مچ گیلری شعاع امید (2)


مچ گیلری سے بکھرتے ہوئے رنگ جب فضاؤں کی جانب نکلتے ہیں تو ان کی خوبصورتی کا اندازہ رنگوں کی زبان سمجھنے والے ہی مچ گیلری کی شان ہیں یہ وہ شخصیات ہیں جو کسی تشہیر کی محتاج نہیں وہ تو اپنی مگن میں رہتے ہیں اور ہر آنے والے کی شخصیت کو سنوارنے کی جستجو میں ایسے انداز میں مصروف رہتے ہیں کہ بندہ زمانے کی ہی نہیں قدرت کے رموز سے بھی آگاہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مچ گیلری کی چند خوبیوں سے آگاہ کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ صحافیوں کے متعلق کچھ منفی باتوں اور رویوں کا اکثر محفلوں میں تذکرہ سننے کو ملتا ہے جس کو زائل کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کر رہا ہوں تحریر کے پہلے حصے میں اپنے ناقص علم کے مطابق جو کچھ لکھا وہ نہ تو لکھتے ہوئے سوچا اور نہ ہی کوئی ایک لفظ ذہن میں تھا جو کچھ صفحے پر لکھا گیا وہ ہی حتمی تھا کوئی کانٹ چھانٹ بھی نہیں کی بس لکھنے سے پہلے صرف ایک بات کا ڈر تھا کہ اتنے نامور لوگوں پر لکھتے ہوئے اپنی کم علمی کی بنا پر کوئی ایک لفظ ان کی شان سے کم تر نہ ہو تحریر شائع ہوئی تو پہلے ذوالفقار چوہدری جناب عظیم نذیر اور پھر محترم صوفی خاور کے محبت بھرے پیغام ملے اور بات ہوئی کہ مچ گیلری آ جایں میں انکار نہ کر سکا مجھے اندازہ نہ تھا کہ میرے وہاں پہنچنے سے پہلے میری مچ گیلری پر لکھی تحریر پڑھی جا چکی ہو گی سب نے اتنی تعریف کی کہ روحانی سی خوشی ہو رہی تھی اور یہ ان تمام دوستوں کا وہ قرض ہے جو میری کوشش ہے کہ کسی روایتی فقرے کی نظر نہ کروں دل تو چاہتا ہے کہ اس قرض کے بوجھ تلے دبتا ہی جاؤں اور ایسے میں جناب اقبال جکھڑ کی آمد ہوئی اور انہوں نے پرتپاک انداز مین ملتے ہوئے کہا کہ آپ کی مچ گیلری پر تحریر پر آپ کو سیلوٹ جو میرے لیے اعزاز کی بات ہے مچ گیلری میں موجود سب نے اپنے اپنے انداز میں اظہار کیا۔

میرا جب بھی پریس کلب آنا ہوتا ہے پہلے صرف پہاڑی پھر ہٹ اور اب مچ گیلری میں ہی آنا ہی پہلی اور آخری ترجیح ہوتا ہے اور اس کی بھی سب سے اہم وجہ ذوالفقار چوہدری کی محبت ہے جو مجھے یہاں کھینچ لاتی ہے۔ مچ گیلری میں گفتگو کا سلسلہ جاری تھا اور مجاہد جعفری ماضی کی یادوں کے ساز چھیڑ رہے تھے جناب عظیم نزیر کی ہنڈیا میں پکنے والے سالن کی مسحور کن مہک سب کی بھوک میں اضافہ کر رہی تھی اور وہ اس سالن کو گلانے کے جتن کر رہے تھے جیسے ہی وہ ہنڈیا کا ڈھکن اٹھاتے تو سب بے قرار ہو جاتے کہ ہنڈیا تیار ہو گئی اور عظیم نزیر صاحب یہ کہتے ہوئے پھر ہنڈیا پر ڈھکن رکھ دیتے کہ ابھی تھوڑا اور انتظار کریں ابھی ہنڈیا اور جناب عظیم نزیر کے درمیان انکھ مچولی کا کھیل جاری تھا جناب عظیم نزیر کی خوبصورت شخصیت کا خاصہ ہے کہ وہ ہنڈیا کو بیچ چوراہے نہیں توڑتے بلکہ اسے مکمل ذائقے کی تیاری کے ساتھ دوستوں کے لیے تیار کرتے ہیں ان ہی لمحوں صوفی خاور فاصلوں کو کم کرتے ہوئے قریب آئے اور گرمجوشی سے ملے صوفی خاور بڑے انسان کے بھائی تو ہیں ہی لیکن انہوں نے ماں سے محبت کا جو اسلوب اپنایا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے وہ صرف نام کے صوفی نہیں ماں کی محبت اور دعاؤں نے ان کو روحانی طور پر صوفی ازم کا شاندار نمونہ بنا دیا ہے صوفی خاور اپنی ماں جی کی رحلت کے بعد سے اپنی ہر صبح کا آغاز ماں کی آخری آرام گاہ پر حاضری سے کرتے ہیں ماں کی لازوال چاہت نے ہی ان کو زمانے سے بے نیاز اور صوفی بنا دیا۔

مچ گیلری میں شہر لاہور کی ثقافت کو زندہ رکھنے والے شاہد خواجہ المعروف آقا بھی موجود تھے وہ جیسے ہی لب کشائی کرتے ہیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شہر لاہور کی گلیوں کے تھڑے آباد ہو گئے بالکونیوں سے خالص رشتوں کی مہک اور مد بھری آوازوں سے دل کے ساز تو چھیڑ جاتے ہیں اور انہی سازوں میں لاہور کی چھتوں پر قائم چھجوں سے اڑتے ہوئے کبوتر محبت اور امن کے نغمے شامل کر دیتے ہیں یہ کبوتر چاہے کسی بھی نسل سے تعلق رکھتے ہوں شہر لاہور کی چھتوں کی رونق اور خوبصورتی ہیں اس شہر میں بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے پیار کا بھی الگ ہی انداز ہے شہر کے باسی کسی اپنے کو گالی بھی دیں تو وہ گالی نہیں عزت ہی محسوس ہوتی ہے جناب عظیم نزیر نے ایک بار پھر ہنڈیا سے ڈھکن اٹھایا تو دم مست شخصیت افضل شاہ جی نے مد بھرے انداز میں ہنڈیا کے شوربے سے اٹھنے والے دھواں کا بغور جائزہ لیا لیکن مزید صبر کی آواز گونجی اور نعیم اختر بھی مچ گیلری میں ہنڈیا کی اس خوشبو سے دور نہ رہ سکے اور قریب ہو کر انتظار کرنے والوں کی لڑی میں پروئے گئے ہنڈیا کی تیاری قریب تھی اور اس کا ذائقہ چکھنے والوں کا رش بھی بڑھ رہا تھا اور مجاہد جعفری کی کوشش تھی کہ وہ ماضی کے صحافتی کارناموں کے ذکر میں سب کو مشغول رکھے لیکن مجھے جس شخص کی کمی محسوس ہو رہی تھی وہ میرا عسکری غازی مجاہد کرنل ر ندیم خان تھا جو ان دنوں مچ گیلری میں جلوہ افراز نہیں ہو رہے عسکری تو وہ ہے اب مجاہد اور غازی کس طرح ہے یہ کبھی تاریخ ہی فیصلہ کرے گی کچھ سینے میں محفوظ رکھنا بھی ملکی اور دوستوں کے مفاد میں ہوتا ہے۔

مچ گیلری بارے آگاہی کا مقصد صرف اتنا ہے کہ یہاں پر کچھ سیکھنے کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے یہاں وارث شاہ کی ہیر اور رانجھے کی ونجلی سے نکلتی ہوئی مٹھڑی تان بھی گونجتی ہے تو بابا فرید کی کافیاں بھی روح کو تر و تازہ کرتی ہیں بابا بھلے شاہ کی ماں بولی کی ہوک سنائی دیتی ہے تو سوہنی مہینوال کی گھڑے کی لازوال داستان اور لیلی مجنوں کے عشق کی کہانی کا ذکر بھی ہوتا ہے یہاں پپو سائیں کے ڈھول کی تاپ نے بھی ماحول کو گرمایا تو علی ہجویری کے تصوف پر بھی بات ہوئی تو میاں میر کے جلال سے لبریز روحانیت بھی آ شکار ہوئی یہاں اقبال کی آزادی سے فیض کی بغاوت اور جالب کے نعرہ مستانہ سے لے کر احمد فراز کی معاشرے سے شکوہ کے ادب پر بھی گفتگو جاری رہتی ہے تو استاد دامن کی حکمرانوں کو للکار کی آواز بھی یہاں کے درو دیوار سے ٹکراتی ہے اور میں بھی یہاں کے سحر میں گم تھا کہ مخصوص آواز کانوں میں پڑی کہ چوہدری صاحب روٹیاں آ گیاں نے اور پھر روٹی کھل گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments