سیکس اور سماج: سعید ابراہیم



سیکس اور سماج۔ یہ نہایت ضروری کتاب میں نے ابھی ابھی مطالعہ کی ہے۔ اس کتاب کے مصنف سعید ابراہیم ہیں جو نیشنل کالج آف آرٹس اور دیگر کئی ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں سے منسلک رہے۔ کچھ عرصہ جنگ گروپ میں بطور آرٹ ڈائرکٹر بھی کام کرتے رہے اور مسرت کی بات یہ ہے کہ میری جنم بھومی، گوجرانوالہ کے فرزند ہیں۔

کتاب کے نام کے نیچے باریک فونٹ میں لکھا ہے ”مکالمہ ضروری ہے“ اور شاید یہی وجہ کہ محترم سعید ابراہیم نے اسے ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہ اس پر مکالمہ کیا جائے۔ کتاب کے آغاز میں وہ خود لکھتے ہیں کہ اس کتاب کو لکھنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ ہمارے معاشرے میں جنس اور جنسیت کو گھیرے ہوئے ممنوعات سے پریشان تھے۔ یہ کتاب لکھنے کے لیے انھیں سعادت حسن منٹو، امرتا پریتم اور احمد بشیر نے متاثر کیا۔ وہ لکھتے ہیں : ’اگر اخلاقیات اور اقدار زندگی کو آگے بڑھنے سے روک دیں تو پھر انسان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا وقت ختم ہو گیا ہے اور انہیں تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دینا چاہیے۔ ”

ہمارے معاشرے میں جنس اور جنسیت جیسے موضوعات پر مکالمہ تو دور، بات کرنے کے لیے بھی کافی دلیری کی ضرورت ہے اور سعید ابراہیم کی جرات دیکھئے کہ انہوں نے اس نازک اور بہت ہی اہم موضوع پر تین سو صفحے کی کتاب لکھ ڈالی۔ اس کے ایک ایک لفظ نے اس پیچیدہ مسئلے کو سیر حاصل طریقے سے اجاگر کیا ہے۔ سعید ابراہیم نے درست کہا ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں ہمیں شتر مرغ کا سا رویہ نہیں اپنانا چاہیے کیونکہ اسی رویے کی بنا پر معاشرے میں بہت سی برائیاں پیدا ہوئی ہیں۔

ٹیبوز کا یہ عالم ہے کہ بچے کو صحیح طریقے سے یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ وہ کیسے پیدا ہوا۔ گو مصنف نے اس سلسلے میں ایک لطیفے کا سہارا لیا ہے جس کے مطابق بچے کو اس کی پیدائش کے بارے میں بس اتنا بتایا جاتا ہے کہ رات کوئی فرشتہ اسے اس کی ماں کے پہلو میں لٹا گیا تھا۔ بچے کے استفسار پر کہ کیا اس کے ماں باپ اور ان کے ماں باپ بھی ایسے ہی وجود میں آئے۔ ظاہر ہے جواب ایک ہی تھا تو بچے نے کہا کہ اوہو ہمارے خاندان میں کوئی بھی نارمل طریقے سے پیدا نہیں ہوا۔ یہ ہمارے معاشرے پر کس قدر بھرپور طنز ہے۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

اس جرات مند قلم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ کون سی غلط فہمیاں، عام سی سادہ زندگی گزارنے اور خوش ہونے کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ ہم کس طرح غیر معمولی جنسی زندگی گزار رہے ہیں اور پھر اسے فروغ بھی دیے چلے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ذہنوں میں اٹھنے والے سوالوں کے جواب، اول تو ہم دے نہیں پاتے اور دیتے بھی ہیں تو گول مول یا آئیں بائیں شائیں قسم کے۔

پاکستانی معاشرے میں جنس کے بارے میں بات کرنا بہت ہی پر خطر اور نازک معاملہ ہے اور اس پر ایسی کتاب لکھنا جو اس کے تقریباً تمام پہلووں کو نہ صرف اجاگر کرے بلکہ ان پر سوال اٹھائے بذات خود ایک جرات رندانہ سے کم نہیں۔ میری نظر میں سعید ابراہیم شاید وہ پہلے پاکستانی مصنف ہیں جنہوں نے اس کتاب میں ان اسباب کو کھل کر بیان کیا ہے جنہوں نے جنس اور جنسیات پر بات کرنے کو ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ یہاں جو جاگیردارانہ اور استعماری اقدار رائج ہیں ان کی روشنی میں معاشرے کی بدلتی اقدار کا بھی خاصا ذکر ہے اس کتاب میں۔

غلامی سے آزادی، مادر سری نظام سے پدر سری نظام میں تبدیلی، محبت، حقیقت، سراب، فطرت کا تصور اور اس سے جڑی شرم، منافقت اور جستجو، جہیز، تاریخ کی روشنی میں شادی کا ادارہ، مشترکہ خاندانی نظام اور مختلف معاشرتی برائیاں۔ ان سب کا احوال ایک نہایت ہی تخلیقی اور عام فہم زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ سعید ابراہیم نے اس کتاب میں اشرف علی تھانوی اور ابو الاعلی مودودی کے خیالات پر بھی کھل کر گفتگو کی ہے اور کچھ مشاہیر عالم پر بھی۔

ہو سکتا ہے کوئی قاری مصنف کو نسوانی جد و جہد کا مرد اتحادی کہے لیکن ماضی قریب میں اور آج کل رونما ہونے والے عورت دشمن واقعات اور خواتین کے خلاف تشدد کی وجوہات یہاں کھل کر بیان کی گئی ہیں اور وہ یقیناً وہ نہیں جو ہم روز سنتے رہتے ہیں۔ اس کتاب میں ان وجوہات کی ایک تاریخ نظر آتی ہے۔ معاشرے کے ارتقا اور مختلف مراحل سے گزرتے معاشی نظام کی تبدیلی کے ساتھ بدلتی اقدار اور جاگیردارانہ تعصبات سمیت دیگر تعصبات سے ان کا جوڑ بھی ملتا ہے جس کے نتیجے میں نظریات اور عمل کے فرقوں نے جنم لیا ہے۔

عین ممکن تھا کہ سماجی علوم، بشری علوم، تاریخ اور سیاست کے حوالوں کی بنا پر اس کتاب کے مندرجات مصنف کے ہاتھ سے نکل جاتے لیکن انہوں نے بہت نازک اور پیچیدہ موضوعات کو کمال ذہانت سے نبھایا ہے۔ یہاں انہوں نے سعادت حسن منٹو اور کچھ دیگر ادیبوں کے افسانوں سے بھی مثالیں اخذ کی ہیں اور درست طور پر کی ہیں۔ ثقافت کے ضمن میں اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد سے لے کر انٹر نیٹ اور سیل فون کلچر کی موجودگی میں عورت اور اس کی ازدواجی زندگی کے مسائل کو گویا کوزے میں بند کر دیا ہے۔

محترم سعید صاحب نے اس کتاب میں فحاشی، ہماری عورت کا المیہ، مسلم عرب کی ابتدائی معاشرتی صورت حال، احادیث میں عورت کا مقام، اشرف علی تھانوی اور سید مودودی کی جاگیردارانہ سوچ، اکبر الہ بادی کی جدید تہذیب دشمنی، والدین کی صورت حال، فطرت اور شرم و حیا، منافقت اور تجسس، ماسٹربیشن، محبت، جہیز، بند ماحول اور جنسی فرسٹریشن، شادی اور شادی کی بربادی اور جنسی شناخت کے عنوانات کے تحت کمال بیانیہ تخلیق کیا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ کتاب کے عنوان میں ”مکالمہ ضروری ہے“ بھی درج ہے تو یہ مکالمہ کیوں ضروری ہے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم نے اپنے ماحول اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اس قدر خشک اور جامد، بور اور بے کیف اور حسن و لطف سے عاری کر رکھا ہے کہ ایک حیوان کی حیثیت سے جن جبلی خوشیوں پر ہمارا حق ہو سکتا ہے، یہ کہہ کر کہ ہم حیوان نہیں انسان ہیں، ان سے خود کو محروم کر لیا ہے اور یہیں پر بس نہیں، انسان ہوتے کے ناتے جن خوشیوں پر حق ہو سکتا ہے انہیں یہ کہہ کر حرام کر لیا ہے کہ ہم انسان نہیں مسلمان ہیں۔

یوں ہم ایک زبردست ثقافتی گھٹن کا شکار ہیں۔ اس گھٹن سے نجات کے لیے مکالمہ واقعی ضروری ہے۔ سیکس اور سماج ایک نہایت فکر انگیز کتاب ہے اور اس نے ان لوگوں کے دعوے کو باطل کر دیا ہے جو سمجھتے ہیں کہ اس پر کھل کر بات نہیں ہو سکتی۔ کاش اس کتاب کے مندرجات بذریعہ نصاب ہمارے طالب علموں تک پہنچ پائیں۔ محترم سعید ابراہیم کے لیے ڈھیروں داد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments