راجگوپالاچاری، جنہوں نے 1972 میں بھون کے جرنل میں لکھا، ”بلاشبہ یہ بہتر ہوتا کہ نہرو کو وزیر خارجہ بنانے کے لیے کہا جاتا اور پٹیل کو وزیر اعظم بنایا جاتا۔ میں بھی یہ ماننے کی غلطی میں پڑ گیا کہ جواہر لعل ان دونوں میں سے زیادہ روشن خیال شخص تھے۔ پٹیل کے بارے میں یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف سخت رویہ اختیار کریں گے۔ یہ ایک غلط تصور تھا لیکن یہ مروجہ تعصب تھا۔

پٹیل کا انتقال 1950 میں ہوا اور 1952 میں آزاد ہندوستان کے پہلے ہی انتخابات میں INC نے بھاری اکثریت حاصل کی۔ نہرو ہندوستان کے وزیر اعظم رہے اور اپنی آخری سانس تک وزیر اعظم رہے۔ یہ افسوسناک، بدقسمتی اور افسوسناک ہے کہ پہلے ہی انتخاب میں جو آزاد ہندوستان کے لیڈر کا فیصلہ کرے گا ہیرا پھیری کی گئی۔ یہ صرف الیکشن ہی نہیں بلکہ ہندوستان کا مستقبل تھا جس میں دھاندلی ہوئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments