بلوچستان: صحت کا تباہ حال شعبہ


تباہی ہمارے سامنے ہے، لیکن ترجیحات کہیں اور ہیں۔ صوبائی حکومت، ڈاکٹر، دونوں صوبے میں صحت کے نظام کی تباہی اور افسوسناک حالت کے ذمہ دار ہیں۔

صوبے میں صحت کے شعبے کے حوالے سے اشاریے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ صوبے کے لوگ قرون وسطیٰ کے جیسے دور میں رہ رہے رہو۔ 12.3 ملین کی آبادی کے لیے 4015 ڈاکٹرز بشمول 1057 سرجن خدمات انجام دے رہے ہیں، مطلب، ایک ڈاکٹر تقریباً 3000 لوگوں کے لیے دستیاب ہے۔ پاکستان بیورو آف شماریات 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق، صوبے میں کل ہسپتال 134 ہیں، 574 ڈسپنسریاں اور 95 زچگی اور بچوں کی بہبود کے مراکز ہیں۔ ان ہسپتالوں اور ڈسپنسریز میں کل 7797 بستر دستیاب ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک بستر 1577 افراد کے لیے ہے جبکہ ہر ہسپتال تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

جب ہم زچہ و بچہ کی دیکھ بھال کے شعبے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو صورتحال مزید تکلیف دہ ہے۔ زچگی کی شرح اموات 785 / 10000 ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ نوزائیدہ اموات کی شرح 129 / 1000 یہ جو کہ ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ مزید برآں، نوزائیدہ اموات کی شرح، ( جب کوئی بچہ 28 دنوں کے اندر مر جاتا ہے ) 34 / 1000 ہے، جب کہ 1 سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات 66 / 1000 ہے۔ MNCH کے مطابق بعد از پیدائش زچہ و بچہ کی دیکھ بھال کی صورت حال غیر معمولی حد تک افسوسناک ہے۔ صرف 14.7 فیصد بچوں کو بعد از پیدائش کی دیکھ بھال ملتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف صوبے میں 47 فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

نجی صحت کا شعبہ حکومت کی جانب سے بدترین طرز حکمرانی اور مالکان کی جانب سے انسانیت دشمنی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ صوبے کے پرائیویٹ ہسپتال پیسے کمانے کی مشین بن چکے ہیں، حکومت کی طرف سے قیمتوں کا کوئی معیار نہیں ہے۔ دوسری جانب عطائی ڈاکٹروں نے پرائیویٹ سیکٹر کو یرغمال بنا رکھا ہے جبکہ ہزاروں میڈیکل سٹور بغیر کسی اصول و ضوابط کے کام کر رہے ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق میرے آبائی ضلع چمن میں حکومت کے ساتھ صرف ایک پرائیویٹ ہسپتال رجسٹرڈ ہے۔ دوسری طرف صوبے میں لیبارٹریز عوام کی زندگیوں سے کھیل رہی ہیں جہاں غیر تربیت یافتہ لوگ لیبارٹریز چلا رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹرز معاشرے کے ستون ہوتے ہیں لیکن ہمارے صوبے میں چند کو چھوڑ کے ڈاکٹروں کی اکثریت اپنے مضموم مقاصد کے لئے بار بار حکومت پر دباؤ ڈالتی رہی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے نام پر برسوں سے بلیک میلنگ عروج پر ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کے لیے سرکاری ہسپتالوں کی بندش اور ڈیوٹی سے بائیکاٹ (جن کئی دوران وہ تنخواہیں بھی لیتے ہیں ) معمول بن چکا ہے۔ ساتھ ہی اسی دوران اپنی سرکاری ڈیوٹیاں چھوڑ کر یہ کالی بھیڑیں اپنے پرائیویٹ کلینک میں لوگوں کو لوٹتی ہے۔ ایک ڈاکٹر کس بنیاد پر ڈیوٹی سے بائیکاٹ کر سکتا ہے؟

ان کے مطالبات کے پیش نظر، حکومت نے ڈاکٹروں کے لیے تین پیکج (A، B، C) کا اعلان کیا۔ اس پیکج کے مطابق تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا۔ اس کے باوجود، ڈاکٹر ابھی تک کوئٹہ سے باہر ڈیوٹیاں نہیں کرتے۔ اور یہاں تک کہ، ایک سرجن، یا ایف سی پی ایس ڈاکٹر صوبے کے دور افتادہ علاقے میں ڈیوٹیاں ادا کرنے سے قاصر ہیں حتی کہ اپنے ہی ضلع میں ڈیوٹی کرنے سے گریزاں ہیں۔ جن کے کوٹے پر انہوں نے میڈیکل سیٹ حاصل کی ہوئی ہوتی ہے۔

بلاشبہ، صوبائی حکومت کی جانب سے خراب طرز حکمرانی کو بدترین صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ 2021۔ 22 میں بجٹ کا 32 فیصد مختص کیا گیا تھا۔ لیکن ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ صوبے کی سکڑتی ہوئی معیشت کی وجہ سے صحت کے شعبے کی مکمل تعمیر نو ناممکن ہے۔ موجودہ حالات میں صحت کے شعبے کی نجکاری کوئی برا تصور نہیں ہو گا۔

بلوچستان ہیلتھ کیئر کمیشن ایکٹ 2019، ایک قابل ستائش دستاویز ہے جس میں عطائی ڈاکٹروں کے معاملات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے بشرطیکہ اسے حقیقی روح کے ساتھ لاگو کیا جائے۔ مزید یہ کہ بلوچستان پرائیویٹ ہسپتال ریگولیشن ایکٹ 2004 ایک اچھا اقدام ہے اگر پرائیویٹ ہسپتالوں کا معائنہ اس ایکٹ کے مطابق کیا جائے تو بہت سے چیلنجز کو حل کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان صحت کے شعبے کی حکمت عملی 2018۔ 2025 اس شعبے کی تعمیر نو کے لیے ایک اہم دستاویز ہے۔ لیکن ایک بار پھر چیلنج بجٹ مختص کرنا ہے، جو فی الحال پورا نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی صوبائی IRMNCAH@N کی حکمت عملی بچوں، ماں کی صحت اور غذائیت کے بارے میں ایک جامع منصوبہ ہے۔ ایک بار پھر، رکاوٹ بجٹ کی تقسیم ہے، جو صوبے کی موجودہ معاشی بحران میں ناممکن ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب اس شعبے پر اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں، جب حالات تسلی بخش نہ رہے۔ عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ صحت کے شعبے کو نجی شعبہ کے حوالے کیا جائے۔ نجکاری سے کم از کم صوبے کے پسماندہ لوگوں کے درد میں کمی آئے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments