”میں افسانہ کیوں کر لکھتا ہوں؟“ پریم چند


اردو افسانہ نگاری میں پریم چند کے نام اور مرتبے سے کون نہیں واقف؟ ایک انشا پرداز صاحب قلم کی حیثیت سے اردو فکشن نگاری اور بالخصوص افسانہ نگاری میں پریم چند کا اسلوب اپنی یکتا پہچان رکھتا ہے۔ پریم چند کا لہجہ ایک ٹھیٹ ہندوستانی ادیب کا لہجہ ہے، یعنی پریم چند ہندی تہذیب کا نفیس ترین شارح اور معبر ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پریم چند نے ہندو سماج کو حقیقت پسندی کے آئینے میں دکھایا ہے، جات پات اور رجعتی نظام کی ایسی تصویر کشی کی ہے کہ نفسانی اور احساساتی درماندگی ابلتے پانی کے بلبلوں کے مانند ابھر کر سامنے آ گئی۔ پریم چند نے ایک عقلانی تاثر یہ پیش کیا کہ مذہبی اور سماجی اقدار کی آڑ میں کس طرح طاقتور طبقہ کمزوروں کی حق تلفی کرتا ہے۔

کون سا ادیب یا قلم کار ایسا ہو گا کہ جس پر اپنے ادب کی تخلیق کا مقصد و مدعا آشکارا نہ ہو۔ اس کے بغیر لایعنیت ہی دندناتی پھرے گی اور معاشرے سے ادب کا کوئی ناتا نہیں رہے گا۔ اپنے نہایت مقصود کی طرف وہی ادیب گامزن رہ سکتا ہے جس کا شعور جذباتی، نفسیاتی اور معاشرتی غایتوں سے آشنا ہو۔

افسانوی صنف میں بھی تمام تر احساساتی کیفیات اور شاعرانہ لطائف اس وقت لا یعنی معلوم ہونے لگتے ہیں کہ جب قاری پر کوئی نفسیاتی حقیقت منکشف نہیں ہوتی۔ پریم چند کے مضمون ”میں افسانہ کیوں کر لکھتا ہوں“ کی بنائے استدلال بھی یہی ہے کہ کوئی بھی سانحہ، حادثہ یا واقعہ اس وقت تک افسانہ نہیں ہو سکتا تا وقتیکہ اس میں کوئی نفسیاتی حقیقت کا اظہار نہ ہو۔ قصے یقیناً مشاہدات اور تجربات ہی پر مبنی ہوتے ہیں، لیکن افسانہ نگار ان میں ایک ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ افسانہ لکھنے والے ادیبوں کی اکثریت کا خیال یہ ہے کہ افسانہ ایک کہانی ہونا چاہیے، ایک ایسی کہانی جس میں واقعات و سانحات کو قلمبند کیا جائے، ان کا مکمل ریکارڈ فراہم کیا جائے، ایک سریع و مستعد تحریک ہو، ایک غیر متوقع سی پیش قدمی ہو جو سسپنس سے کلائمکس تک لے جائے اور قاری اس سے محظوظ ہو جائے۔ لیکن

اینٹن چیکوو کے مطابق افسانہ یا شارٹ سٹوری فن یا آرٹ کا مآل نہیں ہے، اس کا کہنا ہے کہ افسانے کا نہ تو کوئی آغاز ہوتا ہے اور نہ انجام، افسانے کا کام قاری کو ذہنی تسکین پہچانا نہیں بلکہ اس میں ایک الجھن سی پیدا کرنا ہے، ایک تشکیکی بے چینی اور تجسس سے بھرے اضطراب کو ابھارنا ہے۔ اسے چیکوو ”سلائس آف لائف“ کہتا ہے۔ وہ کہانی کو کسی انجام تک نہیں پہنچاتا، بلکہ اس کے نزدیک نتیجے کا اخذ کیا جانا قاری کے منصفانہ یا غیر منصفانہ رویے پر منحصر ہے۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی کہانیوں کو کسی منہاج پر لے جاکر واقعات کی جولانی کو منقطع کر دیتا اور یہیں سے ہیجانیت کی سی کیفیت بنتی ہے اور ایک نفسیاتی اثر انگیزی جنم لیتی ہے۔

پریم چند بھی چیکوو کی طرح ہی نفسیاتی اثر انگیزی کو افسانے کا سب سے لطیف پہلو جانتے ہیں، کیوں کہ افسانے کا ایک وصف اختصار ہے اور کوئی بھی مسلسل حالت ذہن پہ کوئی تاثر پیدا نہیں کر سکتی، اس میں یکبارگی اور ناگہانی کا ہونا لازم ہے، جبھی تو نفسیاتی یا جذباتی تبدیلی آ سکتی ہے۔ سٹیفن کنگ کا کہنا بھی یہی ہے کہ،

”A short story is like a kiss in the dark from a stranger.“

پریم چند کے مطابق کوئی بھی قصہ یا واقعہ سنانے کے لیے افسانہ نہیں لکھا جاتا۔ اگر کہانی میں کوئی بھی نفسیاتی یا جذباتی کلائمکس موجود ہو تو پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کس قصے یا واقعے سے تعلق رکھتا ہے، وہ یقیناً افسانہ کہلائے گا۔ ف۔ س۔ فٹز جیرالڈ نے بھی یہی کہا تھا کہ

”Find the key emotion; this may be all you need to know to find your
Short story. ”
ایڈگر ایلن پو کی بات بھی اسی بات سے مشابہت رکھتی کہ
”A short story must have a single mood and every sentence must build towards it.“

پریم چند کہتا ہے کہ بعض دفعہ تاریخ کے مطالعے سے بھی پلاٹ بن جاتے ہیں۔ لیکن تاریخی واقعات میں افسانہ نگار کوئی نہ کوئی ایسی نفسیاتی یا جذباتی جہت کو پا ہی لیتے ہیں جس پر وہ افسانے کا پورا پلاٹ کھڑا کرسکیں۔ تاریخ میں بس دو ہی چیزیں سچ ہوتی ہیں، ایک نام اور دوسری تاریخیں۔ جبکہ فکشن میں ان دو چیزوں یعنی نام اور تاریخ کے جھوٹ ہونے کے علاوہ باقی سب کچھ سچ، کھرا اور بے باک ہوتا ہے۔ افسانہ نگار اگر تاریخی واقعات میں کوئی ڈرامائی پہلو تراش لیتا ہے تو باقی کا پلاٹ اپنے آپ ہی بن جاتا ہے۔

آگے چل کر پریم چند مزید کہتا ہے کہ ”کوئی واقعہ محض لچھے دار اور چست عبارت میں لکھنے اور انشا پرداذانہ کمالات کی بنا پر افسانہ نہیں ہوتا“ ۔ پریم چند ان میں کلائمیکس کی غیر معمولی نوعیت سے محاصل کو سمیٹنا چاہتے ہیں۔ شاعرانہ کیفیات جہاں کہیں بھی پیدا ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، پریم چند ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھانے کو سود مند سمجھتے ہیں بلکہ اسے افسانے کی روح بھی قرار دیتے ہیں۔ یہ شاعرانہ کیفیات اپنے اندر ایک جاذبیت بھی رکھتی ہیں، جو قاری کو سطر بہ سطر ایک نئی تصویر دکھاتی ہیں۔ کلائمکس کے موثر اور کارگر ہونا بھی اسی بات سے مشروط ہے کہ اس نتیجے تک کس رستے سے ہو کر پہنچا گیا ہے۔

آگے چل کر پریم چند کچھ فطری عناصر کو درج کرتے ہیں، جو افسانے پر اثر گیر ہوتے ہیں۔ پریم چند کہتا ہے کہ افسانی لکھنا اتنا مشکل نہیں، جتنا اس کی ایک نفسیاتی بنیاد کو تلاشنا ہے۔ واقعات اور کردار بھی اسی کی موافقت سے وجود میں آتے ہیں۔ یہاں ایک فطری مناسبت بھی ضروری ہے جو شاعر سے شعر کہلواتی ہے اور افسانہ نویس سے افسانہ۔

افسانہ، ناول اور ڈرامے سے ایک مختلف صنف ہے، ان میں موضوعاتی ہم آہنگی ہو سکتی لیکن افسانے کی ہیئت اور صنفی اوصاف ناول اور ڈرامے کی طولانی سے کبھی میل نہیں کھا سکتی اور وہ نفسانی و احساساتی رسوخ بھی حاصل نہیں کر سکتیں جو افسانے اپنے اختصار میں رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments