نومولود بچوں کا قتل بربریت کی انتہا


اولاد یا اپنے بچے ہر جاندار کے لئے کائنات کی سب سے قیمتی شہ تصور کیے جاتے ہیں، اور ان کی خاطر وہ کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں، بالخصوص جب وہ پیدا ہوئے ہوں، تب ایک ننھی سی چڑیا بھی اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ایک بڑے سانپ سے لڑ جاتی ہے۔ یہ مامتا ہے کائنات کا سب سے عظیم بے لوث اور بے مثال جذبہ جس کی مثال دینا اور ملنا مشکل ہے۔ ہم جس معاشرے میں جیتے ہیں اس کے شعار میں یہ بات شامل ہے کہ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر رحم و مہربانی کی جائے۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ درندے تک کبھی کبھی اپنے شکار کے ننھے بچے کو گزند نہیں پہنچاتے۔ ایک ایسی ہی وائلڈ لائف ویڈیو نے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا جب ایک شیرنی نے ہرن کا ایک لاوارث نومولود بچہ جنگل میں پا لیا، اپنی جبلت کے مطابق وہ اسے کھانا ہی چاہتی تھی کے بچہ جو ابھی شکاری اور شکار کا فرق جاننے سے قاصر تھا اسے اپنی ماں جان کر اس سے جا لپٹا، اس کے بعد شیرنی نے اس نومولود ہرن کے بچے کو نہیں کھایا، کئی دن بھوکی رہی مگر اس بچے کی دوسرے شیروں سے حفاظت کرتی رہی۔

یہ ایک بہت ہی انوکھا نظارہ تھا جو چشم فلک نے شاید پہلے بھی دیکھا ہو مگر انسانی مشاہدے میں پہلی بار ایسا ہوا تھا۔ تو کیا انسان اب جنگلی درندوں سے بھی زیادہ وحشی اور ظالم ہو گیا ہے کہ وہ اپنے خود کے پیدا کیے ہوئے بے بس لاچار نومولود بچوں کو کوڑے دانوں، کچرا کنڈیوں اور جھاڑیوں میں کبھی مار کر اور کبھی زندہ پھینک دیتا ہے۔ یہ بہت ہی تلخ مگر چشم کشا حقیقت ہے جو ہمارے معاشرے میں بہت تیزی سے پنپ رہی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان پھینک دیے جانے والے نومولود بچوں کے کے علاوہ ریکارڈ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 2,200 بچے سالانہ ہسپتالوں میں لاوارث چھوڑ دیے جاتے ہیں، جو بذات خود ہمارے معاشرتی نظام میں سقم کا آئینہ دار ہے۔

اس حوالے سے گزشتہ دو دنوں میں رونما ہونے والے واقعات نے نہ صرف نہایت رنجیدہ کیا بلکہ شرمندہ بھی کیا، پہلا واقعہ کراچی کے علاقے گلشن حدید میں پیش آیا جہاں جھاڑیوں سے ایک نومولود زندہ بچی ملی تھی جو بعد میں دوران علاج چل بسی، دوسرے دن دوسرا واقعہ فیصل آباد میں پیش آیا جب ایک نومولود کو پڑوسیوں کی چھت پر پھینک دیا گیا، یہ بھی زندہ تھا مگر پھینکے جانے کی وجہ سے زخمی تھا جو بعد ازاں چل بسا۔

یہ واقعات ہماری معاشرے میں پنپتی اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کے لئے کافی ہیں، ظاہر ہے کہ کوئی بھی انسان اپنے جائز بچے کو قتل کرنا تو کجا تکلیف دینے کا بھی نہیں سوچ سکتا، تو پھر یا کیا ہو رہا ہے۔

یہ علامت ہے معاشرے میں زنا کے عام ہو جانے کی، جس کے نتیجہ میں یہ بچے پیدا ہو رہے ہیں اور جنہیں نہایت بربریت کے ساتھ ٹھکانے لگایا جا رہا ہے یا قتل کیا جا رہا ہے۔ جو گناہ عظیم ہے، یعنی تین گناہ کبیرہ ایک تسلسل سے ہو رہے ہیں، اول زنا، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے، اور پھر ان بچوں کا قتل، مگر اس حوالے میں کوئی ٹھوس قدم تاحال نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔ لہذا یہ ناسور شہروں سے قصبوں اور قصبوں سے گاؤں دیہات تک نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے، بلکہ پھیل چکا ہے اور اگر اب بھی اس کا مناسب علاج نہ کیا گیا تو اس ناسور کا سیل بلا جانے کہاں جا کر ٹھہرے اور کیا کیا گل کھلائے۔

ان تمام واقعات کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بے راہ روی و بدکرداری اب گھر گھر پھیل چکی ہے، چونکہ نامحرم مرد و زن کے اختلاط کو معیوب نہیں سمجھا جاتا، لہذا کہیں نہ کہیں شیطان کا تیر چل جاتا ہے، رہی سہی کسر انٹرنیٹ پر موجود فحش مواد نے کردی ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھنے والوں میں اول درجہ پر ہے، جو ہماری عاقبت نا اندیشی کی زندہ مثال ہے، کیا پانی سر سے گزر جائے گا تو جاگیں گے۔

بچہ بچہ کے ہاتھ میں ٹچ موبائل ہے جس پر انٹرنیٹ بھی موجود ہوتا ہے، اب یہ معصوم ذہن بچے اس کے مضمرات سے ناواقف محض نادانی میں یا والدین کی غفلت کی وجہ سے اس علت کا شکار ہو جاتے ہیں، اور پھر بہت سی مشکلات کا شکار بنتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بے شمار ضمیر فروش لوگ موجود ہیں جو بچوں کی فحش فلموں کی فروخت کو اپنا ذریعہ معاش بنائے ہوئے ہیں، جس ملک کی کرنسی پر لکھا ہو رزق حلال عین عبادت ہے، وہاں یہ دھندے ہونا اس بات کی علامت ہے کہ مشتری ہوشیار باش، بہت کچھ تباہ ہو چکا ہے، مزید تباہ کرنے کو کچھ بھی نہیں، لہذا اب بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لئے جائیں اور اپنے کم عمر بچے بچیوں کی حرکات و سکنات پر کڑی نگاہ رکھی جائے اور اگر معاملات گڑبڑ پائے جائیں تو ان سے نہایت سنجیدگی کے ساتھ نمٹا جائے۔

کیونکہ حالات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ ان پر فوری توجہ نہ دی گئی تو معاملات تکلیف دہ حد تک بگڑ سکتے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ دنوں ایک چودہ سالہ بچی نے ایک بچے کو جنم دیا، والدین کے بیان کے مطابق وہ سمجھ رہے تھے کہ اس کے پیٹ میں رسولی ہے، والدین کی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری ان کے بیان سے ہی صاف ظاہر ہے، جب اس کو بچہ ہوا تو بتانا ہی پڑا کہ اسکول کے دو لڑکوں نے اس کے ساتھ زبردستی کی تھی۔ اب یہ معاملہ تو تحقیق سے ہی پتہ چل سکتا ہے کہ معاملہ باہمی رضامندی سے ہوا تھا یا زبردستی، ہر دو صورتوں میں معاملہ تشویشناک ہے کہ اگر باہمی رضا مندی سے انہوں نے زنا کیا تو سوچیں کہ وہ کس حد تک آچکے تھے کہ ان کے دل سے اس فعل قبیحہ کا خوف، معاشرے میں بدنامی، خاندان میں رسوائی سب کچھ ثانوی بلکہ کہیں بہت پیچھے اور نچلے درجہ کی ترجیح بن کر رہ گیا تھا جس نے معاشرے کو مستقل پراگندہ کر کے رکھ دیا۔

اور اگر بات زیادتی کی تھی جس کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں کیونکہ بچیاں عموماً اتنے بڑے سانحے کو اپنی والدہ سے ضرور تذکرہ کر لیتی ہیں۔ پھر بھی ہم مان لیتے ہیں کہ یہ سب کچھ زبردستی ہوا تھا، تب بھی معاملہ نہایت پریشان کن اور تکلیف دہ ہے کہ بچے اس حد تک بے راہ روی کا شکار ہو چکے ہیں کہ اس عمر میں جب استاد کے ایک تھپڑ کا خوف دامن گیر رہتا ہے انہیں جیل اور سزا ساتھ ساتھ بدنامی کسی بات کا خوف نہ تھا، لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ بچے کیا دیکھ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔

اسی طرح یہ کیسے ممکن ہے کہ لڑکی نو مہینے حاملہ ہو، گھر میں رہتی ہو اور والدین یا خاندان والوں کو اس کے حمل پر شک نہ ہو۔ مگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور کثیر تعداد میں بے گناہ نومولود بچے لوگوں کی ہوس و زناکاری کا شکار ہو رہے ہیں، گناہ کسی نے کیا ہوتا ہے مگر تکلیف کوئی اور اٹھاتا ہے، جان سے کوئی اور جاتا ہے۔ وہ نومولود کس گناہ کی پاداش میں نہایت بربریت سے مار دیا جاتا ہے، مگر یہ ہو رہا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے، میری یہ بات شاید بہت سے لوگوں کو بری لگے مگر حقیقت کچھ کے آس پاس ہی ہے، کہ ہم کچھ عرصہ پہلے مغربی معاشرے پر انگلیاں اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ تو مادر پدر آزاد معاشرہ ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سیلاب بلا تھم نہ سکے اور ہم بھی ان ہی کے جیسے ہو کر رہ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments